حضرت مادھو لال حسین ؒ

ایک درویش صفت ولی کامل

حضرت مادھو لال حسین جمال معرفت اور کمال حقیقت سے آراستہ تھے۔ آپ کے والد کا نام کلسن رائے تھا۔ انہوں نے سلطان فیروز شاہ کے عہد میں اسلام قبول کیا اور ان کااسلامی نام شیخ عثمان تھا‘ ان کا ذریعہ معاش کپڑا بننا تھا۔ حضرت مادھو لال حسین 1538ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام شیخ حسین تھا لیکن آپ مادھو لال حسین کے نام سے مشہور ہیں۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ آپ مادھو نامی ایک برہمن لڑکے کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ اسی بناء پر دونوں کے نام بھی یک جا ہو گئے اور بجائے شیخ حسین کے آپ مادھو لال حسین کہلانے لگے۔ آپ کے نام میں لال کے لفظ کا اضافہ سرخ پوشاک پہننے کی وجہ سے ہوا۔ آپ کی عمرجب سات برس ہوئی تو حصول تعلیم کے لیے مکتب میں بھیجے گئے اور وہاں استادحافظ ابو بکر سے قرآن پاک کے چھ سپارے حفظ کئے۔ بعد ازاں شیخ سعد اﷲ سے تفسیر مدارک کا کچھ حصہ بھی آپ نے پڑھا۔
عدم دلچسپی کی بنا پرآپ زیادہ عرصہ تک تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ ایک دن آپ مکتب میں درس لے رہے تھے کہ وہاں ایک عظیم روحانی شخصیت کی آمد ہوئی ۔ یہ روحانی شخصیت حضرت بہلول ؒ تھے جو اپنے وقت کے قطب زماں تھے۔ وہ حضرت امام علی موسیٰ ؒکے مزار سے لاہور تشریف لائے تھے۔ ان کو حضرت امام رضا ؒ کے مزار سے حکم ہوا تھا کہ لاہور جا کر آپ (حضرت مادھو لال حسین) کواپنی توجہ خاص سے نوازیں ۔
چنانچہ حکم کے مطابق آپ مسجد میں تشریف لائے اور استاد گرامی حافظ ابو بکر سے آپ کا نام معلوم کر کے آپ سے مخاطب ہوئے اور دریا سے وضو کے لئے پانی لانے کا حکم دیا ۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کر کے آپ کے لیے اس طرح دعا کی ’’یا الٰہی اس بچے پر کرم کر۔ اس کو عرفان کی دولت سے مالامال کر اور اپنا سچا عاشق بنا۔‘‘

ایک حکایت یہ بھی ہے کہ حضرت بہلول ؒ نے حافظ ابو بکر سے فرمایا کہ ماہ رمضان قریب ہے۔ اس سال رمضان میں شیخ حسین قرآن سنائیں گے۔ یہ سن کر آپ نے حضرت بہلول ؒ سے عرض کیا ’’یہ کیسے ممکن ہے! مجھے تو صرف قرآن پاک کے چھ سپارے یاد ہیں۔‘‘ حضرت بہلول ؒنے فرمایا کہ ’’فکر کی کوئی بات نہیں ہے تم ضرور قرآن پاک سناؤ گے۔ دریا پر جاؤ اور وہاں سے ہمارے لئے پانی لاؤ اور ایک بات کا خیال رکھنا وہاں جو بزرگ تمہیں ملیں ان کی ہدایت پر عمل کرنا۔‘‘

آپ دریا پر جو گئے تو دیکھا ایک بزرگ وہاں آپ کے منتظر ہیں۔ بزرگ نے آپ سے فرمایا کہ لوٹے کا پانی ان کے ہاتھ پر ڈال دیں۔ آپ نے ایسا ہی کیا۔ بزرگ نے خوش ہو کر آپ کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اس کی برکت سے آپ کو پورا قرآن پاک حفظ ہوگیا اور آپ نے اس سال رمضان المبارک میں پورا قرآن شریف سنایا۔ رخصت ہونے سے قبل حضرت شیخ بہلول ؒ نے آپ کو اس امر کی ہدایت فرمائی کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر انوار پر باقاعدگی سے حاضر ہوا کریں۔ آپ نے چھبیس سال عبادت‘ ریاضت اور مجاہدے میں گزارے۔ روزانہ ایک قرآن پاک ختم کرنا آپ کا معمول تھا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر باقاعدگی سے حاضر ہوتے۔

