باغپت کا واقعہ ارتداد ہمارے لیے عبرت کیوں نہیں؟

۲۰۱۴ کے بعد ہندوستان کی سیاست میں زبردست تبدیلی رونما ہوئی ہے، جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بہت بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نیست ونابود کرنے کی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے۔ چنانچہ کبھی شر آمیز بیانات سے مدارس اسلامیہ کی کردار کشی کی جارہی ہے تو کبھی ’’لو جہاد‘‘ اور ایک سے زیادہ شادی کے نام سے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوکر پرامن ماحول کو بگاڑا جارہا ہے۔ جہاں ایک طرف تین طلاق پر آرڈیننس لاکر مسلم خواتین کے ساتھ جھوٹی ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے، وہیں دوسری طرف جنسی تعلقات سے متعلق ہندوستانی قوانین کو غیر آئینی قرار دے کر میاں بیوی کے درمیان جھگڑے زیادہ کرانے کے لیے ہندستانی ثقافت کے خلاف زنا کو جرم کے زمرے سے باہر نکالا جارہا ہے۔

تازہ واقعہ باغپت کا ہے جہاں ایک ہی مسلم خاندان کے ۱۳ افراد کے ہندو مذہب کو اختیار کرنے کی خبر آئی ہے۔ ایک نوجوان گلزار کو پھانسی لگاکر قتل کردیا گیا تھاجس میں پولس نے قتل کیس کے بجائے خودکشی کا معاملہ درج کیا۔ پولس کے رویے اور مسلمانوں کی جانب سے کوئی مدد نہ ملنے سے تنگ آکر اختر علی کے اہل خانہ نے یہ قابل مذمت قدم اٹھایا۔ تبدیلی مذہب کی خبر کی اطلاع ملتے ہی بعض ہندو تنظیمیں اُن کے مذہب کو تبدیل کرانے کے لیے فعال ہو گئیں، حالانکہ اس سے قبل کوئی بھی اُن کی مدد کے لیے نہیں آرہا تھا۔ اگر واقعہ اس کے برعکس ہوتا کہ بعض ہندو لوگ اسلام مذہب کو قبول کرتے تو وہ جرم ہوجاتا۔ہمیں قوی امید ہے کہ جلدی ہی ان لوگوں کی گھر واپسی ہوگی جیسا کہ ۲۰۱۴ء میں آگرہ میں ایک فتنہ پرور تنظیم نے پیسوں اور دیگر مادی فوائد کا لالچ دے کر غریب مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ناپاک کوشش کی تھی۔ ان شاء اﷲ یہ حضرات بھی جلدی ہی اپنے حقیقی مالک ورازق وخالق سے تائب ہوکر اپنے مذہب اسلام میں واپس آئیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ان کو مذہب اسلام میں واپس کرے، ہم تمام مسلمانوں کو دشمنانِ اسلام کے ناپاک ارادوں سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔

اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب کی تبدیلی یعنی مرتد ہوجانا انسان کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے، یعنی اگر کوئی شخص اسی حالت میں انتقال کرجائے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ مرتد شخص ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ لہٰذا میں نے ضرورت محسوس کی کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس تباہ کن گناہ کا ذکر کروں تاکہ عام لوگ اس کے بڑے بڑے نقصانات سے واقف ہوسکیں۔ ساتھ میں چند ایسی تدابیر بھی ذکر کی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس تباہ کن گناہ سے خود بھی بچ سکتے ہیں اور اپنے بھائیوں کو بھی محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

