تحریر: امبرین جاوید، کراچی
ہمارے معاشرے میں مختلف برائیوں میں سے چند برائیاں کافی حد تک پروان چڑھ
چکی ہیں ہمیں اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچوں کو دینی تعلیم و تربیت
کا فقدان قرآن و حدیث میں علم کی اہمیت پر بار بار تاکید فرمائی گئی ہے حتی
کہ پہلی وحی لفظ اقرا بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے مگر ہم نے ان کو دنیاوی
تعلیم سے جوڑ دیا ہے۔ ان دنوں ہم عصری تعلیم کو اس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ
بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے باوجود اس لئے نماز کی ادائیگی کا اہتمام
نہیں کروایا جاتا ،روزہ نہیں رکھوایا جاتا، قرآن کی تلاوت کا نہیں کہا جاتا،
کیوں کہ ان کو اسکول جانا ہے ہوم ورک کرنا ہے پروجیکٹ مکمل کرنا ہے امتحان
کی تیاری کرنی ہے وغیرہ وغیرہ یعنی دنیاوی تعلیم کے لئے ہر طرح کی جان و
مال وقت کی قربانی دینا آسان ہے لیکن اﷲ کے حکم پر عمل کرنے میں دشواری
محسوس ہوتی ہے ۔اسی لیے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دین کے ضروری مسائل سے نا
واقف ہوتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر بنائیں لیکن سب سے پہلے ایک
مسلمان بنایں لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کے ساتھ حضور اکرم صلہ علیہ وسلم
کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور روشناس کروایں اگر ہمارا بچہ ڈاکٹر
یا انجینئر بنا لیکن شریعت اسلامیہ کے بنیادی احکام سے ناواقف ہو تو کل
قیامت کے دن اﷲ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال
معاشرے کی بے شمار برائیوں کی جڑ ہے۔ بے حیائی کے پروگرام دیکھنے سے آپ خود
کو بھی دور رکھیں اور اپنی اولاد اور گھر والوں کو بھی دور رکھیں تاکہ یہ
جدید و وسائل ہمارے ماتحت کی آخرت میں ناکامی کا سبب نا بنیں کیونکہ ہم سے
ہمارے ماتحت کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اے ایمان والوں اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں
کو آگ سے بچاؤ۔پہلے خود کو بچانے کا کہا پھر دوسروں کو۔ہمیں خود کو پہلے ہر
برائیوں سے روکنا ہے مثلا، اگر کوئی بچہ نا فرمانی کر رہا ہے یا گالی گلوچ
کر رہا ہے تو اسے لعن تعن کرنے کے بجائے اپنا جائزہ لیں کہیں ہم بھی تو یہ
سب نہیں کر رہے اگر کرتے ہیں تو پہلے اپنی اصلاح کریں۔ آپ نے اکثر دیکھا
ہوگا ایک ماں جب نماز پابندی سے پڑھتی ہے تو اس کو مسلسل نماز پڑھتے دیکھ
کر بچہ خود اس کے برابر میں جائے نماز بچھاکر منہ موڑ موڑ کر دیکھتا ہے ۔
اب کیا کرنا ہے اب کیا کرنا ہے پھر اسی طرح ہاتھ باندھتا ہے رکوع سجدہ کرتا
ہے ایک وقت آتا ہے وہ اسے ماحول کو دیکھتے دیکھتے اپنی عادت کو پختہ کرلیتا
ہے اسی کے برعکس اگر بچہ اپنے اطراف میں گالی گلوچ، لڑائی، فساد دیکھے گا
تو یہ یہی سب کرنے کی کوشش کرئے گا ۔
بے شمار ایسی برائیاں ہیں جو بچے عموما اپنے بروں سے ہی سیکھتے ہیں تو اس
کے لیے سب سے پہلے خود کو اچھا کرنا ہوگا اور اس کے بعد اپنے بچوں کو وہ
تمام اچھائیاں بتانی ہوں گی جن سے بچے معاشرے کے لیے سود مند ثابت ہوں۔ یاد
رکھیں اچھے معاشرے کے لیے بچوں کی تربیت پر دھیان دینا بے حد ضروری ہے۔ آج
کے بچے ہی ہمار مستقبل ہیں۔ اچھا مستقبل انہیں بچوں سے جڑا ہے۔ فیصلہ آپ کے
ہاتھ میں ہے۔
|