میرے اور فیضی کے اس فیصلے پر گھر والوں کو کوئی اعتراض
نہیں تھا بلکہ شاید وہ اسی فیصلے کے انتظار میں تھے۔ ہماری شادی کی تاریخ
جلد از جلد رکھ دی گئی ،کیونکہ فیضان کو سوئزر لینڈ سے ایک اچھی نوکری کی
آفر ہوئی تھی اور وہ مجھےاپنے ساتھ ہی لے جانا چاہتا تھا۔ ہماری شادی طے
ہونے کی اطلاع جیسے ہی ہاجرہ کو ملی وہ بھاگی آئی۔مجھے جب وہ ملی تو بڑی
دیر تک میرے گلے سے لگی رہی ۔اس نے اپنے گلے سے خوبصورت سا لاکٹ اتار کر
میرے گلے میں پہنا دیا۔میرا ہاتھ پکڑ کر بولی :
"بانو ! اللہ نے تمھاری سن لی ،مجھے بھی اپنی دعاوں میں شامل کرلو اللہ
مجھے بھی میرا عشق عطا کردے۔"
میری آنکھیں اس کی اداسی دیکھ کر بھر آئیں ۔ میں نے ان دنوں میں شہزادی
ہاجرہ کا پیار بھرا ، معصوم دل دیکھا، وہ پیار کا سمندر تھی۔وہ اس چاہ سے
میری شادی کی تیاری کررہی تھی کہ کبھی کبھی اس کے اس بے لوث پیار سے میں
گھبرا جاتی ۔دن کم ہونے کے باعث ایسا محسوس یورہا تھا جیسے کام بہت ہوں اور
وقت انتہائی قلیل ۔میں نے اور ہاجرہ نے ان چند مختصر دنوں میں بہت ہی اچھا
اور آئیڈیل وقت ساتھ گزارا۔ہاجرہ نے میرے لئے ایسے دل بھر کر شاپنگ کی جیسے
میں اس کی سگی بہن ہوں۔ ہماری شادی کی خبر لاہور سے لے کر "مریداں والی"
میں ایک نیا خوشی کا رنگ لے آئی تھی۔جس رات ہم سب لاہور سے مریداں والی
پہنچے تو میں دیکھ کر حیران رہ گئئ بڑے ماموں جان اور چھوٹے ماموں جان نے
پورے گاوں کو رنگوں اور روشنیوں سے سجا دیا تھا۔ امی جان کی آنکھوں میں بار
بار منجھلے ماموں کو یاد کرکے آنسو آجاتے۔آخر کار وہ مبارک گھڑی
آپہنچی،ایجاب و قبول کے بعد میں" شہرزادبانو فیضان علی خان "بن گئی۔
مجھے ہاجرہ ہی فیضان علی خان کے سجے ہوئے کمرے میں لے کر آئی۔میں کمرے کی
خوبصورتی سے مدہوش سی ہوگئی ،کمرے میں جابجا تازہ گلابوں کے بوکے سجے ہوئے
تھے، جگہ جگہ خوشبودار کینڈلز جل رہی تھیں ۔تازہ گلابوں اور موتیے کی لڑیوں
سے سیج سجائی گئی تھی ۔میں نے بغور اپنی پیاری کزن کی طرف دیکھا ،آج ہاجرہ
پر ٹوٹ کر روپ آیا ہوا تھا،اس نے رائل بلیو کلر کی ساڑھی باندھی ہوئی تھی،
اس کے بالوں اور ہاتھوں میں موتیے کے پھولوں کے گجرے تھے۔ میں نے اس سے دبے
لفظوں میں پوچھا:
"میں نے سنا ہے کہ سجاول بھی شادی میں شامل ہوا تھا۔"
اس کی مسکراہٹ یک دم پھیکی سی پڑھ گئی۔مجھے اندازہ ہوا کہ بعض اوقات محبت
انسان کی زندگی میں خوشی لانے کے بجائے غم بھی لے آتی ہے۔ ہاجرہ کی آنکھوں
میں ایک لحظہ کے لئے آنسو چمکے مگر اس نے بڑی مہارت سے انھیں اپنی آنکھوں
کے سمندر میں ہی اتار لیا۔ اس نے مجھے تازہ گلابوں کے پھولوں سے سجی سیج پر
بٹھا دیا اور میرا دوپٹہ اور غرارہ سیٹ کرنے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس
کے ہاتھوں میں ہلکی سی لرزش تھی۔وہ مجھے پیار کرکے یک دم رخصت ہوگئ ۔ مجھے
پہلی بار آگاہی ہوئی کہ کسی کا "پورا پیار" پالینا بھی کتنی خوش قسمتی ہے۔
سجاول شاید ہاجرہ سے پیار کرتا تھا، مگر اس کے پاس ہاجرہ کے لئے صرف بٹا
ہوا ،ادھورا ،بچا کھچا پیار تھا۔ پیار میں "جھوٹن "کھانا کتنا مشکل ہے ،
مجھے اب اندازہ ہوا تھا ۔میں نے جان کر اپنا دھیان ہاجرہ کی جانب سے ہٹا کر
اپنے آنے والے اچھے وقت کی طرف مرکوز کیا۔میں آج دھڑکتے دل سے فیضان علی
خان کی راہ تک رہی تھی، میں نے سامنے لگے آئینے میں اپنا عکس دیکھا ،سرخ
غرارہ سوٹ میں، منقش طلائی زیورات پہنے میں واقعی کسی اور دنیا کی مخلوق لگ
رہی تھی۔ میری ہتھلیاں پسینے سے بھیگ رہی تھیں ۔
مجھے اچانک مونا شہزاد کا لکھا ہوا ایک مکالمہ "درپن اور دلہن "یاد آگیا
۔میں بے اختیار ہی زیرلب اسے دہرانے لگی۔
سرخ عروسی لباس میں سجی اک دلہن،
بیٹھی جو درپن کے سامنے ،
تو درپن ہوا اسے دیکھ کر مبہوت ،
حاصل ہوگئی درپن کو قوت گویائی ۔۔۔۔
گویا ہوا وہ کچھ یوں
"اے شہزادی! سنا دے مجھے یہ اپنے انمول روپ کی کہانی ،
یہ سن کر دلہن لجائی،گھبرائ ۔۔۔۔۔۔
پھر سہج کر گویا ہوئی کچھ یوں
"سن رے درپن!
