پنجاب میں بورڈ آف ریونیو (محکمہ مال)نام کاایک محکمہ ہے۔
اس محکمے میں سیکرٹری لیول کے بہت سے لوگ ممبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
شاید حکومت یہاں پوسٹنگ سے پہلے ہر آنے والے ممبر سے حلف لیتی ہے کہ کوئی
کام نہیں کرنا۔کیونکہ یہاں کوئی کام نہیں ہوتا صرف فائلیں دائیں بائیں ہوتی
ہیں ۔جس پرائیویٹ سیکرٹری سے اس کے ممبر کا پوچھو، وہی گھسا پٹاجواب ملتا
ہے میٹنگ پر گئے ہیں۔ابھی آئے ہی نہیں۔ عدالت میں ہیں۔عدالت جاؤ تو ابھی
پہنچے نہیں اور عدالت کبھی نہیں پہنچتے۔ کافی سال پہلے ایک ریونیومنسٹر
میرے واقف تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں نے جائزہ لیا ہے کہ یہاں صورت حال
ٹھیک نہیں ۔ آپ منسٹر ہیں، ممبران کو پابند کریں کہ وہ دفتربیٹھیں، عدالت
میں جائیں اور ہر ہفتے کم از کم دو یا تین کیسوں پر ضرور فیصلہ دیا
کریں۔ہنس کر کہنے لگے کہ سارے بیوروکریٹ آرام کی غرض سے یہاں آتے ہیں ۔میں
ایسی بات کہہ کر انہیں ناراض نہیں کر سکتا۔چند دن بعد انہیں کوئی ذاتی کام
تھا اور اس سلسلے میں وہ سینئر ممبر سے ملنا چاہتے تھے۔ دونوں کے دفتر آمنے
سامنے تھے۔پرائیویٹ سیکرٹری کو انہوں نے رابطے کا کہا۔سینئر ممبر نے میٹنگز
اور مصروفیت کے بہانے انہیں دس دن ٹرخایا اور پھر ملاقات کے بعد بھی کام
بھی نہ کیا۔ وہ میاں شہباز شریف کی کابینہ کے وزیر تھے ۔بعد میں اپنا کام
انہوں نے میاں صاحب کی منت کر کے کروایا۔مجھے اس دن میاں صاحب کی کابینہ کے
ممبران کی اوقات کا اندازہ ہوا۔ میاں صاحب اپنی ذات میں گھنٹہ گھر تھے۔ ہر
سمت انہی سے شروع اور انہی پر ختم ہوتی تھی۔بیوروکریٹ ہر وقت مصروف ہوتے
اور وزرا فارغ آہیں بھرنے میں مصروف رہتے۔وزرا کو گاڑی جھنڈے اور ڈنڈے پر
ہی قناعت کرنا ہوتی تھی۔ ویسے وہ ڈنڈا گاڑی کا ہوتا تھاوزرا ہر طرح سے فارغ
اورخالی ہاتھ ہوتے تھے۔اپنے ذاتی کاموں کے لئے بھی انہیں میاں صاحب کی منت
کرنا پڑتی تھی۔
ایک سینئر ممبر سے میری کچھ راہ رسم تھی۔ایمانداری کے لحاظ سے ان کی شہرت
بے مثل تھی۔ اور واقعی ایماندار بھی تھے لیکن بلا کے بزدل۔ ان کی ہمیشہ
کوشش ہوتی کہ کسی بھی فائل پر کچھ نہ لکھا جائے مگر ایسی کوئی فائل جس سے
کسی کا جائز کام ہو جائے یا کسی کا بھلا ہوتا ہو۔ اس پر کچھ لکھتے تو ہمیشہ
منفی نقطہ نظر کا اظہار کرتے۔ حکمرانوں کو وہ بہت عزیز تھے کہ ان کے اشارے
کے بغیر وہ بورڈ آف ریونیو میں کچھ نہیں ہونے دیتے تھے۔جب کبھی حکمرانوں کی
طرف سے ہلکا سا اشارہ بھی ہوتا۔ ممبر سے حکمرانوں کی منشا کے مطابق لکھوا
کر اسے کہتے کہ تم فائل خود اوپر بھیجو، درمیان میں مجھے بھیجنے کی ضرورت
نہیں۔ یوں وہ حکمرانوں کے لئے ہر ناجائز کام کرتے مگر اپنا دامن بچا کر
رکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ حکمران سارے کام غلط کرتے ہیں اس لئے میں کسی
فائل پر دستخط کرکے ذمہ دار کیوں ٹھہروں۔ بہر حال یہ ان کو عقیدہ تھا۔ لیکن
ان کا ایسے حالات میں اور ایسی کارکردگی پر تنخواہ وصول کرنا بھی جائز تھا
کہ نہیں یہ تو علما ہی بتا سکتے ہیں مگر اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں ۔
ہمارے زیادہ تر ایماندار یہی رویہ اپناتے ہیں۔ میں نے انہیں بھی بہت دفعہ
