اُردو زبان کا شمار دُنیا کی زیادہ بولی اور سمجھی
جانے والی زبانوں میں ہوتا۔اُردو فارسی اور عربی کا مرکب ہی تو ہے۔ اِس کے
علاوہ اُردو کا دامن اتنا وسیع ہے کہ ہر زبان کا لفظ اِس کے اندر سما جاتا
ہے۔ یوں انگریزی ، فرینچ، جرمن زبان کے بہت سے الفاظ اُورد زبان کا حصہ بن
چکے ہیں۔برصغیر پاک وہند میں اُردو زبان کو ہمیشہ سے مسلمانوں کی زبان خیال
کیا جاتا رہا ہے۔ اِسی لیے ہندو مذہب کے ماننے والے اُردوز بان کو پیار کی
نظر سے نہیں دیکھتے لیکن اِس کے باوجود اُردو زبان میں ہونے والی شاعری اور
نثر نگاری نے پوری دُنیا میں خوب سکہ جمایا ہے۔قران چونکہ سر زمینِ عرب میں
نازل ہوا اور یوں قران کی زبان عربی ٹھری۔ قران کو سمجھنے کے لیے اقوام
عالم نے اپنی اپنی زبانوں میں اِس کے تراجم کیے۔ اُردو میں بھی قران مجید
کے تراجم اور تفاسیر لکھی جاچکی ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان ؒ کا
لازوال ترجمہ اُردو زبان میں کنزلایمان کے نام سے بہت مشہور ہے۔ لیکن عہد
حاضر میں اُردو زبان کے حصے میں ایک اور بہت بڑی سعادت آئی ہے وہ یہ کہ
قران مجید کی منظوم تفسیر کی گئی ہے۔دین اسلام کی سربلندی کے لیے ہر دور
میں اﷲ پاک نے اپنے خاص بندوں کو چُنا اور اِن بندوں کو اسطاعت عطا فرمائی
کہ وہ اپنے رب کے احکامات کو دُنیا بھر کے انسانوں تک پہنچائیں۔ ایک ایسی
ہستی جو کہ اپنے رب اور اُس کے رسولﷺ کی محبت کے فروغ کے لیے تگ و تاز جاری
رکھے ہوئے ہے اُن کی جانب سے اﷲ پاک کی آخری کتاب قرانِ مجید کا منظوم
ترجمہ تحریر کیا جانا عظیم سعادت ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جانب سے سورۃ القدر
کامنظوم ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ہے اﷲ کے نام سے ابتدا۔ وہ رحمان ہے رحمتِ
بے بہا۔شب قدر اُتارا ہے قران کو۔ مگر کیا خبر اس کی انسان کو۔ہزاروں
مہینوں سے افضل یہ رات۔جو دیکھیں نظر آئے جلوہ ذات۔ ملائکہ اترتے ہیں شب
بھر سبھی۔ تو کتنی ہے رات رحمت بھری۔ اُترتے ہیں اِس شب وہ روح الامیں۔ وہ
لاتے ہیں احکام دنیا و دیں۔ سلامتی لے کے بہ اِذنِ خدا۔ تو رہتی ہے تا فجر
نوری فضا۔ یہ ہے اندازِ بیاں جو ڈاکٹر صاحبہ نے قران مجید کے منطوم ترجمے
کو تحریر کرنے کے لیے اپنایا ہے۔مسلم دُنیا کی یہ پہلی خاتون ہوں جنہوں نے
اردو زبان میں قران مجید کا منظوم ترجمہ تحریر کیا۔ محترمہ ڈاکٹر شہناز
مزمل صاحبہ ممتاز شاعرہ و نثر نگار ہیں اور ادب سرائے انٹرنیشنل کی سربراہ
ہیں۔ہمارئے معاشرئے میں انسانی اقدار جس طرح زوال پزیر ہیں اور مادیت نے ہر
شے کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اِن حالات میں اﷲ پاک اور اِس کے عظیم رسولﷺ کے
پیغام کو امُت مسلمہ تک پہنچانا ایک بہت بڑا صادقہ جاریہ ہے۔ مادر دبستان
لاہور کے لقب کی حامل محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ایک قادر الکلام شاعرہ
ہیں اور اِس کا ثبوت اُن کا عظیم کارنامہ قران مجید کا منظوم ترجمہ ہے۔
مجھے اُن کی خدمت میں حاضری کا شرف ہے َلیکن آفرین ہے محترمہ ڈاکٹر شہناز
مزمل صاحبہ نے انتہائی انتھک محنت اور رب پاک کی خاص مہربانی اور نبی پاکﷺ
کی رحمت کے طفیل اتنا بڑا کام کیا ہے۔ قران مجید سے محبت کرنے والوں پر اﷲ
پاک کا خاص کرم ہوتا ہے۔ قران مجید کا پیغام عام کرنے والے اﷲ پاک کے خاص
بندے ہوتے ہیں۔دین حق سے آگاہی کا یہ عالم کے قران مجید کا منظوم ترجمہ کیا
