ہم لوگ کس طرح سفر کر کے پاکستان پہنچے ،ایک پل صراط کا
سفر تھا جو ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔ہم دونوں بے شمار سوالات میں گھرے
ہوئے تھے ایسا کیا حادثہ رونما ہوا کہ ہاجرہ آج موت کے دوراہے پر کھڑی دستک
دے رہی تھی۔ جب ہم لاہور ائیرپورٹ پر اترے تو کسٹم سے فارغ ہوکر باہر نکلے
تودیکھا کہ شاہنور ہمیں رسیو کرنے آیا ہوا تھا ۔وہ فیضان کے گلے لگ کر جیسے
بلک بلک رویا، مجھے پتا چل گیا کہ دشت ظلمات کی سرِخ آندھی ہماری شہزادی کو
نگلنے والی تھی۔۔ہم ائیر پورٹ سے سیدھے ہاسپٹل گئے۔ ICU کے باہر بڑے ماموں
جان اور ممانی ، چھوٹے ماموں جان اور ممانی جان، بڑے بھیا جی، میرے امی ابو
سب موجود تھے ۔سب کے چہرے نراش تھے ۔ میرا دل کسی گہرے کنوئیں میں ڈوب گیا۔
میں جان گئی تھی کہ اجل کا فرشتہ میری شہزادی کے در پر کھڑا تھا۔ میں اور
فیضی ICU میں داخل ہوئے تو میرا سانس رک گیا۔ بستر پر لیٹی لڑکی ہماری
"شہزادی ہاجرہ " تو نہیں تھی۔ وہ تو کوئی سایہ تھا، بے شمار نالیوں اور
پٹیوں میں جکڑی وہ تو کوئی اور تھی۔ مجھے اور فیضی کو دیکھ کر اس نے دقت سے
آنکھیں کھولیں ۔اس کی سبز آنکھیں مجھے یقین دلا رہی تھیں کہ وہ ہی ہاجرہ
ہے۔ اس نے میرا اور فیضی کا ہاتھ پکڑ لیا اور بددقت بولی:
"مجھ سے وعدہ کرو کہ میری جڑواں بیٹیوں کو تم لوگ اپنے بچوں کی طرح پالو
گے۔"
میری اور فیضی کی آنکھوں میں طغیانی آگئی ۔ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ
ہاجرہ ماں بن چکی تھی ،وہ کب سجاول کے سنگ رخصت ہوئی ،ہمیں پتا نہیں تھا۔
میری شادی کو ڈھائی سال ہوچکے تھے، مگر ابھی تک میں "ماں" بننے کی نعمت سے
محروم تھی۔ ہاجرہ نے اپنی دائیں طرف پڑی دراز کھولنے کا مجھے کہا ، میں نے
دراز کھولی تو اس میں دو ڈائریاں پڑی تھیں ۔اس نے بدقت کہا :
"بانو ! فیضی ان ڈائریوں کو اکٹھے بیٹھ کر پڑھنا، تم دونوں میرا مان ہو، تم
دیکھنا سجاول علی خان کبھی موت کو ترسے گا اور موت ان سے روٹھ جائے گی۔"
بانو کی خوبصورت آنکھوں کی جوت بجھ رہی تھی،اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں،
اس کا سانس اٹک رہا تھا ،وہ بڑی دقت سے بولی :
"تم لوگ راعمہ اور دائمہ کی زمہ داری اٹھا لو گے نا؟ مجھ سے وعدہ کرو"۔
شہزادی کا جسم اکڑ رہا تھا، موت کی سختی اس کے چہرے پر عیاں ہورہی تھی ۔اس
نے مجھے کہا:
بانو! کلمہ!
