دور ماضی میں جدید آلات اور ٹیکنالوجی کی قلت تھی مگر
انسانیت کی کثرت اور آج جب کہ ہم نے مشینری دنیا میں ہمالیائی کامیابی
حاصل کرلیتو اخلاقیات کے پاتا ل میں اتر گئے ۔کل پیار و محبت کا دور تھا
اور آج دل کے بہلاوے اور دھوکےکا ۔
گذشتہ دور میں لوگ ایک دوسرے کا دل سے احترام کرتے ۔اولاد ،والدین کے جسم
پر مکھی تک نہ بیٹھنے دیتی۔شاگرد ،استادکے حکم کی تعمیل میں سر کے بل کھڑے
رہتے۔ بزرگ، بچوں پر دست شفقت پھیرتے اور بچے بھی بزرگوں کا احترام کرنے
میں دریغ نہ کرتے مگرعصر حاضر کا انسان شاہانہ زندگی بسرکرنے کے باوجود
گردن جھکائے رو رہاہے کہ ہائے افسوس ! اولاد نے میری ساری عزت وآبرو پر
پانی پھیر دیا ۔
دورحاضر میں خصوصا مغربی کلچر کے پلے بڑھے بچے اپنے والدین سے اس وقت تک
پیار ومحبت کارشتہ بر قرار رکھتے ہیں جب تک ان سےغرض وابستہ ہوتی ہے ۔ادھر
غر ض نکلی نہیں کہ نظریں پھیر لیں !
عصر حاضر کو ترقی کا دور کہا جاتاہےاور حقیقت بھییہی ہے کہ ہر چیز میں ترقی
ہوئی ہے۔گذشتہ زمانہ میں گنی چنی بیماریاں اور انگشت شمار مشکلات تھیں ۔لیکن
اب تو ان کا شمار میں آنا مشکل ہواجا رہا ہے ۔پچھلے زمانہ میں بیمار لوگ
عید کا چاند ہواکرتے تھے مگر اب تو اسپتال میں جگہ ملنا دشوارہوا جارہاہے۔
ماضی میں لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے اور داعی اجل کو لبیک کہہ کر راہ
آخرتکوسدھارجاتے۔لیکن آج نفسانفسی کے عالم میں زندگی کٹتی ہے اور خود کشی
کرنے والوں کی تعداد میںبھیاضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ اسٹو ڈنس ناکامی
کے سبب موت کو گلہ لگارہے ہیںتوکسان فصلو ں کی تباہی کے باعث خود کشی کررہے
ہیں ۔
گویا عصر حاضر میں انسانوں کی زندگی مکڑی کا جالابنتی جارہی ہے ۔جتنی ہی
ترقی ہورہیہے ،اتنے ہی مشکلا ت کاباب کھلتاجارہاہے ۔آج ہر شخص مشکلات میں
گرفتار ہے۔لہذا! ہر فرد کو چین وسکون کی شدید ضرورت ہے۔جس کے پیش نظر
کامیڈی ،میوزک اور کنسرٹ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتاہے ۔پھر بھی سکون قلب
میسر نہیں ہوپاتا۔
اگر انسان ثروت مندی میں قناعت اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرے تو
مشکلات ضرور کم ہوجائیں گی۔ماضی کے دکھ دردکو فراموشی کی نذر کرکے نئی
زندگی کا آغاز کردےتو پریشانیوں میں کمی آتی جائے گی ۔اگر انسان اپنی
اقتصادیات مضبوط کرلے تو غربت اور مصائب وآلام اس تک رسائی نہ کر سکیںگےاور
ہر وقت اللہ کی یاد میں غرق رہےتو سکون ملتا رہے گاکیوں کہ یاد خدا دلوں کو
سکون بخشتی ہے۔
|