یہ سرخ عروسی لباس،
یہ نورتن ہار،
یہ سولہ سنگھار ،
یہ کجرا،
یہ گجرا،
یہ کنگن ،
یہ بندی ،
یہ پائل ،
درحقیقت یہ ہیں سب بیکار ۔۔۔۔
نہ ہو جو حاصل مجھے سجنا کا پیار،
میرا تو ہے اک ہی سنگهار ،
میرے سجنا کا انمول سچا پیار۔
میں نے نظر اٹھائی تو فیضان علی خان میرے سامنے کھڑا تھا۔ آف وہائٹ شیروانی
میں آج وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ مجھے اندازہ ہے کہ وہ میرا مکالمہ سن چکا
تھا ، وہ ہولے سے میرے پاس بیٹھا اور بولا:
کیا شہزادی کو اب بھی میرے انمول اور سچے پیار پر شک ہے؟
میں نے بے اختیار ہی اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی :
"میں آپ کے پیار پر نازاں ہوں۔"
اس نے آہستگی سے میرے ہاتھ میں ہیرے کا کنگن ڈالا اور بولا پہلے تو آپ کے
مکالمے کا جواب سرکار میں مونا شہزاد صاحبہ کے ہی لکھے ہوئے کلام سے دینا
چاہونگا۔وہ اپنی گہری ،دل دھڑکاتی آواز میں بولا:
"چوم لیتے ہیں بے خودی میں اکثر آئینے کو۔۔۔
یہ اس بے دردی کا عکس جو دکھاتا ہے،
میری نگاہِ ناز سے اک اُسی کو سراھتا ھے،
وہ جب سجے ظلمی...وقت ٹھہر سا جاتا ہے"۔
میری پلکیں حیا سے بوجھل ہوگئیں۔اس نے پیار سے میرا ہاتھ پکڑا اور بولا:
"بانو میں نے "تمھیں" چاہا ہے ، اللہ نے تمھاری محبت کا چشمہ خودبخود میری
زمین دل سے جاری کیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اس محبت پر اللہ تعالی کا ہی
ہاتھ ہے۔ میں کبھی بھی تمھیں" گم" ہونے نہیں دونگا۔میں تو محبت کا پرندہ
آزاد کرچکا تھا،مجھے تو امید ہی نہیں تھی کہ میری بنجر زمین دل پر کبھی
کوئی اور خوبصورت اور خوشبودار پھول تمھاری شکل میں آگے گا۔"
اس کی خواب آور باتیں میری زمین دل کو بارش کی طرح تر کررہی تھیں ۔میرا پور
پور فیضان علی خان کی محبت میں رنگ چکا تھا ۔
میں اور فیضی ایک دوسرے کو پاکر مگن ہوگئے تھے۔ ہم نے شادی کے فورا بعد
شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان مارا۔ فیضان علی خان کی محبت اور اعتماد
نے مجھے رنگ برنگی تتلی بنا دیا تھا۔ میرے انگ انگ سے خوشی ٹپکتی تھی۔ میں
اکثر اپنا عکس دیکھ کر شرما جاتی کسی کی محبت کسی کو اتنا دلکش بھی بنا
سکتی ہے ، میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ شمالی علاقہ جات سے واپسی کے بعد
ہم نے فورا سوئزر لینڈ جانے کی ٹکٹیں بک کروالیں ۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ
ہاجرہ مجھ سے اور فیضان سے کنی کترانے لگی ہے۔ ہم بھی اتنے ایک دوسرے میں
گم تھے کہ ہمیں بھی کسی کے لئے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ایک دو دفعہ میں نے
ہاجرہ کو اکیلے بیٹھ کر روتے دیکھا ،مگر میرے پوچھنے پر اس نے سر درد کا
بہانہ بنا لیا۔ ۔آخرکار وہ دن بھی آگیا کہ ہم اپنے پیاروں کو الوداع کہہ کر
سوئزر لینڈ آگئے ۔نئے ملک میں سیٹ ہونے کے لئے ہم اتنے مصروف ہوتے گئے،
ہمارا رابطہ ہاجرہ سے کم ہوتا گیا۔
ایک روز آدھی رات کو ہم گہری نیند میں تھے کہ فون بجا ،فیضان نے فون اٹھایا
تو دوسری طرف ماموں جان تھے۔فون بند کر کے فیضان بلک بلک کر رو پڑا۔ میں بے
اختیار ہی پریشان ہوگئی ،میں نے فیضی سے پوچھا تو وہ بھرائی ہوئی آواز میں
بولا:
بانو! ہاجرہ مر رہی ہے ،وہ تمھیں اور مجھے بلا رہی ہے ۔"
میرے اندر کچھ زور کا ٹوٹ گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔
ہاجرہ کی اس حالت کا زمہ دار کون تھا؟ پڑھتے ہیں اگلی قسط میں ۔
(* باقی آئندہ )●●●●
|