سوال : جناب نے سیاست کا آغاز کب کیا ؟
جواب : یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میرے دادا جی رکن قومی اسمبلی اور والد
صوبائی نشست پر ممبر منتخب ہوچکے تھے،ہمارے ہاں ’’ وراثتی سیاست ‘‘ کا
رجحان بالکل نہیں تھا، بس عوام کے پرزور مطالبہ پر والد صاحب مجھے سیاست
میں لے آئے حالانکہ میرا اپنا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
سوال: ایک طرف آپ وراثتی سیاست کے خلاف ہیں تو دوسری طرف خود اسی وراثت کے
حصہ دار ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
جواب: آپ سہیل وڑائچ نہ بنیں یہ تضاد نہیں، مصلحت ہے۔ عوام کے مطالبہ پر
اگر کوئی ’’ سیاہ ست ‘‘ میں آجائے تو اُسے وراثتی نہیں کہنا چاہیے، ہمارے
عوام کے ذہنوں کے پردے شاید بند ہوچکے ہیں خود ہی ہمیں ’’ سیاہ ست ‘‘ میں
لے آتے ہیں پھر ہمیں ہی وراثتی ’’ سیاہ ست دان ‘‘ کے طعنے دیتے ہیں۔
سوال :آپ حکومت کا حصہ ہیں، پھر بھی پریشانی ، پریشانی کی رٹ لگارکھی ہے
وجہ ؟
جواب: محترم پریشان کیوں نہ ہوں ، ضلعی حکومت کے سربراہ اورضلعی پولیس کے
آفیسر ہماری بات ماننے کو تیار ہی نہیں، پتہ نہیں کہاں سے ایمانداری اور
میرٹ کے بادام کھا کے آگئے ہیں، میرٹ میرٹ اور انصاف انصاف کی رٹ لگارکھی
ہے بھلا یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے ؟ ہم عوام کو کیا جواب دینگے ؟
سوال : کیا آپ میرٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے ؟
جواب: جی الحمد للہ ! میں تو میرٹ پر ہوں مگر آپ کا سوال میرٹ پر نہیں ہے۔
آپ ہاتھ دھوکر کر میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔
سوال: آپ کا کام عوامی خدمت ہے، تھانہ کچہری نہیں ، پھر آپ ان افسران کے
پیچھے کیوں لگ گئے ؟
جواب : او میرے بھولے لکھاری! اگر ہم تھانہ کچہری کی سیاست چھوڑ دیں تو پھر
ہمیں ایم این اے ، ایم پی اے کون کہے گا ؟ اسی کے سر پر تو ہم سیاست کرتے
ہیں آپ بھی کتنے بھولے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہماری سیاست کی بقاء تھانہ
کچہری ہے پھر بھی الٹے سیدھے سوال جھڑ دیتے ہو۔
سوال :تھانہ کچہری میں بقاء ، میں کچھ سمجھا نہیں وضاحت پیش کریں۔
جواب: بھولے لکھاری ہمارے ہاں انفرادی کاموں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔
تھانے سے بندہ چھڑوا لیا، کورٹ کچہری میں وکیل کو کال کردی، تھانے کے منشی
کو ڈانٹ دیا، کسی پر مقدمہ درج کروادیا تاکہ وہ منت سماجت کے لیے ڈیرے پر
آئے پھر میں اس مقدمہ کے لیے پنچائیت بلائی جائی، میں اُس پنچائیت کا سرپنچ
بنوں، گاڑی کا ڈیزل پانی پورا ہو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
سوال : کیا یہ بہتر نہیں تھا آپ لوگوں کے مسائل حل کرواتے ، صلح جوئی کا
کردار ادا کرتے ، اس طرح آپ کی مقبولیت کا گراف بھی اپ ہوجاتا؟
جواب : (طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ) مقبولیت اور وہ بھی ترقیاتی کاموں سے ؟؟
کہا ناں آپ واقعی بھولے ہیں۔ جلسوں میں اگر مخالف کو گالیاں نہ دیں تو
ہماری چوڑی چوپڑی تقریریں کون سنے گا ؟ عوام یہ سب کچھ سننا چاہتے ہیں۔
تھانیدار سے منشی تک کی اضافی روزی روٹی ہماری وجہ سے ہے۔ دفاتر میں رش ،
کچہری میں وکیلوں کی جیب کا گرم ہونا ،ایم ایل سی دینے والے ڈاکٹر سے مک
مکاؤ ہم ہی تو کرواتے ہیں۔ اگر یہ کام چھوڑ کر صلح جوئی میں لگ جائیں تو
معاشرہ کے یہ طبقات کہاں سے کھائیں گے ؟ اتنی تنخواہیں نہیں کہ اُن کے
گھروں کے چولہے جل سکیں، صرف اسی ہزار سے دو لاکھ تک حکومت ان کو ادا کررہی
ہے، آج کے دور میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔
سوال: سنا ہے آپ نے ( ا ، ب ، ج) ڈاکٹر کے ساتھ مل کر کوئی پرائیویٹ ہسپتال
بھی بنایا ہے؟
