اسلام میں بعض مہینوں اور بعض دنوں کو دوسرے بعض پرفضیلت
وفوقیت تو حاصل ہے اور برتری کا تصور بھی موجود ہے، لیکن کسی مہینے یا دن
کے منحوس ہونے یا اس میں آفات وبلائیں نازل ہونے کاخیال ہر گز نہیں
پایاجاتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیماری کا ایک دوسرے سے لگنا، بدشگونی، ہامہ اور
ماہ صفر (کی نحوست) یہ سب چیزیں بے حقیقت ہیں۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
اللہ تعالی نے سال میں بارہ مہینے مقر ر کیے ہیں جن میں سے چار حرمت والے
ہیں ۔ہمارے ہاں ہر مہینے میں کوئی نہ کوئی بدعات ایجاد کرلی گئ ہیں جو ہر
گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے سال کے پہلے مہینے کے بعد صفر کا مہینہ
آتا ہے جس کو منحوس سمجھا جاتا ہے-
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ھے ”یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی
منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا
جاتا ہے،زمانہٴ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور
ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی
نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ
پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی
فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:
(اللہ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ
جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے
کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں.
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات
کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، ایسے نظریات و عقائد کو سرکارِدو عالم صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے پاوٴں تلے روند چکے ہیں
اس مہینے کے بارے میں طرح طرح کے خیالات پاَئے جاتے ہیں لوگوں کے ذہن میں
،نبیّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا فانی میں تشریف لائے تو دنیا
جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔اور کئی طرح کے توہمات اور وساوس میں
مبتلا تھی۔زمانہ جاہلیت کے باطل خیالات اور رسومات میں سے ایک صفر بھی تھی
اور صفرکے متعلق ان کا گمان تھا کہ ہر انسان کے پیٹ میں ایک سانپ ہوتا
ہے،جب پیٹ خالی ہوتواور بھوک لگی ہو تو وہ سانپ کاٹتا ہے اور تکلیف پہنچاتا
ہے،اسکے علاوہ کئی لوگ صفر کے مہینے کے بارے میں بد فال لیتے تھےکہ اس میں
بکثرت مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان توہمات
جاہلانہ کا رد فرمایا آپّ کا ارشاد گرامی ہے"لا عدوی ولاصفر ولامۃ"[بخاری )
اسلام نے واضح کیا کہ جیسے اعمال ہوں گے۔ویسے ہی نتائج نکلیں گے۔نیک اعمال
کے نتائج اور برے اعمال کے نتائج برآمد ہونگے۔کوئی لمحہ کوئی دن،کوئی وقت
ہمارے لیے منحوس نہیں ،ہماری بد اعمالیاں ہمارے لیے ضرور منحوس ثابت ہوتی
ہیں ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں کلمہ گو لوگوں میں بے شمار
توہمات اور بد شگونیاں پیدا ہو چکی ہیں،جو قومیں دین فطرت یعنی اسلام سے
اعراض کرتی ہیں وہی توہمات اور بد شگونیوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں پھر انہیں
ہر چیز میں ہر کام میں نحوست نظر آتی ہے۔یہ سب بدگمانیاں توہمات انسان کو
اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔اس کے برعکس اللہ کی ذات پہ پختہ یقین ایمان و
توکل انسان کو مضبوط بناتے ہیں مسلمان کو اس بات پہ پختہ یقین ہونا چاہیے
کہ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اس کے سوا کسی کے پاس یہ اختیار نہیں.
اللہ تعالی کا فرمان ہے"آپّ کہیے کہ میں تو اپنے نفع و نقصان کا مالک بھی
نہیں سوائے اس کے جو اللہ چاہے،اور اگر میرے پاس غیب کا علم ہوتا تو بہت
ساری بھلائیاں اکٹھی کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ،میں تو صرف
ڈرانے والا اور خو شخبری دینےوالا ہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کی عبادت کے
علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی نہ کہ ہمیں کرنے کا حکم دیا اور نہ کسی خاص بلا
سے بچنے کے لیے خبردار کیا توہمات اور شگون جو اس ماہ سے منسوب کیے جاتے
ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ،عربوں کے ہاں اس ماہ سے متعلق جو غلط تصورات
پائے جاتے تھے اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سےتین ماہ
ذوالقعد،ذوالحجہ۔ محرم،میں جنگ و جدل سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ
پابندی ختم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ
مار رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے،تو ان کے گھر خالی
رہ جاتے یوں عربی میں یہ محاورہ صفر المکان"[ گھر کا خالی ہونا] معروف ہو
گیا صفر اور صفر کے معنی ہے خالی ہونا،
اہل ایمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ نقصان ہونے کی صورت میں کسی سے بد
شگونی لے ،یا کسی کو منحوس قرار دے بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ اس بات پہ
پختہ یقین رکھے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اسکے حکم
کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا اس کے اذن کے بغیر کوئی نقصان نہیں دے سکتا
بعض لوگ ستاروں کے ذریعے سے فال نکالتے ہیں مثلا کسی کے بارے میں یہ کہتے
ہیں کہ تمہارا ستارہ گردش میں ہے اسلیے تم جو کاروبار اب شروع کروگے اس میں
خسارہ ہوگا ،اگر تم شادی کروگے تو اس میں برکت نہیں ہوگی۔
دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سال کی بارہ
مہہینوں میں سے چار کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حُرمت والے ہیں
یعنی اُن چار مہینوں میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہئیے ، اِس کے عِلاوہ
کِسی بھی اور ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اللہ تعالیٰ کی طرف
سے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے !!!! حیرانگی کی بات ہے
کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے
باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت
کے لیئے خاص کیا جاتا ہے اور کُچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ اُن
میں کوئی خوشی والا کام ، کاروبار کا آغاز ، رشتہ ، شادی بیاہ ، یا سفر
وغیرہ نہیں کرنا چاہیئے ،
ماہِ صفر ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اللہ اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس مہینے کی نہ کوئی فضلیت بیان
نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات جِس کی وجہ سے اِس مہینے میں کِسی
بھی حلال اور جائز کام کو کرنے سے رُکا جائے .
