حضرت ماذن بن غضوبہؓ بت ساز تھے‘ یہ پتھروں کے خدا بناتے
تھے‘ ان کا اپنا معبد تھا اور یہ مسقط سے ایک گھنٹے کی مسافت پر سمائیل میں
رہتے تھے‘ سمائیل خشک پہاڑوں کے درمیان زرخیز وادی ہے‘ وادی میں میٹھے پانی
کی ندی گزرتی تھی‘ یہ ندی برسات کے موسم میں دریا بن جاتی تھی‘ پورے علاقے
میں کھجور کے باغ تھے اور ان باغات کے درمیان ماذن بن غضوبہؓ کا معبد تھا۔
حضرت ماذنؓ معبد کے خداؤں پر گہرا یقین رکھتے تھے‘ ایک رات ان کی والدہ
بیمار ہو گئیں‘ یہ شفاء کی دعا کے لیے معبد گئے اور ساری رات بتوں کے سامنے
گڑگڑاتے رہے‘ یہ شفاء کے یقین کے ساتھ گھر واپس آئے لیکن ان کی والدہ
انتقال کر چکی تھیں‘ حضرت ماذنؓ کا بتوں سے یقین اٹھ گیا‘ اسی دوران ایک
رات انھیں خواب میں اشارہ ہوا‘ عرب میں اللہ کے آخری نبیؐ تشریف لا چکے ہیں۔
حجازی عربوں کے تجارتی قافلے ان دنوں سمائیل سے گزرا کرتے تھے‘ نیا قافلہ
آیا تو یہ سردار کے پاس چلے گئے اور اس سے پوچھا ’’کیا صحرا کی دوسری طرف
کوئی دلچسپ شخص آیا ہے‘‘ سردار نے جواب دیا ’’ہاں مدینہ میں ایک شخص ہے جو
خود کو نبی کہتا ہے‘‘ یہ سن کریہ بے تاب ہو گئے‘ گھر آئے‘ سامان باندھا اور
مدینہ روانہ ہو گئے‘ یہ سیدھے مسجد نبوی پہنچے‘ نبی اکرمؐ کی صحبت سے بہرہ
مند ہوئے‘ دعوت اسلام قبول کی اور مسلمان ہو گئے‘ یہ کئی دن مدینہ منورہ
میں مقیم رہے‘ سمائیل واپسی کا قصد کیا تو اجازت کے لیے بارگاہ رسالتؐ میں
تشریف لے گئے۔
نبی اکرمؐ نے آپؓ کی وجہ سے عمان کے سمندروں‘ زمینوں اور انسانوں تینوں کے
لیے تین بار دعا فرمائی‘ یہ سمائیل واپس آئے‘ معبد کی جگہ مسجد تعمیر کی
اور علاقے کے لوگوں کو دعوت حق دینے لگے‘ حضرت ماذنؓ عمان کے پہلے مسلمان
اور ان کی مسجد علاقے کی پہلی مسجد تھی‘ یہ دوسری بار نبی اکرمؐ کی زیارت
کے لیے روانہ ہوئے لیکن آپؓ ابھی راستے میں تھے کہ نبی اکرمؐ وصال فرما گئے
یوں آپؓ دوسری بار زیارت نبویؐ سے سیراب نہ ہو سکے‘ آپؓ نے بھرپور زندگی
گزار کر انتقال فرمایا‘ لوگوں نے آپؓ کو کھجور کے باغ میں دفن کر دیا۔ |