بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلیی علیٰ رسولہ الکریم ، اما بعد :
گستاخ رسول کی سزا ایک ایسا امر ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث میں
بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اور اگر ان دلائل کو ایک انسان مدنظر رکھے تو وہ
کبھی بھی اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہوگا۔ لیکن چونکہ کم
علمی کے سبب بعض لوگوں کے ذہن میں بعض اشکالات اور اعتراضات پیدا ہوجاتے
ہیں ، جس کے سبب وہ اس عالمی اور مشہور مسئلے میں تردد کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اور اس سلسلے میں بروقت مناسب رہنمائی نہ ہونے سے کبھی کبھی اس سلسلے میں
بعض اوقات مخالفت پر بھی اتر آتے ہیں۔
لہٰذا میں نے مناسب جانا کہ اول تو اس مسئلے کو دلائل سے ثابت کروں اور
اسکے بعد قرآن و حدیث کی روشنی میں ان اعتراضات کا بےغبار جواب کروں تاکہ
اس کے بعد اس سلسلے میں کسی کا کوئی اشکال اور اعتراض باقی نہ رہے۔ قارئین
کی آسانی کیلئے میں نے اسکو درج ذیل کے عنوانات میں تقسیم کیا ہے ۔تاکہ ہر
بات آسانی سے سمجھی جاسکے۔نیز پڑھنے میں دشواری نہ ہو۔
اللہ جل شانہ میری اس سعی کو قبول فرما کر میری سعادت کا ذریعہ بنا دے۔آمین۔
اہانت رسول کی سزا قرآن میں٭٭٭۔۔
اہانت رسول کی سزا احادیث میں٭٭٭۔۔
اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے کر اپنے طور پر گستاخ رسول کو قتل کرے تو اسکا
کیا حکم ہے۔٭٭٭۔۔
گستاخ رسول کا توبہ کرنا اور معافی طلب کرنا۔٭٭٭۔۔
اعتراضات اور انکے جوابات٭٭٭۔۔
شاتم رسول کی سزا اسلام میں متنازع فیہ مسئلہ نہیں ہے۔ تاریخ اسلام کے کسی
دور میں اسکے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا گیا۔
لیکن دور جدید میں بعض اہل قلم مغربی نظریات سے اسی طرح متاثر ہوئے کہ
انہوں نے اپنے ہی عقیدے اور اسلام کے بنیادی احکام میں بےجا مداخلت شروع کی
،اور غیر ضروری بحثوں میں پڑ کر امت میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی
۔ مغربی نظریہ کے نزد آزادی فکر ''خیر اعلیٰ'' کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر
شخص کو حق ہے کہ وہ جو چاہے کہے اور لکھے ، اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی
چاہیے۔
اسی مغربی نظریے کے اپنانے کا یہ نقصان ہوا کہ ایک ایسے مسئلے سے اختلاف
کیا گیا ، جس پر ہمیشہ عالم اسلام متفق اور متحد رہا۔
چنانچہ ملعون سلمان رشدی کے کتاب کے وقت بھی بعض لوگوں نے مسلمانوں کے
احتجاج کو ایک مجنونانہ حرکت قرار دیا تھا۔ اور یہی حال اب بھی ہے کہ بعض
لوگ توہین رسالت بل کے درپے ہیں اور اغیار کے آلہ کار بن کر ناموس رسالت
کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ناموس رسالت کی توہین کرنے والے کی سزا صرف اور
صرف موت ہے۔ اور یہ سزا عین شریعت خدا وندی اور اسلام کے مطابق ہے۔نیز
گستاخ رسول کا قتل ہی عشق اور محبت رسول کی دلیل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور
اسکے رسول کی محبت سےعاری ہونا اہل فسق کا شعار ہے۔ اور مؤمنوں کا شعار تو
یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرنے والے ہونگے۔ چنانچہ قران مجید
میں ہے کہ
والذین امنوا اشد حبا للہ (البقرہ۔۱۶۵)
اور ایک حدیث کے مطابق ایمان کی حلاوت بھی وہی شخص پائے گا جسکے نزد اللہ
اور اسکے رسول کی محبت ساری محبتوں پر غالب ہو۔
شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے سزائے موت کی مخالفت اور اہانت رسول
صلی اللہ علیہ وسلم پر احتجاج کو خلاف اسلام قرار دینا درصلی مزاج اسلام سے
ناواقفیت کی دلیل ہے۔اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔ گذشتہ چودہ سو سال سے یہ
مسئلہ متفق علیہ رہا ہے۔ اور کسی نے بھی شاتم رسول کی سزائے موت کا انکار
نہیں کیا ہے۔
گستاخ رسول کی سزا کے قرانی آیات سے دلائل٭٭٭۔۔
ذیل میں ہم قرآن مجید سے گستاخ رسول کی سزائے موت کے دلائل کو ذکر کرتے ہیں:
(۱)
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي
الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا (سورۃ احزاب
۔ایت۵۷)
ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلیی اللہ علیہ وسلم کو
ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔اور انکے لئے
ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اذیت جسمانی بھی اور روحانی بھی ، ذہنی بھی اور عقلی بھی، ان سب صورتوں میں
جو شخص اللہ اور اسکے رسول کو کوئی بھی اذیت دے تو وہ دین و دنیا میں رحمت
سے دور ہوتا ہے۔اب ہر آدمی کو سوچ لینا چاہیے کہ دو انچ کی زبان کہاں تک