جائے اور پڑھنے والوں کو یہ شائبہ تک نہ ہو کہ کہیں بات بغیر کسی سیاق
وسباق کے کی گئی ہے اتنی بڑی ذمہ داری کا کام کرنا۔ اﷲ پاک کے خصوصی کرم کے
بغیر کیسے ممکن ہے۔ تیسویں پارئے کی سورتیں جس انداز میں ترجمہ کی گئی ہیں
اُس حوالے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک لازوال کام کیا ہے۔
سوشل میڈیا کے بہت زیادہ استعمال اور پرائیوٹ چینلز کی بھرمار نے وقت کی
رفتار کو تیز کر دیا ہے۔ دن اِس طرح گزر رہے ہیں جیسے منٹ اور سکینڈ گزرتے
ہیں۔ ایسے میں اﷲ کے نیک بندوں کی محافل بنی نوح انسان کی تربیت کے لیے اور
نفسیاتی طور پر راہ حق کے لیے خود کو وقف کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ڈاکٹر
شہناز مزمل صاحبہ کودُنیاوی چیز سے کوئی محبت نہیں وہ تو اپنے رب کے عشق
میں مسلسل مسافت اختیار کیے ہوئے ہیں اور عشق مسلسل کا یہ انداز کہ اُنھوں
نے قران پاک کا منطوم ترجمہ تحریر فرمایا ہے۔رب پاک کا فرمان ہے کہ اگر کو
قران مجید کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔لیکن صاحب
قران حضور نبی پاکﷺ پر نازل ہونے والی یہ عظیم کتاب پوری کائنات کے لیے راہ
ہدائت ہے۔ اِس کتاب کو منظوم انداز میں تحریر کرنا۔ اﷲ پاک کی طرف سے عظیم
سعادت ہے عام قاری کے لیے یہ منظوم ترجمہ بہت بڑا تحفہ ہے اور ڈاکٹر صاحبہ
کا یہ انقلابی کام صدیوں اُردو پڑھنے والوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ جب تک
یہ دُنیا قائم ہے اُس وقت تک ڈاکٹر صاحبہ کاکیا ہوا یہ منظوم ترجمہ انسانوں
کو اپنے رب کا پیغام منظوم انداز میں پہنچائے گا۔ اﷲ پاک کا کلام قرانِ
مجید، اُس کلام کو منطوم تحریر کی شکل دینا سعادت کا عظیم مرتبہ ہے۔ ڈاکٹر
صاحب کا یہ منظوم ترجمہ درحقیقت قران مجید کی تفسیر بھی ہے۔ڈاکٹر شہناز
مزمل ایک ایسی ہستی کا نام ہے۔جب بھی مجھے اِن کا خیال آتا ہے تو اِن کے
خیال کے ساتھ ہی مجھے اپنے قلب وجان میں عشق مصطفےﷺ کی شمع فروزاں ہوتی
ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صرف ایک شاعرہ اور مصنفہ کا نام نہیں
ہے بلکہ ڈاکٹر صاحبہ کی عشق مصطفےﷺ کی کیفیات اور اﷲ پاک کے ساتھ اُن کا
تعلق کا انداز عہد حاضر کے لوگوں کے لیے عظیم سرمایہ ہے۔ مجھے اپنی کم
مائیگی کا احساس ہے کہ میری طرف سے محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے حوالے
سے کچھ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دیکھانا۔ڈاکٹر شہناز مزمل صا
حبہ نے جس طرح خالق کی محبت میں ڈوب کر لکھا ہے اور جس راستے کی وہ مسافر
ہیں یقینی طور پر راہ حق کے مسافروں کے لیے اُنھوں نے جس طرح رہنمائی کی ہے
وہ یقینی طور پر ایک کامل ولی ہی کر سکتا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنے اردگرد کے
لوگوں پر اتنی نوازشات ہیں کہ وہ سب کے لیے ایک ایسا شجر سایہ دار ہیں جس
سے ہر کوئی فیض لیتا ہے۔ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ
راہ عشق حقیقی کا آئینہ دار ہے۔اﷲ پاک نے ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ پر اپنے
بے پناہ کرم سے نواز ا ہے کہ اُن کی شاعری اور نثر دونوں میں انسانیت سے
محبت اور فلاح کا راستہ دیکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر شہناز مزمل صاحب جن راستوں
کی راہی ہیں وہ اخلاص محبت اور وفا سے سجا ہوا ہے۔ادب سرائے ماڈل ٹاون
لاہور کی چیئرپرسن ڈاکٹر شہناز مزمل گذشتہ تین دہائیوں سے تشنگان علم و ادب
