تحریر: ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
کمرے میں نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی تھی۔ کاشف امی کی گود میں سر رکھے
آنکھیں موندے آہستہ آواز میں درود شریف پڑھ رہا تھا۔ امی جان نے محبت سے
کاشف کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ’’آپ کو حدیث یاد ہوئی کاشف؟‘‘
جی امی۔ ’’میں آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
کاشف نے روانی سے حدیث سنائی۔ ’’شاباش! اب سونے کی دعائیں پڑھ کر سو جائیں۔‘‘
’’امی! یہ قادیانی کون ہوتے ہیں؟‘‘ کاشف اسکول کے لیے تیار ہو کر باورچی
خانے میں آگیا تھا جہاں اس کی امی ناشتہ بنا رہی تھیں۔ ’’کیا؟ آپ کیوں پوچھ
رہے ہیں؟‘‘ سارہ کو سوال پر حیرت ہوئی۔ ’’ہماری جماعت کا قاسم ہے ناں، وہ
کہتا ہے میں مسلمان ہوں لیکن کچھ بچے کہتے ہیں یہ قادیانی ہے۔ قادیانی کیا
ہوتا ہے امی؟‘‘ کاشف نے اپنا سوال دہرایا۔ ’’بیٹا! عقیدہ ختم نبوت یعنی یہ
عقیدہ رکھنا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم
کردیا گیا ہے اور آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں آپ کے بعد کسی شخص کو اس
منصب پر (کسی بھی درجے میں) فائز نہیں کیا جائے گا، اسلام کا بنیادی عقیدہ
ہے۔ قادیانی اس عقیدے سے انحراف کرتے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری
نبی نہیں مانتے۔‘‘ قادیانی خود کو مسلمان کہلواتے ہیں مگر یہ مسلمان نہیں
ہیں‘‘۔ قادیانیوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا ہے۔
بیٹا ایسے لڑکوں سے دوستی نہیں کرنی،جو ہمارے نبی، ہمارے دین اور ہمارے وطن
کا دشمن ہے وہ ہمارا دوست نہیں ہوسکتا۔‘‘ کاشف نے جی اچھا کہا اور چلا گیا۔
اگلے روز کاشف اپنے کزن کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ شام کو چچا چچی ان سے ملنے
آئے تھے۔ وہ بہت خوش تھا۔ کھیلتے ہوئے اس نگاہ اٹھا کر صوفے پر بیٹھی چچی
جان کی جانب دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ چچی جان رو رہی تھیں۔
’’بھابھی! جب سے ان کو کاروبار میں نقصان ہوا ہے۔ تب سے یہ قرض لینا چاہ
رہے تھے۔ پہلے خدا خدا کر کے بینک سے قرضہ لینے سے روکا کہ سود کا معاملہ
ہے۔ ہم اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اب اس کے بعد نہ جانے یہ قادیانی ان کو کہاں سے مل گیا۔ کہتے ہیں 2لاکھ کا
قرضہ آرام سے بنا سود دینے پر راضی ہے اور یہ لینے پر۔ میری تو راتوں کی
نیند اڑ گئی ہے۔ کیا ہمارا ایمان اتنا ناقص ہو گیا کہ قادیانیوں کے سہارے
ہم اپنا کاروبار چلائیں گے؟‘‘ چچی جان بہت پریشان لگ رہی تھیں۔ ’’روئیں
نہیں بھابھی! کاشف کے ابو سمجھا رہے ہیں بھائی صاحب کو۔‘‘ سارہ نے انہیں
تسلی دے رہی تھیں۔ کاشف کا دل یکدم کھیل سے اچاٹ ہو گیا۔ وہ اٹھ کر باہر
آگیا۔
’’شوقیہ قرض نہیں لے رہا مجبوری ہے۔‘‘ چچا جان بول رہے تھے۔ ’’ایسی بھی کیا
مجبوری کہ ہم قادیانیوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟‘‘ کاشف کے بابا نے ناراض
ہوتے ہوئے کہا۔ ’’وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں بھائی جان، ہمیں کیا حق پہنچتا
ہے کہ ہم انہیں برا بھلا کہیں۔‘‘ ’’مسلمان ہونے کے کچھ عقائد ہیں دانیال
میاں!‘‘ ۔ مگر بھائی جان اﷲ، رسول اور قرآن پاک کو وہ مانتے ہیں۔‘‘ ’’ساتھ