کہا کہ لوگوں کے جائز کام تو دلیری سے کیا کریں مگر ایسے منفی ایمانداروں
کو خلق خدا کو بے وجہ خراب کرنے میں مزا آتا تھا۔
دو سال پہلے مجھے ذاتی تجربہ ہوا۔ میرے ایک دوست کا کیس ممبر کالونی ،جو اس
وقت سینئر ممبر بھی تھے، کی عدالت میں چلا گیا۔ عدالت ہفتے میں دو دن ہوتی
ہے۔ہم لوگوں نے تین چارماہ انتظار کیا۔ ہر دفعہ پتہ چلتا کہ چیف منسٹر کے
ساتھ میٹنگ کے لئے چلے گئے ہیں یا طبیعت خراب ہے، کوئی کام پڑ گیا ہے یعنی
کوئی بہانہ نہ آنے کا بنا کر وہ کبھی نہ آئے۔ایک دن پتہ چلا کہ آ رہے ہیں۔
وہاں موجود پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے بوڑھے بوڑھے یتیم اور
مسکین چہرے ، جو سالوں سے ہر تاریخ پر عدالت کے بنچوں پر سوئے نظر آتے ہیں
، کھل اٹھے۔ پھر اطلاع آئی کہ نیچے اپنی گاڑی میں موجودہیں۔ ریڈر صاحب وہیں
ان سے ملے اور وہ میٹنگ کا بتا کر واپس چلے گئے۔ پنجاب بھر سے آئے ہوئے وہ
سارے بے بس اور لاچار لوگ نا امید واپس جانے لگے۔پتہ چلا کہ اس وقت تک اپنی
ساڑھے آٹھ ماہ کی تعیناتی کے دوران وہ صرف دو دفعہ اسی انداز میں عدالت کے
بس قریب سے گزرے ہیں ۔ دفتر بھی وہ بہت کم آتے ہیں کہ سارا دن دفتر سے باہر
ان کی کوئی نا کوئی سرکاری مصروفیت ہوتی ہے۔ البتہ چیف منسٹر کا حکم ہو یا
کبھی کبھارکوئی سفارش یا دباؤہو، تو وقت نکال کر دفتر آتے اورجس کیس کے
بارے ہدایت ملتی اس کیس کو اپنے کمرے ہی میں سن کر چیف منسٹر کی حسب منشا
فوری فیصلہ دے دیتے ہیں۔بورڈ آف ریوینیو والے کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ
کو بھی نہیں مانتے تھے۔ کورٹوں کے فیصلے خوبصورتی سے گول کر دئیے جاتے
تھے۔پانچ پانچ اور چھ چھ دفعہ لوگ فیصلے لے کر آتے ہیں اور ان کی کاغذی
پھرتیوں کے بعد پھر کورٹس کو پلٹ جاتے ہیں۔کاش سپریم کورٹ ان عدالتوں کی
طرف بھی تھوڑی سی توجہ کر لے تا کہ بہت سوں کا بھلا ہو جائے۔ جناب چیف جسٹس
کوچائیے کہ کسی دن اپنا نمائندہ ان عدالتوں کا جائزہ لینے بھیج دیں، ججوں
کے رجسٹر دیکھ کرپتہ کریں کہ ایک سال میں کتنی دفعہ ممبران نے بطور جج اپنے
فرائض انجام دئیے اور پھر ایسے احکامات دیں کہ آئندہ خلق خدا خراب ہونے سے
بچ سکے۔
نئی آنے والی حکومت نے محکمہ مال کا قلمدان پتہ نہیں کس کو دیا ہے۔وزیر
اعظم نے کہا ہے کہ پنجاب کے وزرا کارکردگی دکھائیں ورنہ گھر جائیں۔ جس
صوبائی وزیر کی کارکردگی اچھی نہیں ہو گی اس کو بہتری کا کہا جائے گااور
ناکامی کی صورت میں گھر بھیج دیا جائے گا۔ جناب وزیر اعظم کارکردگی جب بھی
ہوتی ہے بہتر ہی ہوتی ہے یا پھر کارکردگی نہیں ہوتی۔ ہماری بیوروکریسی نئے
وزرا کو جن گورکھ دھندوں میں الجھانے کا فن جانتی ہے ۔ اس سے نپٹنے کے لئے
جن آہنی ہاتھوں اور انتہائی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے پنجاب کابینہ کے لوگوں
میں ،کچھ کے نئے ہونے یا کچھ کے پرانے سسٹم کے عادی ہونے کے سبب و،ہ وصف
نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ وقت کے ساتھ امید ہے کہ حالات کو سمجھ جائیں گے
مگر یہ تھوڑا صبر آزما اور قدرے وقت لینے والا مرحلہ ہے۔ پھر بھی میں دعاگو
ہوں کہ اﷲ کرے یہ لوگ کامیاب اور کامران ہوں۔پوری قوم کی امیدیں ان لوگوں
سے وابستہ ہیں۔ |