آدمی کا خانہ خراب کرتی ہے۔
(۲)
وما کان لکم ان تؤذوا رسول اللہ (احزاب ،۵۸)
ترجمہ: اور تم کو جائز نہیں کہ رسول اللہ کو اذیت دو۔
(۳)
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآَيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ۔ لَا
تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبہ۔۶۵،۶۶)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اسکی ایتوں کے ساتھ اور اسکے
رسول کے ساتھ تم ہنسی کرتے تھے۔تم اب عذر مت کرو،تم اپنے کو مؤمن کہہ کر
کفر کرنے لگے۔
(۴)
ومن یشاقق اللہ ورسولہ فان اللہ شدید العقاب (الانفال۔۱۳)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرتا ہے،سو اللہ تعالیٰ سخت
سزا دینے والے ہیں۔
(۵)
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدٰی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ
ما تولیٰ و نصلیہ جھنم و سائت مصیرا(النساء۔۱۱۵)
ترجمہ: اور جو شخص رسول صلیی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا بعد اسکے کہ
اسکے سامنے امر حق ظاہر ہو چکا ہو اور مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے
رستہ ہو لیا ہو تو ہم اسکو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دینگے اور اسکو جھنم میں
داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔
امید ہے کہ سب حضرات اس پر غور کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی
اذیت اور انکی مخالفت اور انکا مقابلہ کس قدر سنگین جرم ہے۔ جس پر اللہ
تعالیٰ کے شدید عذاب سے کون اور کس طرح بچ سکتا ہے۔
پھر مخالفت بھی معمولی نہیں بلکہ اعلانات اور اشتہارات اور اپنی انتہائی
کوشش سے، تو غور کر لیا جائے کہ اس شدید ترین کوشش پر شدید عقاب وعذاب دنیا
اوراخرت میں کیا کیا ہوگا۔
ایسے مجرم کی حمایت اور حفاظت نیز اسکی معاونت کرنا کسی انسانیت دشمن ہی کا
کام ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ
یاایہاالنبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم و ماوٰھم جھنم وبئس
المصیر(سورہ توبہ۔۷۳)
ترجمہ: ائے نبی ! کفار ومنافقین سے سے جھاد کرو اور ان پرسختی کرو اور انکا
ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہی ہے۔
ان گستاخان رسالت میں بعض اسلام کے دعوی ٰ بھی کرتے ہیں ، لھذا منافق کے
زمرے میں بھی آتے ہیں۔
گستاخ رسول کی سزا کے احادیث نبویہ سے دلائل٭٭٭۔۔
قرآن مجید کے ان ایات کے بعد ہم احادیث نبویہ سےدلائل پیش کرتے ہیں۔
(1)
قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمَايَقُولُقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ
صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَنَا
فَأَتَاهُ فَقَالَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ
فَقَالَ ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا
وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ قَالُوا
كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ
بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ
اللَّأْمَةَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ
فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَأَخْبَرُوهُ (بخاری،باب الرھن)
مختصرترجمہ: حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں
نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے سنا کہ حضور صلیی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ کون کھڑا ہوگا کعب بن اشرف کیلئے کیونکہ اس نے اللہ اور
اسکے رسول کو تکلیفیں دی ہیں تو محمد بن مسلمہ اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر جا کر
اسکو قتل کردیا۔اور پھر حضور صلیی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے
اسکو قتل کردیا۔
اس حدیث کے ذیل میں فتح الباری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ اور اسکے رسول کو
اذیت پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ اس نے اپنے اشعار کے ذریعے نبی پاک صلیی
اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دی تھیں اور مشرکوں کی مدد کی تھی۔ حضرت عمرو سے
روایت ہے کہ یہ کعب بن اشرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا
اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف ابھارتا تھا۔یہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کو اور انکے واسطے سے اللہ کو اذیت دیتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