رات تلاوت کلام پاک اور عبادت میں گزارتے۔ دریا کے کنارے اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر سکون قلب اور یک سوئی پاتے۔ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر مکتب میں تفسیر کا درس لینے جاتے۔ وہاں نماز عصر تک رہتے۔ عصر کی نماز کے بعد ذکر وفکر میں مشغول ہو جاتے۔ نمازمغرب ادا کر کے عشاء کی نماز تک نوافل پڑھتے۔ بیماری کی حالت میں بھی آپ کے معمولات میں فر ق نہ آیا۔ ایک اور حکایت کے مطابق ایک روز آپ شیخ سعد اﷲ سے تفسیر مدارک کا درس لے رہے تھے۔ جب ایک آیت (جس کے معنی یہ تھے کہ اس جہان کی زندگی لہو ولعب ہے) پر پہنچے تو آپ نے شیخ سعداﷲ سے اس کی وضاحت اور تشریح بیان کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے فلسفیانہ اور عالمانہ طور پر آپ کو سمجھایا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ تمام دنیا ہی لہو ولعب ہے۔ یہ سن کر آپ پر وجدانی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ اسی حالت میں رقص کرنے لگے اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکلے کہ جب خداوند تعالیٰ نے ساری دنیا کو تماشا فرمایا ہے تو بس اس میں مصروف رہنا چاہئے۔ آپ نے کتابیں ایک کنویں میں ڈال دیں۔ داڑھی کے بار سے سبکدوش ہوئے۔ جام آپ کے ہاتھ میں ہوتا اور آپ گلی کوچوں اور بازاروں میں نشے کی حالت میں گھومتے پھرتے ۔ طوائفوں میں جاتے۔ ناچ گانے میں ہمہ تن مشغول رہتے اور محفل نشاط میں شریک ہو جاتے ۔ غرض آپ نے ’’ملامتیہ‘‘ طریقہ اختیار کرلیا تھا۔

آپ کے پیر ودستگیر حضرت شیخ بہلول ؒ کو معلوم ہوا جو اس وقت چنیوٹ میں تھے کہ آپ (حضرت حسین) شراب پیتے ہیں‘ مدہوش رہتے ہیں اور جادۂ شریعت سے بھٹک گئے ہیں تو وہ آپ کو دیکھنے کی غرض سے لاہور تشریف لائے۔ آپ کو دیکھا اور مطمئن ہو کر واپس تشریف لے گئے۔

آپ کے قلندرانہ مشرب کی شکایت شہنشاہ اکبر تک پاس پہنچی۔ تو انہوں نے آپ کو دربار میں طلب فرمایا۔ اور آپ سے مخاطب ہوکر دریافت کیا! ’’اے درویش سنا ہے تم خدا رسیدہ ہو‘‘ آپ نے جواب دیا۔ اس میں کیا شک ہے۔ اکبر نے پوچھا ’’اچھا یہ تو بتایئے کہ آپ خدا تک کس طرح پہنچے۔‘‘ آپ نے جواب دیا اے بادشاہ! میں خدا تک نہیں پہنچا بلکہ خدا مجھ تک پہنچا ہے۔ ایک درباری نے اس کا ثبوت مانگا۔ آپ نے اکبر سے مخاطب ہو کر فرمایا!
’’اے ہندوستان کے سیاہ وسفید کے مالک! موٹی سی بات ہے‘ اگر آپ نہ چاہتے تو یہ گدا آپ تک کیسے پہنچتا۔‘‘ اکبر آپ کا یہ جواب سن کر خوش ہوا اور آپ کو عزت واحترام سے رخصت کیا۔ شہزادہ سلیم جو ’’جہاں گیر‘‘ کے لقب سے تخت پر بیٹھا آپ کا معتقد تھا۔ اس نے آپ کا روزنامچہ لکھنے کی خدمت بہادر خاں کے سپرد کی۔