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
ترجمہ: جاہلیت کے کاموں میں سے چار کام میری امت میں ایسے ہونگے جنہیں وہ
چھوڑنے پر تیار نہیں ہونگے،حسب،کی بناء پہ فخر کرنا،کسی کے نسب میں طعنہ
زنی کرنا،ستاروں کے ذریعے قسمت کے احوال معلوم کرنا[یا ستاروں کے ذریعے
بارش طلب کرنا] اور نوحہ کرنا" [ مسلم:الجنائز باب التشدید فی النیاحۃ:
۹۳۴]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بد
شگونی لے یا جس کے لیے بد شگونی لی جائے۔یا جو [علم نجوم کے ذریعے] کہانت
کرے یا جس کے لیے کہانت کی جائے۔یا جو جادو کرے یا جس کے لیے جادو کا عمل
کیا جائے۔[السلسلۃ الصحیحۃ:۲۱۹۵]
اور آپّ کا ارشاد گرامی ہے:جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے
کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔
[مسلم:۲۲۳،صحیح الجامع للالبانی:۵۹۴۰]
کاہن کے پاس آپّ نے جانے کے بارے میں فرمایا: جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے
اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرئے تو اسنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پہ اتارے گئے دین الہی کا کفر کیا۔{ صحیح الجامع للالبانی:۵۹۳۹]
رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربی ﷺکو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م
شرکیہ اعتقادات،فاسد خیالات اورتوہمات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح
عقیدہ اوردرست منہج عطا کیا،اورآپ ﷺکے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ
اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وافکار اورتوہمات وخرافت
اورباطل پکڈنڈیوں سے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے،کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں
کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیں، اوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی
وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی، اورآپ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ:"
لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑےجا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی
سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے،ایک کتاب اللہ، دوسری میری سنت "۔
(موطا امام مالک: 2/899،حدیث نمبر 1594) اور دوسری جگہ فرمایا کہ " میں
تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند
ہیں،اس سے وہی شخص انحراف وروگردانی کریگا جسکی مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ
دی گئی ہو"۔ (صحیح ابن ماجہ: 41)
صحيح مسلم کی حديث ہے :” جس نے ہمارے دین کے معاملے میں نیا کام شروع کیا(
جو آپﷺ ،خلفاء اربعہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے ثابت
نہیں) تو وہ مردودہے۔ (صحيح مسلم : 5/132)
موسی ٰ علیہ السلام کی قوم “بنی اسرائیل” پر جب اللہ کی جانب سے انعام
واکرام کی بارش ہوتی تو کہتے یہ سب ہماری بدولت ہے،لیکن جب ان کو کوئی
مصیبت پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیرو کاروں کی نحوست قرار
دیتے
اللہ پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:خبردار! یہ نحوست
اللہ کی جانب سے ان کے برے اعمال کی بدولت ہے۔(مفہوم سورۃ الاعراف آیت :
131)
قومِ ثمود نے بھی یہی کہا : ” اے ثمود (علیہ السلام ) ہم تجھے اور تیرے
پیرو کاروں سے بد شگونی لیتے ہیں “(سورۃ النمل،آیت : 47)ان کے نظریہ کی بھی
اللہ پاک نے انہی الفاظ میں تردید کی ۔
عیسیٰ علیہ السلام نے اہلیان “انطاکیہ” کی طرف تبلیغ دین کے لیے اپنے نائب
بھیجے تو اہل انطاکیہ نے ان کی بات نہ مانی ، ان کوزدو کوب کیا اور یہ کہا
کہ ہم تم سے بد شگونی لیتےہیں یعنی تمہارا یہاں آنا ہمارے لیے نحوست وبے
برکتی کا باعث ہے ۔(مفہوم سورۃ یسین ،آیت : 18)
آپ کو کو ئی بھی راحت آسائش یا بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہے
اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے (اپنےاعمال) کی وجہ سے ہے”۔(سورۃ
النساء ، آیت : 79)
“اگرکسی بستی وعلاقہ کے باشندے ایمان لے آئیں اور اللہ سے ڈرنے لگیں تو ہم
ان پر زمین وآسمان سے رحمتوں کے خزانے کھولدیں گے “۔(سورۃ الاعراف ،آیت :
96)
“اے پیغمبر کہدیجیے ہمیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہ نے
ہماری تقدیرمیں ازل سے لکھدیا ہے ،وہی ہمارا حامی وناصر ہے ، اسی ذات پر
مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے”(سورۃ التوبۃ ، آیت : 51)
“جس نے نیک کام کیا تو اپنے فائدہ کے لیے کیا ،اور جس نے برائی کی تو اس کا
وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا”(سورۃ فصلت ،آیت
: 46)
“زمین اورسمندر میں فساد ظاہر ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے”(سورۃ
روم ،آیت : 41)
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ صفر کا مہینہ
منحوس نہیں نہ بھاری ہے یہ ہمارے اپنے کمزور عقائد ہیں جو اس طرح کی باتوں
میں پڑ کہ اپنے عقائد کو خراب کر رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو ان خرافات سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
|