اسکے قتل کا اعلان کیا اور محمد بن مسلمہ نے اسکو قتل کرکے حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کو اسکے قتل کی اطلاع دے دی۔
(۲)
بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیٰ ابی رافع الیھودی رجالا من
الانصاروامر علیھم عبد اللہ بن عتیق وکان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم و یعین علیہ ۔(بخاری)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کیلئے
چند انصار کا انتخاب فرمایا ، جن کا امیر عبد اللہ بن عتیق مقرر کیا ۔یہ
ابو رافع نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتا تھا اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کی مدد کرتا تھا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گستاخ رسول کے قتل کیلئے باقاعدہ آدمی مقرر کئے
جاسکتے ہیں اور نیز یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے نہ کہ باعث سزا و
ملامت۔کیونکہ یہ لوگ ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور دینی خدمت انجام دے رہے
ہیں۔
(۳)
عن انس بن مالک ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم دخل مکہ یوم الفتح و علی راسہ
المغفر فلما نزعہ جاء رجل فقال ابن خطل متعلق باستار الکعبہ فقال
اقتلہ۔(بخاری)
قال ابن تیمیہ فی الصارم المسلول وانہ کان یقول الشعر یھجو بہ رسول اللہ
ویامرجاریتہ ان تغنیابہ فھذا لہ ثلاث جرائم مبیحۃ الدم، قتل النفس ، والردۃ
، الھجاء۔ (الصارم۔صفحہ ۱۳۵)
امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقتل القینتین(اسمھما قریبہ و قرتنا)
(اصح السیر ۔صفحہ ۲۶۶)
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے سر مبارک پر خود پہنا ہوا تھا۔جب آپ نے خود اتارا تو ایک آدمی اس وقت
حاضر ہوا ور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردو ں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے،آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسکو قتل کردو۔(بخاری)
ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں لکھا ہے کہ ابن خطل اشعار کہہ کر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور اپنی باندی کو وہ اشعار گانے
کیلئے کہا کرتا تھا،تو اسکے کُل تین جرم تھے جس کی وجہ سے وہ مباح الدم
قرار پایا ، اول ارتداد دوسرا قتل اور تیسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان
میں گستاخی۔
اور ابن خطل کے ان دونوں باندیوں کے قتل کانبی صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم
دیا تھا۔
درصلی اشعار ابن خطل کے ہوتے تھے اور اسکو عوام کے سامنے گانے والی اسکی دو
باندیاں تھیں۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ گستاخی ناموس رسالت کی اشاعت میں مدد
کرنے والے کو بھی قتل کا جائے گا۔
(۴)
امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقتل الحویرث ابن نقیذ فی فتح مکہ وکان
ممن یؤذی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم(البدایہ والنھایہ)
وقتلہ علی رضی اللہ عنہ (اصح السیر)
فتح مکہ کے دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حویرث بن نقیذ کو قتل کرنے کا
حکم دیا اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء
پہنچایا کرتے تھے۔حضرت علی نے اسکو قتل کیا۔
(۵)
عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل و
من سب اصحابہ جلد(الصارم المسلول صفحہ۹۲،۲۹۹)
ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو برا
کہے اسکو کوڑے لگا دئے جائیں۔
ان تمام دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ناموس رسالت کی گستاخی آدمی کو
واجب القتل بنا دیتی ہے اور اسکا خون مباح ہوجاتا ہے۔اور یہ حکم حضرت آدم
سے لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک سب کو شامل ہے، یعنی آدم علیہ
السلا م سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء ہیں،تو ان میں
سے کسی ایک کی توہین سے بھی آدمی واجب القتل بن جاتا ہے۔
اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اپنےطور پر اس گستاخ رسول کو قتل کیا
تو٭٭٭۔۔۔
ان دلائل کے بعد جس میں گستاخ رسول کو قتل کرنے کا حکم ملتا ہے۔ اور خود
نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ایسے گستاخوں کو قتل کا
حکم دیا ہے ۔ظاہر ہے اس وقت اسلامی حکومت تھی اور یہ کام اسلامی حاکم کے
حکم سےانجام پائے ہیں ۔لیکن اگر کسی نے انفرادی طور پر اُٹھ کر ایسے گستاخ
کو قتل کردیا تو اسکا کیا حکم ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ نبوی زندگی میں اسکا
کوئی مثال اگر ہےتو خود حضور صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے
ایسےگستاخ کے قاتل کے ساتھ کیا رویہ اپنایا ہے۔
(۱)
حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ان اعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ
النَّبِيَّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا
فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ
ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا
وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ
فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ
لِرَسُولِ اللَّهِ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ
فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ
إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ
حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ
فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي
مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً
فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ
فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا
حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام
ولد باندی تھی جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخیاں کرتی تھی، یہ نابینا اسکو روکتا تھا
مگر وہ نہ رکتی تھی ۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی۔راوی کہتا
ہے کہ جب ایک رات پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنی اور
گالیں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اسکے پیٹ پر
رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا، عورت کی ٹانگوں کے
درمیان بچہ نکل پڑا، جو کچھ وہاں تھا خون آلود ہوا ۔
جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ذکر ہوا۔آپ نے
لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا کہ اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے
کیا جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے تو نابینا کھڑا ہوا، لوگوں
کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا،حتیٰ کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ہوں اسے
مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا
تھا وہ نہ رکتی تھی ، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے
دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی،لیکن آج رات
جب اس نے آپکو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا
اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا کہ لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ (بے سزا) ہے۔
(۲)
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ
النَّبِيَّ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا
رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلیى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ دَمَهَا (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
ترجمہ: حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور برا کہتی تھی تو ایک شخص نے اس کا
گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اسکے خون کو ناقابل سزا قرار دے دیا۔
پہلا حدیث تو ایک مملوکہ باندی کا تھا اور دوسرا حدیث غیر مملوکہ غیر مسلم
کا ہے، مگر غیرت ایمانی نے کسی قسم کا خیال کئے بغیر جوش ایمانی میں جو
کرنا تھا کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسکا بدلہ باطل قرار
دیا ۔
دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے
مباح الدم بن جاتا ہے اور اگر کوئی اس گستاخ کو انفرادی طور پر قتل کرے تو
قاتل کیلئے کوئی سزا نہیں ہے۔ بلکہ اس گستاخ کا قاتل ہر قسم کے جرم و سزا
سے آزاد ہوگا۔نیز حق کا علمبردار بن کر ثواب عظیم کا مستحق بن جاتا ہے۔
گستاخ رسول کے قتل حکومت کے ذمہ ہے۔ اور عام آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں
نہ لے ،لیکن اگر کسی نے قانون ہاتھ میں لے کر اس گستاخ کو قتل کیا تو اس
قاتل پر کوئی قصاص یا تاوان نہیں ہوگا کیونکہ مرتد مباح الدم ہوتا ہے اور
جائز القتل ہوتا ہے۔ عام آدمی اگر اسکو قتل کردے تو یہ آدمی مجرم نہیں
ہوگا۔
گستاخ رسول کا توبہ کرنا اور معافی طلب کرنا۔٭٭٭۔۔
مرتد اور گستاخ رسول کے توبہ کے بارے میں اکثر علماء کا مسلک یہ ہے کہ صرف
مرتد کی توبہ کو قبول کیا جاسکتا ہے ، لیکن وہ مرتد جس نے اہانت رسول کی ہے
تو اسکی توبہ قطعاً قبول نہیں ۔ کیونکہ رسالت انبیاء کا حق ہے ، اور اپنے
حق کی معافی کا اختیار بھی صرف ان انبیاء کے پاس تھا۔ انکے وفات کے بعد کسی
کو یہ حق حصلی نہیں کہ انبیاء کی توہین کرکے انکی عزت مجروح کرنے والے کی
توبہ قبول کرلے۔
بعض علماء نے توبہ کے بعد اسکے سزائے موت کو ٹالنے کا فیصلیہ صادر کیا ہے۔
لیکن اس شرط پر کہ وہ توبہ حقیقی توبہ ہو اور یہ مرتد دل سے توبہ
کرے۔کیونکہ جرم اسکا بہت بڑا ہے لھذا توبہ بھی اسی درجہ کی ہونی چاہیے۔
چونکہ قرانی ایات اور احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ شخص اسلام سے
نکل کر مرتد ہو اہے ،لھذا یہ آدمی پہلے اسلام کی تجدید کرے،اور علماء اور
عوام کے مجمع میں باقاعدہ اپنے اسلام کی تجدید کرے۔ اور جس قدر اعلان اس کی
گستاخی کا ہوا ہے ، اسی قدر اعلان اپنے تجدید اسلام اور توبہ کا کرے۔
توبہ نام ہے تین چیزوں کی ۔۔۔
(۱) گذشتہ گناہ پر انتہائی شرمندگی:۔
یعنی جو گناہ اس کیا ہے اور جو گستاخی اس نے کی ہے، اس سے رجوع اور توبہ کا
کھلے عام اعلان کرے۔
نیز جن جن علاقوں تک اسکی گستاخی کی خبر پہنچی ہے تو وہاں تک یہ اپنے توبہ
کی خبر بھی پہنچادے۔ اور کھلے عام رسائل ،اخبارات اور میڈیا کے سامنے اپنے
گناہ سے توبہ کرے۔ اور اپنے اس گناہ پر شدید شرمندگی اور ندامت ظاہر
کرے۔نیز لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اقرار کرے۔ اور جو گستاخی اس نے کی ہے
، اسکو بے دلیل اور بے ثبوت قرار دے کر لوگوں کے سامنے اسکا اقرار کردے۔
(۲)نہایت عاجزی اور گریہ و زاری سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اور اپنے
فعل پر حقیقی پیشمانی ظاہر کرئے۔
(۳) آئندہ کیلئے ان گناہوں کے نہ کرنے کا پختہ عہد کرے۔بلکہ اپنے اس گناہ
کی تلافی کیلئے ان انبیاء مبارکہ کے محاسن ، بزرگی اور اعلیٰ مراتب کو اسی
عام ترین اعلان اور تقریر وتحریر کے ذریعے کرتے رہا کرے اور گذشتہ کی
غلطیاں طشت ازبام کرے۔تو توبہ کی تکمیل ہوجاے۔
چند اعتراضات اور انکے جوابات٭٭٭۔۔
(۱) اعتراض:
قرآن مجید میں پیغمبروں کے ساتھ استہزاء کا جرم کا ذکر بار بار آیا ہے لیکن
مجرم کیلئے سزائے موت کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
جواب: صلی گفتگو اسلامی شریعت کے دائرے میں ہورہی ہے۔ اور احادیث کے نصوص
سے قتل کی سزا ثابت ہے۔اور اگر صرف احادیث سے قتل کی سزا ثابت ہے تو کیا
منکرین حدیث کی طرح سے احادیث کا انکار کیا جائے گا۔ شراب نوشی کے حد کے
بارے میں قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے ، تو
اعتراض کرنے والے اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
(۲) اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم دعوت و تبلیغ کیلئے طائف
گئے تھے اور وہاں کے لوگوں نے آپکو سخت تکلیف پہنچائی تھی لیکن اسکے باوجود
جب فرشتہ ملک الجبال آپ کے پاس آیا اور ان طائف والوں کی ہلاکت کی اجازت
مانگی تو نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے اسکی اجازت نہیں
دی۔
جواب:
یہ واقعہ مکی زندگی کے دوران ہوا اور یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ، اور اس
وقت تک شاتم رسول کے لئے سزائے موت کا حکم نہیں ملا تھا۔
نیز اس وقت تک شریعت محمدی نافذ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا طائف والوں کو عذاب
نہیں ملا۔ظاہر ہے اکثر احکامات ہجرت کے بعد لاگو ہوئے ہیں۔اور چونکہ انہوں
نے نبی کی عزت کو مجروح کیا تھا، لھذا نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و
صحبہ و سلم نے ان لوگوں سے حکمت کی بناء پر بدلہ لینا گورا نہیں کیا۔
(۳)
اعتراض:
سہل بن عمرو، عکرمہ بن ابوجھل اور ابی بن کعب نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و
علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخیاں کی تھی لیکن انکو کچھ نہیں کہا
گیا۔ بلکہ ابی بن کعب کا جنازہ بھی حضور نے بذات خود پڑھایا، تو انکو کیوں
قتل نہیں کیا گیا؟
جواب:
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ایک مشہور قاعدہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ
ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردیا۔ اب قاتل کیلئے
سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا
جائے گا۔ لیکن اگر مقتول کے وارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف
کردے ،اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا
جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس
نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے
سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔
بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ
سزائے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس
گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزائے موت نہیں ہوگی۔
اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا
ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے
علاوہ کسی کو بھی یہ حق حصلی نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف
کردے۔
ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف
نبی کو حصلی ہوگا۔
اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ
و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور
تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزائے موت دی جائے گی۔
اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلیہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی
سزائے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
نیز نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور
صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے
قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزائے موت کو نبی صلی اللہ
علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھا اور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن
ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔
رہا یہ سوال کہ ابی بن کعب کا جنازہ نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و
سلم نے خود پڑھایا تھا تو یہ بات درست ہے اور ابی بن کعب کی منافقت کا علم
نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو بھی ہوا تھا۔لیکن ابی بن کعب
ایک قبیلہ کا سردار تھا اور مدینہ میں اگر نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و
صحبہ و سلم تشریف نہ لاتے تو اسکی سرداری یقینی تھی۔لیکن نبی پاک صلی اللہ
علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی تشریف آوری سے اسکو سرداری نہ مل سکی، اور
حضور صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کسی
طرح ابی بن کعب سچے دل سے مسلمان ہوجائے، اور منافقت کی چادر اتار پھینکے۔
اور اسکی گستاخیوں کو بھی صرف اسلئے معاف کیا کہ معافی کا اختیار نبی صلی
اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو حصلی تھا۔
نیز حضور صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم امت پر مہربان تھے اور
چاہتے تھے کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ،لھذا اسی لئے نبی پاک صلی
اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ابی بن کعب کا جنازہ پڑھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ
و سلم کو منافقین کے جنازے پڑھنے سے منع کردیا۔اور یہ حکم نازل ہوا کہ نہ
تو ان منافقین کیلئے مغفرت کی دعاء کی جائے اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھا
جائے۔اور یہ حکم آج تک قائم ودائم ہے۔
(۴)اعتراض:
نبی صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تو امت کیلئے رحمت عالم بنا کر
بھیجے گئے تھے ۔نا کہ قاتل عالم۔لھذا گستاخ رسول کی سزاے موت درست نہیں ہے۔
جواب:
یہ درست ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس دنیا
کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے۔لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجرموں
کو کچھ نہ کہا جائے اور ان کو کھلے عام چھوڑدیا جائے۔ مجرموں کو پکڑ کر
انکو انکے جرم کے مطابق سزا دینا ہی عین رحمت اور انصاف ہے۔ورنہ تو قاتل
اور چور قتل اور چوریاں کرتے ،اور قانون انکو کچھ نہ کہتی ، تو یہ تو انصاف
نہیں بلکہ مجرموں کو اپنے کئے کی سزا دینا ہی رحمت اور انصاف ہے ۔ اور اسی
لئے نبی کو رحمت عالم بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ قرآن مجید میں ہے کہ
(ولکم فی القصاص حیاۃ ) ترجمہ:۔۔ اورتمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔
تو قصاص کو حیات اسلئے کہا گیا کہ اس سے کشت وخون کی بدامنی سے انسانیت کو
نجات ملتی ہے۔شاتم رسول پیغمبر کے کردار کی قتل کی کوشش کرتا ہے ، اور اس
گستاخ کا قتل ہی پیغمبرکے کردار کے قتل کا بدلہ ہے۔
آج اگر ایک ملک کی سفیر کی بے حرمتی ہوتی ہے تو پورے ملک کی بے حرمتی سمجھی
جاتی ہے۔ تو انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کے سفیر
کی بے حرمتی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے اور عذاب سے پورا علاقہ تباہ ہوتا
ہے ، تو پورے علاقے کی تباہی کے بجائے کیوں نہ اس گستاخ کو ہی صفحہ ہستی سے
مٹا دیا جائے۔
www.darvesh.blog.com
[email protected]
وما توفیقی الاباللہ علیہ توکلت والیہ انیب |