عبدالوہاب خاں سلیم
۶ فروری۱۹۳۹ء۔ اکتوبر۲۰۱۷ء
تدوین و ادارت : ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری
مبصرہ: ڈاکٹر نسرین شگفتہ
لائبریری پروموشن بیورو ایک معتبر اور شہرت یافتہ اشاعتی ادارہ ہے جس نے
لائبریری سائنس اور دیگر موضوعات پر لاتعداد کتب کی اشاعت کی۔اس کی نئی اور
تازہ اشاعت "عبدالوہاب خاں سلیم" ۱۹ فروری ۲۰۱۸ء کو منظر عام پر آئی۔اس
کتاب کی تدوین و ادارت ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب نے کی۔
کتاب دوست اور علم دوست شخصیت عبدالوہاب خاں سلیم صاحب کے انتقال کے بعد
بیورو کے ایک اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ اس عاشق کتاب شخصیت کے بارے میں
تاثرات مختلف حضرات و خواتین سے تحریر کروا کر ایک کتاب مرتب کی جائے۔ ان
کے بارے میں اس سے پہلے تین کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ۱۔ سید جمیل احمد رضوی کی
"عبد الوہاب خاں سلیم: پیکر جود و سخا" جو لاہور سے شائع ہوئی۔ ۲۔ "وہاب
نامہ" جو وقار مانوی کی مرتبہ ہے اس کی اشاعت نئی دہلی سے ہوئی۔ ۳۔ وقار
مانوی کی ایک اور مرتب کردہ کتاب "وہاب نامہ: دانشوران ادب کی نظر میں" یہ
بھی نئی دہلی سے شائع ہوئی۔
زیر نظر کتاب کی تیاری کے لئے ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری، ڈاکٹر نسیم
فاطمہ،ڈاکٹر نسرین شگفتہ اور سید معراج جامی نےمختلف افراد سے رابطے کئے ۔
متعدد افراد نے اپنی مصروفیات کے باوجود اور ہماری یاددہانی کے سبب اپنی
نگارشات سے نوازا جن کے ہم شکرگزار ہیں۔ان تمام مضامین کے مطالعہ سے قارئین
کو عبدالوہاب خاں سلیم کے احباب، ان کے خصائل، ان کی علم دوستی ، کتب داروں
اور مصنفین کی مالی و اخلاقی اعانتوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔
ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب نے انتساب تحریر کیا ہے،"تمام اہل کتب و
کتاب داروں کے نام جو علم و تحقیق کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔"پیش لفظ بھی
ڈاکٹر صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ پہلا مضمون "آپ بیتی" کے عنوان سے
عبدالوہاب صاحب کی قابل قدر اہلیہ خورشید سلیم (نیویارک) نے تحریر کیا ہے۔
اس کے بعد جن افراد کے مضامین شامل کئے گئے ہیں ان کی ترتیب مضمون کے عنوان
میں حروف تہجی سے کی گئی ہے۔ مزید مصنفین کے نام یہ ہیں: وقار مانوی(نئی
دہلی)، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی(لاہور)، ہمامنان بٹ(کراچی)، مشتاق احمد
چوہان(نیویارک)، محمد اویس جعفری(سٹائل) ،ڈاکٹر نسیم فاطمہ(کراچی)، ڈاکٹر
قراۃالعین طاہرہ(اسلام آباد)، سید جمیل احمد رضوی(لاہور)، ڈاکٹر نسرین
شگفتہ(کراچی)، ڈاکٹر معین الدین عقیل(کراچی)، ڈاکٹر انور محمود خالد(فیصل
آباد)، سید معراج جامی(کراچی)، ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری(ڈلس)، ڈاکٹر سہیل
شفیق(کراچی)، ڈاکٹر عطاخورشید(علی گڑھ) اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر(کراچی)۔
مصنفین نے اپنے مضامین میں عبدالوہاب خاں سلیم کی شخصیت، علم دوستی، کتاب
سے محبت، اپنے احباب سے محبت اور علمی اور مالی تعاون کے تذکرہ کے ساتھ ان
کے انتقال پر اپنے رنج و غم کا بھی اظہار کیا ہے۔ میں یہاں بیگم خورشید
سلیم اور چند احباب کے دلی جذبات پیش کروں گی۔
خورشید سلیم صاحبہ اپنے مضمون میں نہایت غمزدہ جذبات کے ساتھ تحریر کرتی
ہیں،" مجھے اپنے شوہر کے آخری وقت کا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ انتقال سے دو