کے لیے چراغِ راہ بنی ہوئی ہیں۔ کسی قسم کے تجارتی ہدف سے ماورا محترمہ
ڈاکٹر صاحبہ علم و آگہی کے موتی بکھیر رہی ہیں کتاب سے اُن کا تعلق ایسا ہی
ہے جیساکہ اپنی اولا د سے ہوتا ہے۔چند برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے اِن
سے رابطہ ہے اور مجھے ہمیشہ اپنا چھوٹا بھائی کہتی ہیں۔اُن کی خصوصی دعوت
پر حذیفہ اشرف اور مجھے اِس عظیم خاتون سے ملاقات کا شرف ادب سرائے میں
ہوا۔زندگی کو جس انداز میں ڈاکٹر صاحبہ نے سمجھا ہے وہ وہی اسلوب ہے جس طرح
کا انداز اﷲ پاک کے ولیوں کا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ممتاز شاعرہ، نثر
نگار ہیں اُس کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں بھی اپنا کردار ادا کرہی ہیں۔
اِس حوالے سے جب اُن سے گفتگو ہوئی تو اُنھوں نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں
میں وقف رکھنے کا سبب جو بتایا وہ یہ ہی تھا کہ اِس زندگی کا مقصد دکھی
انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ڈاکٹر صاحبہ گذشتہ تیس سالوں سے ادب
سرائے میں مختلف تقریبات منعقد کر رہی ہیں۔ فیض گھر میں بھی کافی عرصہ
اُنھوں نے مختلف ادبی نشستوں کا انعقاد کیا۔دُنیا کے حرص سے دور اپنے رب کی
محبت میں زندگی گزارنے والی ڈاکٹر شہناز مزمل ایک بہت بہادر خاتون ہیں ۔
اِن کی شاعری میں جابجا اپنے رب کے شکر کا اظہار ملتا ہے۔ ایسا وہی شخص کر
سکتا ہے جس کے اندر طمع نہ ہو۔مجھے جب بھی ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری
سے استفادہ ہونے کا موقع ملا تو یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب دل اور نگاہیں وضو
کرتی ہیں۔ ۔ڈاکٹر صاحبہ کی شاعری کے حوالے سے میرے جانب سے کچھ ضبطِ تحریر
میں لانا ایسا ہی جیسے کوئی ناخواندہ کسی عالم کی مدحہ سرائی کر رہا ہو۔
لیکن کیونکہ ڈاکٹر صاحبہ کی الفاظ میں رب پاک، نبی پاکﷺ، اہل بیتؓ وصحابہ
اکرامؓ کی عقیدت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے اِس لیے مجھ جیسا شاعری کے مدو
جذر سے نا آشنا بھی خود کو فیض یاب پاتا ہے۔اِنسانی جذبات اور رویوں کو
الفاظ کے قالب میں ڈھالناگو ڈاکٹر صاحبہ پر رب پاک کا خاص احسان اور عنائت
ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کی اپنی زندگی میں جو تنہائی ہے اُس کیفیت نے اِن کو ایسے
جذبوں کا ترجمان بنایا ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہوتا ہے اِیسی کیفیات صرف
محسوس ہی کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ادب سرائے کو جس انداز میں رونق
بخشی ہے وہ اُنھی کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔بچوں کو کہانی سُنانے کو وہ انداز
جو ہم اپنے بچپن میں اپنی ماں یا دادی سے سنا کرتا تھے اُس روایت کو ڈاکٹر
صاحبہ نے تقویت بخشی ہے۔شہناز مزمل صاحبہ کی شاعری میں بلا کی دوربینی ہے۔
وہ لکھنے والے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں مادیت چھو کر بھی نہیں
گزری۔یہ ادب سرائے ہم جیسے دنیا داروں کے لیے امن و محبت کا ایسا گوشہ ہے
کہ جس طرح فقیر کی چوکھٹ درد کی دولت عطا کرتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ہمارئے لیے
ادب سرائے ہے۔ اﷲ پاک میری بڑی بہن ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی عمر دراز
کرئے اور ملک وملت کی رہنمائی کے لیے اُن کا سایہ ہمارئے سروں پر تا ابد قا
ئم رکھے آمین۔ |