میں نے اسے کلمہ پڑھایا ،مجھے لگا کہ وہ عزرائیل کو ہمارے انتظار میں روکے
بیٹھی تھی،اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکان آئی اور وہ تابندہ ستارہ ڈوب گیا۔
میری چیخیں بھی ہاجرہ کو جگا نہیں سکیں ۔ڈاکٹر اور نرسوں نے مجھے اور فیضی
کو ICUسے باہر نکال دیا۔ چھوٹی ممانی جان اپنی اکلوتی بیٹی کی موت کی خبر
سن کر زمین بوس ہوگئیں ۔ڈاکٹروں نے ممانی جان کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر
پتا چلا کہ ممانی جان cardic arrest کے باعث دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔میرا
دماغ سائیں سائیں کررہا تھا، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یکایک یہ کیسی
قیامت ہم پر ٹوٹ پڑی ہے۔ میں فیضان کا ہاتھ پکڑے پکڑے کب ہوش و حواس سے
ماورا ہوئی ،مجھے پتا نہیں چلا۔ جب مجھے ہوش آیا تو ہاجرہ اور ممانی جان کو
فوت ہوئے تین دن گزر چکے تھے ۔ میں جاگی تو میرا ضمیر مجھے لعنت ملامت کرنے
لگا ،میں کیسے اپنی عزیز از جان کزن سے بے خبر ہوگئی تھی کہ اس پر قیامتیں
ٹوٹتی گئیں اور میں محبت کی پینگ لینے میں مصروف تھی ۔بے اختیار ہی میرے
منہ سے چیخیں نکلنے لگیں، میں ہاجرہ کا نام لے لے کر اس سے معافی مانگ رہی
تھی، مگر میری شہزادی تو اب ایک نہ ٹوٹنے والی نیند میں کھو چکی
تھی۔ڈاکٹروں نے فورا مجھے سکون بخش ادویات کے انجکشن لگا دئے میرا دماغ پھر
نیند کی گہری وادیوں میں کھو گیا۔
خواب نگری کا دروازہ کھولا، میں نے ہولے ہولے قدم بڑھائے وہاں دور ایک لڑکی
زانو میں سر دیے بلک بلک کر رو رہی تھی ۔میرے ذہن میں اچانک مونا شہزاد کی
ایک نظم آئی۔
زانو میں سر دیے وہ روتی ہوئی لڑکی ۔۔۔
تھے جس کے خواب شیشے جیسے ۔۔۔۔
تھی جو خوش رنگ تتلی کی مانند ۔۔۔۔
تھی جو خوش الحان بلبل جیسی ۔۔۔۔
تھی جو مشکبو پھولوں جیسی ۔۔۔۔
تھی جو الہڑ پہاڑی ندی جیسی۔۔
تھی بے پروا ،مہتاب جیسی ۔۔۔۔
تھی جس کی آنکھ غزال کو شرماتی ۔۔۔
تھی جو مغرور کسی دوردیس کی "شہزادی" جیسی۔۔۔
آج عشق کے ہاتھوں ہاری،
اپنے پندار کی کرچیاں چنتے ہوئے ،
روتی جاتی اور کہتی جاتی،
جا ظلمی! اللہ کرئے تجھے بھی "عشق "ہوجائے۔
میں خوفزدہ تھی میں جانتی تھی وہ لڑکی کوئی اور نہیں ہاجرہ تھئ۔میں نے سوچا
:
"اگر ہاجرہ نے مجھ سے اپنی بچیوں کے متعلق پوچھا، تو میں کیا جواب دونگی۔"
میری فورا آنکھ کھل گئی ،میرے سرہانے فیضان بیٹھا تھا، میں نے بددقت بیڈ سے
اٹھتے ہوئے کہا :
"فیضی! میں نے گھر جانا ہے ،میری بیٹیاں میرا انتظار کررہی ہیں ۔"
فیضی کی نیلی آنکھوں میں طغیانی آگئی اس نے مجھے سہارا دیتے ہوئے کہا:
"ہماری بیٹیاں ہمارا انتظار کررہی ہیں ۔"
گاڑی گھر کی طرف رواں دواں تھی، میں سوچ رہی تھی ،زندگی کا سمندر کیسا زور
آور ہے کب کوئی موج ہمیں کس ساحل پر لا پٹخے کوئی پتا نہیں ۔ایسے میں اشارے
پر ہماری گاڑی کے ساتھ ایک گاڑی رکی،اس گاڑی میں تیز میوزک چلا ہوا تھا،
سجاول علی خان پچھلی سیٹ پر دو لڑکیوں پر گرا جارہا تھا۔ میرا دل نفرت سے
بھر گیا۔ میں نے خوفزدہ ہوکر فیضان کی طرف دیکھا ،وہ ٹریفک کی طرف متوجہ
تھا۔
میں نے بے اختیار دامن پھیلایا اور زیر لب کہا:
"اللہ کرئے سجاول تو پیار کو ترسے، قرار کو ترسے،تو آزادی کو ترسے ، تو موت
کو ترسے ، تو رشتوں کو ترسے ،تو زندگی کو ترسے ،اللہ تجھے ضمیر کی عدالت
میں کھڑا کردے،اللہ کرئے تو ہاجرہ کے "عشق"" میں مبتلا ہوکر کرلاتا پھرے"۔
سگنل کھل گیا،فیضان اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ میں نے ابھی ابھی کسے دیکھا
ہے۔
میرا دل حزن کے بادلوں میں قید تھا، میری سب سے عزیز از جان ہستی شہر
خموشاں میں جابسی تھی۔
ہاجرہ کی موت کی کیا وجوہات ہیں اس راز سے پردہ تو اگلی اقساط میں ہی اٹھ
سکے گا۔
(باقی آئندہ ☆☆)۔
|