اسلام میں غیر مسلموں کے لئے تبلیغ وترغیب تو ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جبراً کسی غیر مسلم کو مسلمان نہیں بنایا جاسکتا، یعنی مسلم ملک میں رہنے والا غیر مسلم بھی مکمل طور پر محفوظ ہے، اور اس کو مکمل اختیار ہے کہ وہ مذہب اسلام کو قبول کرے یا اپنے مذہب کے مطابق ہی زندگی گزارے۔ لیکن اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ مذہب اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ مذہب اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر دین اسلام سے پھرنے والا یعنی مرتد مذہب اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اﷲ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت بھی پڑھنا ہوگا، لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے باغی کو بھی کسی طرح کی رعایت نہیں دی جائے گی اور اسے اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیساکہ ابتداء اسلام سے آج تک تمام مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام نے قرآن وحدیث اور خلفاء راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔ ہندوستان جیسے غیر مسلم ملک میں اس حکم کی تنفیذ اگرچہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مسلمانوں کی طرف سے ہندوستان میں اس شرعی حکم کے نفاذ کی کوئی کوشش یا مطالبہ ہے، پھر بھی کم از کم ایک مسلمان کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ شوہر کے مرتد ہونے پر بیوی کا اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں، اس کے مسلمان والدین یا قریبی رشتہ دار کے انتقال پر اس کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور ارتداد کی حالت میں انتقال پر اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور نہ مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کیا جائے گا،وغیرہ وغیرہ۔
اس مصیبت سے بچنے کی چند تدابیر: اس تباہ کن گناہ سے بچنے اور اپنے بھائیوں کو بچانے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم جذبات پر قابو رکھتے ہوئے حکمت وبصیرت کے ساتھ مندرجہ ذیل چند تدابیر اختیار کریں تاکہ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ انشاء اﷲ یہ اعمال ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے لئے اس دشوار کن گھڑی میں انتہائی مفید ثابت ہوں گے۔ ۱) اﷲ کے گھر یعنی مساجد سے خصوصی تعلق رکھیں کیونکہ مساجد مسلمانوں کی نہ صرف تربیت گاہیں ہیں بلکہ مساجد مسلم معاشرہ کی عکاسی کرتی ہیں جیسا کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا: سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو۔ دنیا میں سب سے پہلا گھر بیت اﷲ ہے جو مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے جس کی طرف رخ کرکے ہم ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺنے مدینہ منورہ پہنچنے سے تھوڑا قبل قبا میں اور مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جو بعد میں مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہوئی، جو اسلام کے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے کا ذریعہ بنی۔ لہٰذا ہم خود بھی نمازوں کا اہتمام کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہماری مسجدیں آباد ہوں۔ اگر ہمارا تعلق مسجد سے جڑا ہوا ہے تو جہاں اﷲ جل شانہ سے قربت حاصل ہوگی وہیں ان شاء اﷲ دشمنان اسلام کی تمام کوششیں بھی رائیگاں ہوں گی۔ ۲) علماء کرام اور عوام کے درمیان رشتہ کو اور مضبوط بنانے کی کوشش کریں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے علمائے کرام کے متعلق یہ اعلان فرمایا ہے: اﷲ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ (سورۃ الفاطر:۲۸ ) آج عالمی سطح پر دشمنان اسلام کا مقصد ہے کہ اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مسلمانوں پر اپنی تہذیب تھوپ دیں۔ علماء کرام ان کے مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لہٰذا دشمنان اسلام علماء کرام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور علماء کرام اور عوام کے درمیان مضبوط رشتہ کو توڑنے کے لیے علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کی غلط امیج لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں جس میں وہ ان شاء اﷲ ناکام ونامراد ہوں گے کیونکہ علماء کرام نے بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔ ۳) موجودہ مکاتب ومدارس کی بقاء کے لئے ہرممکن کوشش کریں اور جن علاقوں یا دیہاتوں میں مکاتب ومدارس نہیں ہیں وہاں مکاتب ومدارس کے قیام کی فکر کریں۔ قرآن وحدیث کی حفاظت وخدمت میں مکاتب ومدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے ، برصغیر میں قرآن وحدیث کی مختلف طریقوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ خدمت انجام دینے میں انہیں مکاتب ومدارس کا رول ہے۔ ۴) اسکول وکالج میں زیر تعلیم بچوں کی دینی تعلیم کی فکر کریں کیونکہ آج جو طلبہ عصری درس گاہوں سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد دین سے بے بہرہ لوگوں کی ہوتی ہے اور ایک قابل لحاظ تعداد تو دین سے بیزار لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے زیر اہتمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کو صرف نام کے لیے نہ رکھا جائے کہ نہ اساتذہ اسے اہمیت دیں اور نہ طلبہ وطالبات، بلکہ شرعی ذمہ داری سمجھ کر ان کی دینی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی جائے۔ بچوں کے والدین اور سرپرستوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اسکولوں وکالجوں کا انتخاب ایمان وعقیدے کی حفاظت کی فکر کے ساتھ کریں۔ جب تک ہمارے بچے دینی تعلیم سے واقف نہیں ہوں گے ہم کس طرح ان کو دشمنان اسلام کی ناپاک سازشوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یقینا ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور ڈیزائنر بنائیں لیکن سب سے قبل ان کو مسلمان بنائیں۔ لہٰذا اسلام کے بنیادی ارکان کی ضروری معلومات کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی سیرت اور اسلامی تاریخ سے ان کو ضرور بالضرور روشناس کرائیں۔ ۵) حکمت وبصیرت کے ساتھ ایک دوسرے کو دین اسلام کی دعوت دیتے رہیں کیونکہ سلسلہ نبوت ختم ہوجانے کے بعد دعوت وتبلیغ کی عظیم ذمہ داری اس امت محمدیہ کے ہر ہر فرد پر اپنی استطاعت کے مطابق لازمی قرار دی گئی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام (سورۃ التوبۃ آیت ۷۱) میں ارشاد فرمایا ہے کہ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں، بری باتوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اﷲ واس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ عنقریب رحم فرمانے والا ہے۔ اس آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے مؤمن مرد اور مؤمن عورتوں کی چند صفات ذکر فرمائی ہیں جن میں سب سے پہلی صفت ذکر کی کہ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ ۶) مالدار اور ذی حیثیت حضرات اپنے تعاون کی رقم کا ایک قابل قدر حصہ مسلمانوں کے کمزور طبقہ کے لئے مختص کریں ۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف کرتے ہوئے اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے تاکہ انسان اﷲ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لئے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے یقینا جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے جیساکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاؤگے۔ (سورۃ آل عمران ۹۲) لہٰذا ہم اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی کے اہتمام ساتھ اپنے مال میں سے کچھ حصہ کمزورطبقہ کی فلاح وبہبود پر ضرور لگائیں۔ آج اگر ہم زکوٰۃ کی صحیح طریقہ سے ادائیگی کرنے والے بن جائیں تو امت مسلمہ کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے ان شا ء اﷲ۔

آخر میں مسلم تنظیموں اور اداروں سے درخواست ہے کہ ایسے لوگوں کی مدد میں آگے بڑھنا چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جاسکے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بر صغیر کے مسلمان وعلماء ومدارس کی حفاظت فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین۔

Najeeb Qasimi
About the Author: Najeeb Qasimi Read More Articles by Najeeb Qasimi: 188 Articles with 146056 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.