یہ بھی بتائیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور اس کی کتاب تذکرہ کو
وحی مانتے ہیں۔‘‘ سمجھنے کی کوشش کرو دانیال۔
عیسائی حضرت موسی علیہ السلام اور تورات کو مانتے ہیں مگر اس بنا پر وہ خود
کو یہودی نہیں کہلواتے اور ناں ہی کوئی یہودی انہیں یہودی مانتا ہے کہ وہ
حضرت عیسی علیہ السلام اور انجیل پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں دیکھو ہم
حضرت موسی و حضرت عیسی علیہما السلام پر یقین رکھتے ہیں، تورات و انجیل پر
ہمارا ایمان ہے لیکن ہم یہود و نصاری کے گروہ میں داخل ہونے کی کوشش نہیں
کرتے اور نہ ہی یہود و نصاری ریاستیں ہمیں اپنے برابر کھڑا کرتی ہیں۔
قادیانیوں اور دنیا بھر کی طاغوتی طاقتوں کا ہم پر یہ کیا رعب ہے کہ ہم
انہیں مسلمان سمجھیں؟ جبکہ وہ مسلم عقائد کی صریح نفی کرتے ہیں۔‘‘
’’اچھا! تم تو خود کاروبار کرتے ہو یہ بتاؤ تمہاری کمپنی سو سال سے کاروبار
کر رہی ہے۔ تمہارا اپنا نام ہے، ٹریڈ مارک ہے، لوگو ہے اور اپنی ساکھ ہے اب
چند افراد تم سے الگ ہو کر ایک نئی کمپنی بنا لیتے ہیں لیکن وہ بضد ہیں کہ
نام، ٹریڈ مارک اور لوگو تمہارا استعمال کریں گے؟ کیا تم انہیں اس کی اجازت
دو گے؟ کیا دنیا کا کوئی قانون اس باغی کمپنی کو یہ اجازت دے گا؟ اگر نہیں
تو قادیانیوں کو کیوں اسلام و مسلمان ٹائٹل، حامل قرآن و مسجد کے تمام تر
حقوق مل سکتے ہیں؟ میرے بھائی! پاکستان میں عیسائی، سکھ، ہندو سب ہی رہتے
ہیں۔ کبھی کسی عالم دین نے ان پر سوال اٹھایا؟ نہیں ناں۔ کیوں؟ یہ سب اپنے
دائرہ میں رہتے ہیں، ہمارے حقوق پر دعوی نہیں کرتے؟ قادیانی عقیدہ توحید،
عقیدہ رسالت، عقیدہ ختم نبوت سب پر شب خون مارتے ہیں اور پھر بھی امت مسلمہ
کی صفوں میں گھسا رہنا چاہتے ہیں۔
میرے بھائی ان کی تاریخ نکال کر پڑھو یہ بقول ان کے کاذب لیڈر انگریز کا
کاشت کردہ پودا ہیں۔ جب مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد پر کمر بستہ
ہونے کی ضرورت تھی، یہ نظریہ جہاد کو کالعدم قرار دینے کے لیے پروان چڑھائے
گئے۔ یہ تو دجالی فتنہ ہیں میرے بھائی۔ ایک ایسا فتنہ جسے جنگ یمامہ میں
حفاظ کرام کی شہادتوں کے بدلے نیست و نابود کیا گیا۔ کیا ہماری دینی حمیت
ہم سے تقاضا نہیں کرتی کہ ہم اس فتنے کو اپنی پوری قوت سے کچل ڈالیں؟ بابا
جانی بولتے بولتے خاموش ہو گئے تھے۔ چچا جان بھی سر جھکائے کسی سوچ میں گم
ہو گئے۔
کاشف جو بغور بابا اور چچا جان کی باتیں سن رہا تھا دھیرے سے چلتا ہوا چچا
جان کے برابر آ کھڑا ہوا۔ ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے محبت سے بولا، ’’چچا جان!
ہم اپنے دین اور وطن کے دشمنوں سے مدد کی بھیک نہیں مانگ سکتے۔ امی جان
کہتی ہیں ہمارا بھروسہ اﷲ پر ہے اور ہم ایک دوسرے کے خود مددگار ہیں۔ میرے
کوائن باکس میں بہت سے پیسے ہیں۔ آپ الیاس قادیانی سے قرض نہ لیں میں آپ کو
اپنا کوائن باکس دے دوں گا۔‘‘ بابا اور چچا جان کاشف کا جذبہ ایمانی دیکھ
کر مسکرا دیے۔’’نہیں بیٹے! میں سمجھ گیا ہوں کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا دشمن
میرا دوست بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ ’’شاباش دانیال! سچ کہا تم نے۔‘‘ کاشف
کے بابا جوش سے بولے۔
|