منٹ پہلے کہنے لگے کہ میری بیوی کہاں ہے میں نے کہا کہ میں تو آپ کے پاس
بیٹھی ہوں اور آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ ان کو پسینہ آنا شروع ہو ا
تو میں نے بیٹی رفعت کو ڈانٹا کہ تم نے جو دوائی دی ہے اس سے ایک دم پسینہ
آگیا اس طرح تو ان کو کمزوری ہو جائے گی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ موت کا
پسینہ ہے میں ان کا پسینہ صاف کرنے لگی۔ ابھی میں پسینہ صاف کر رہی تھی کہ
انھوں نے اپنا چہرہ ایک طرف کرتے ہوئے اوپر دیکھا اور ختم ہوگئے۔" "میں
اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتی ہوں کہ ان کو معاف کر دینا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب
کو توفیق دے کہ ان کی مغفرت کروانے کا سبب بنیں۔ آمین۔"
"افسوس! عبدالوہاب صاحب نہیں رہے" یہ عنوان ہے وقار مانوی کے مضمون کا۔
عبدالوہاب صاحب کے انتقال کی غم ناک خبر ملنے کے بارے تحریر فرمائے کہ "ان
کے انتقال کی خبر مجھے ۱۱ اکتوبر کو علی گڑھ سے مہر الہی ندیم صاحب نے اور
کچھ دیر ہی بعد بمبئی سے ندیم صدیقی نے فون پر دی۔ بس پھر کیا تھا اس غم
ناک خبر سے دہلی کی ادبی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔ کئی روزناموں نے اس خبر کو
شائع کیا۔ متعدد ارباب ادب نے مجھ سے تعزیت کا اظہار کیا۔"
ڈاکٹر نسیم فاطمہ اپنے مضمون "سبق ملا ہے یہ عبدالوہاب خاں سے مجھے" میں ۳۴
اسباق پیش کرتے ہوئے مضمون کے آخر میں دعائیہ الفاظ میں یوں تحریر فرماتی
ہیں کہ "اللہ تعالیٰ عبدالوہاب خاں سلیم کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت
فرمائے، ان کی قبر کو کشادہ اور نور سے بھر دے ان کے وارثین کو صبر جمیل
عطا فرمائے اور ان کی روایات کے زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔"
نیویارک سے تصور حسین جنجوعہ اپنے مضمون "سلیم الطبع، سلیم فطرت قلب سلیم
کے مالک عبدالوہاب خاں سلیم" میں تحریر فرماتے ہیں کہ "البتہ کبھی کبھار وہ
بڑے حسرت آمیز لہجے میں کہتے "لوگ مجھے سمجھتے نہیں" اور کہتے "میں اچھا
آدمی ہوں، مگر میرے اپنے بھی مجھے نہیں پہچانتے!" پھر یہ حسرت بھرا انداز
فکر مندی میں بدل جاتا اور دعائیہ انداز میں گویا ہوتے،"اللہ تعالیٰ تو
مجھے اچھوں میں شمار کرے گا؟ کیا پتا وہ فرشتوں سے کہہ دے، بس لے جاو اسے
جنّت میں۔"یہی موقع ہوتا جب وہ مجھ سے اپنے خاص انداز میں کہتے،"بھائی آ
جائیو! میرا جنازہ مکی مسجد میں ہوگا" اور وہیں ہوا۔"
ڈاکٹر معین الدین عقیل کراچی سے اپنے مضمون "عبدالوہاب سلیم:یکے از پراگندہ
طبع لوگ" میں آخری ملاقات کے بعد فون پر گفتگوکے بارے میں کہتے ہیں کہ
"دوسری ملاقات کے بعد پھر ان سے ملاقات کا موقع مجھے نصیب نہ ہو ا۔ آخری
ملاقات کے بعد اس طرح کی گفتگووں کا سلسلہ گاہے گاہے ان کے اور میرے درمیان
فون پرجاری رہتا اور کتابیں اور اصحاب کتب زیر گفتگو آتے تا آں کہ وہ اس
دنیا سے دنیائے ابد کی طرف کوچ کر گئے۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع
لوگ! اب وہ اس دنیا میں نہیں اور نہ ہی اب ان کے فون آنے کا کوئی محل ہے۔
اب نہ کوئی ان کی طرح کی استفسار کرتا ہے، نہ کسی موضوع پر کسی جستجو اور
طلب کی کوئی خواہش ظاہر کرتا ہے اور نہ کہیں سے اب کوئی اطلاع ملے گی کہ
دور دراز فاصلے کے باوجود کسی نے فلاں ادارے یا فلاں شخص کو کتابوں کا تحفہ
دیا، یا کسی ادارے یا کسی لاچار مصنف کی کتاب کی اشاعت کا بار خود اٹھایا۔
رہے نام اللہ کا!"