آپ نے ملامتیہ طریقہ اختیار کیا تھا۔ آپ کا مشرب قلندرانہ تھا۔ آپ کو ناچ گانے کا بہت شوق تھا۔ آپ لباس فقر میں اپنے آپ کو چھپائے رکھتے تھے۔ روزانہ صبح کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ رات رونے میں گزار دیتے تھے۔ آپ نشہ آـور چیزوں کا استعمال بھی کرتے تھے۔

آپ کے زریں اقوال زندگی کی گہرائیوں سے روشناس ہیں اور پڑھنے والے کو دعوت فکر وعمل دیتے ہیں مثلاً آپ فرماتے ہیں ’’جب علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو اس علم سے ناچنا کودنا بہتر ہے۔‘‘ اسی طرح رواداری‘ محبت کا درس دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ چند لفظوں میں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں نہ مقیم ہوں اور نہ مسافر‘ نہ مسلمان نہ کافر۔‘‘

آپ کی بے مثال کرامات اور معجزے مشہور ہیں مثلاً یہ کہ آپ نے جب مکتب چھوڑا تو ساری کتابیں کنویں میں ڈال دیں۔ آپ کے ساتھیوں نے اپنی کتب آپ سے طلب کیں۔ آپ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور کنویں سے کہا کتابیں واپس کر دے۔ یکایک پانی اوپر آیا۔ کتابیں پانی میں تیر رہی تھیں۔ یہ آپ کی دعا کا اثر تھا کہ کوئی ایک کتاب بھی پانی میں بھیگی نہیں تھیں۔ آپ نے کتابیں اٹھاکر ساتھیوں کو دے دیں۔

ایک اور حکایت ہے کہ مادھو کے ہندو والدین گنگا اشنان کے لئے گئے۔ وہ مادھو کو بھی اپنے ہمراہ لے جانا چاہتے تھے لیکن آپ نے مادھو کو روکتے ہوئے فرمایا کہ جس دن اشنان ہو اس دن بتانا۔ جب مادھو نے آپ کواس دن یاد دلایا تو آپ نے مادھو سے آنکھیں بند کرنے اور ان کے پاؤں پر پاؤں رکھنے کو کہا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ وہ گنگا کے کنارے کھڑے ہیں۔ اپنے والدین کے ساتھ اشنان کر کے اسی طرح لاہور واپس آگئے۔ مادھو کے والدین جب اشنان سے لاہور واپس آئے تو انہوں نے اس کا ذکر حیرت کے انداز میں کیا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی بزرگی کے قائل بھی ہو گئے۔

ایک مرتبہ موضع منڈیا کے نمبردار نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا اور کہا جب تک بارش نہ ہو گی رہائی نہیں ملے گی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر بارش چاہتے ہو تو نان اور مرغ لاؤ ٗ پھر دعا کریں گے۔ نان اور مرغ کھانے کے بعد آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’اب کیا دیر ہے‘‘ آپ کا یہ کہنا تھا کہ بادلوں کا ایک ٹکڑا کہیں سے نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش شروع ہوگئی ۔ منصب ولایت کے ساتھ ساتھ آپ کا شمار عظیم صوفی شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ کا کلام صدیوں بعد بھی بڑے ذوق وشوق سے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔

آپ ؒنے 1599ء میں وفات پائی۔ بوقت وفات آپ کی عمر63 سال کی تھی۔ آپ شاہدرہ کے قریب مدفون ہوئے۔ اتفاقاً چند سال کے بعد مقبرے کے نزدیک دریائے راوی آ گیا اور مادھو اپنے مرشد کا صندوق وہاں سے نکال لایا اور اس جگہ (باغبانپورہ) دفن کیا جہاں اب مزار ہے پھر مادھو بھی 1642ء میں فوت ہو کر ان کے ساتھ دفن ہوا۔ آپ کے عرس کے موقع پر ہر سال میلہ چراغاں ہوتا ہے۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.