جواب: (حیران ہوتے ہوئے ) جناب کو یہ کس ظالم نے خبر لیک کردی ؟ کیا ہسپتال
بنانا جرم ہے ؟ اور میری جیب میں دو چار ’’ ٹکے ‘‘ آجائیں گے تو آپ کو کیا
تکلیف ہے؟ ہاں ہاں میں نے غریبوں کے لیے ہسپتال بنایا ہے جہاں بڑے بڑے
ڈاکٹر بیٹھتے ہیں، صرف ایک ہزار روپے فی مریض فیس لیتے ہیں ، آپ ملتان ،
لاہور، کراچی جاؤ وہاں ڈاکٹرز کی فیسیں 2500 سے بھی زائد ہیں ، کیا یہ
علاقہ کی خدمت نہیں ؟
سوال: چیف جسٹس صاحب ڈیم بنارہے ہیں ، آپ کتنا حصہ ڈالیں گے؟
جواب: ابھی الیکشن پر بہت خرچ ہوچکا، کہیں سے کوئی چھکا لگ جائے ضرور حصہ
ڈالیں گے ۔ جہاں تک لفظ ’’ کتنا‘‘ کا تعلق ہے تو یہ آپ نے فعل کی اضافی
فارم لگائی ہے، ذرا اپنی گرائمر ٹھیک کرلیں۔ ویسے میں نے پنوں چوکڑی والے ،
پیروڈی بابا اور چن مسات کو کہہ دیا ہے وہ میرے نام پر جلد فنڈ میں حصہ
ڈالیں گے۔
سوال: یہ لوگ آپ کی جگہ ڈیم فنڈ میں ڈونیشن کیوں دینگے؟
جواب: بھولے لکھاری ! پورے پانچ سال کے ٹھیکے کون لے گا ؟ سرکاری ادویات
میں کمیشن ، بھرتیوں میں کوٹا بھی توانہیں پرزوں کو ملے گا۔ جب یہ لوگ میرے
نام پر اتنا کماتے ہیں تو کچھ تو خرچ بھی کریں گے۔
سوال: علاقہ میں تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کچھ کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب: او بھولے بادشاہ اگرعلاقہ میں تعلیم عام کردی تو ہر گلی محلے گاؤں سے
لوگ منہ اٹھا کے آپ جیسے ’’ اوکھے اوکھے ‘‘ سوالات کریں گے۔ کیا میں اب اِن
لوگوں کے سوالوں کے لیے رہ گیا ہوں؟ ذرا بھر میرے پروٹوکول بھی خیال رکھیں۔
نہ تعلیم ہوگی نہ یہ لوگ آگے آئیں گے اور نہ ہی مجھ سے فقیر سیاستدان سے اس
طرح کی سوالیہ زبان درازی کرسکیں گے۔ یعنی ’’ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی
بانسری‘‘ ۔
سوال: اچھا تو جناب صحت کے لیے کیا سٹیپ اٹھانے والے ہیں؟
جواب:لکھ لو! سب سے پہلے اپنے قریبی دوستوں کو بڑی بڑی پوسٹوں پر تعینات
کروانا، تاکہ میرے قریبی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دے سکیں۔ ایماندار
اور اچھے آفیسرز کا تبادلہ کروانا ورنہ ادویات میں کمیشن کا خواب ادھورا رہ
جائے گا۔ ادویات کا ٹھیکہ پنوں چوکڑی کے سپرد، ہسپتالوں کی تعمیر کے ٹھیکے
پیروڈی بابا کے ہونگے وہ میری الیکشن مہم پر خوب خرچ کرتا ہے۔
سوال: شہر میں سیوریج کا برا حال ہے گلیاں بند ہیں ، اس کا حل بھی ہے آپ کے
پاس ؟
جواب: او بھائی اتنے ارسطو نہ بنو ! ۔۔۔ شہر کی گلیاں بند رہیں ، اسی میں
ہماری بھلائی ہے، پانی نکالنے کے لیے بھاری مشینیری کی ضرورت ہوگی اور
مشینری چلانے کے لیے ڈیزل پٹرول کی ضرورت ، یوں عوام اپنی عرضی لے کر ہمارے
پاس آئیں گے، منتیں کریں گے ساتھ ڈیزل پٹرول کی مد میں ہماری جیب بھی گرم
ہوتی رہے گی۔ اگر لوگوں کو فی الفور سہولیات دے دی جائیں تو یہی لوگ کل کو
ہمارے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں، کرپشن جیسی گندگی گندگی باتیں کرتے ہیں۔ جہاں
بھی روزی روٹی کا سوال ہوگا میں وہاں وہاں زرداری کی طرح اپنی مرضی کی
پالیسی بناؤں گا۔
سوال: اچھا تو یہ بتائیں کہ خواتینکی فلاح و بہبود کے لیے کیا سٹیپ اٹھائیں
گے؟
جواب: جی اوئے لکھاری بادشاہ ! ۔۔۔ اب کام کا سوال پوچھا ہے، چونکہ میری
بیگم میری خاتون اول ہے( حکومت میں شامل ایم این اے ، ایم پی اے کی بیگم
خاتون اول ہوتی ہے ، وضاحت دیتے ہوئے )، لہذا اپنی خاتون اول کی ڈانٹ کے
صدقے میں خواتین کے مسائل ضرور حل کرواؤں گا ، یہ بات بھی واضح رہے کہ جو
مسائل خاتون اول صاحبہ ہمارے گوش گزار کریں گی وہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں
گے۔
( جاری ہے )
نوٹ: یہ انٹرویو افسانوی ہے ،کسی کی تذلیل نہیں ، پنوں، پیروڈی بابا اور چن
مسات افسانوی کردار ہیں۔
|