"گنج ہائے گرانمایہ( عبدالوہاب خاں سلیم)"اس مضمون میں ڈاکٹر غنی الاکرم
سبزواری ، ڈلس، امریکہ سےاپنے ہونہار شاگرد کی علالت کے بارے فرماتے ہیں
کہ"عبدالوہاب صاحب کافی عرصہ سے علیل تھے۔ میں کینیڈا سے نیویارک جولائی
۲۰۱۷ء ان کی عیادت کے لئے رفیع الدین صدیقی صاحب کے ہمراہ گیا تھا۔ ان کی
حالت دیکھ کر بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ عرصہ دراز سے ہر نماز میں ان کی صحت
کے لئے دعا کرتا تھا لیکن مشیت ایزدی میں سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے آخر ۷
اکتوبر کو جانکاہ خبر ان کی سفر آخرت کی ملی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں
بندوں کو سر بسجود ہونا پڑتا ہے۔ اب ہر دعا میں بارگاہ رب العزت میں ان کی
مغفرت کی دعا کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ عبدالوہاب صاحب کو
جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین درجہ سے نوازے، آمین، ثمہ آمین۔ کمر باندھے
ہوئے چلنے کو سب یار بیٹھے ہیں۔۔۔۔بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
"
مجھ خاکسار کو ۸ اکتوبر ۲۰۱۷ء کو ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری صاحب کے برقی خط
کے ذریعے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ عبدالوہاب خاں سلیم صاحب کا انتقال
ہوگیا۔آدھے گھنٹےبعد نیویارک سے تصور حسین جنجوعہ صاحب نے فون پر نہایت
افسردہ آواز میں ان کے انتقال کی خبر سے آگاہ کیا۔ان کے دنیا سے رخصت
ہونے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سر سے بڑے بھائی کا سایہ اٹھ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو ٹھنڈا رکھے اور ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔
عاشق رسولﷺ، سب کے ہمدرد، کتابوں کے رسیا، ادیب پرور، علم دوست اور پیکر
اخلاص و محبت عبدالوہاب خاں سلیم دنیائے فافی کو خیر باد کہہ کر اپنے مالک
حقیقی سے جاملے اور ہم سب کو غم زدہ اور غم گسار چھوڑ گئے۔ اب ہم کتابوں
میں ہی ان کا ذکر پڑھ کر اور ان کے اہل خانہ و احباب سے ان کا ذکر خیر کرکے
ان کی یاد تازہ کیا کریں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم ان کے نقش
قدم پر چلیں اور ایسے نیک کام کریں کہ وہ ان کے لئے صدقہ جاریہ بنیں۔ڈاکٹر
غنی الاکرم سبزواری صاحب نے بڑی محنت، لگن اور عقیدت کے ساتھ یہ گلدستہ
عقیدت مرتب کیا۔آخری صفحہ پر عبدالوہاب صاحب کے بارے میں چاروں کتب کے نام
اور ملنے کے پتے درج ہیں۔ خوبصورت سرورق، پرکشش ڈیزائن اور رنگ، سفید عمدہ
کاغذ، مضبوط جلدکے ساتھ یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔ |