عالمی یوم کتاب کے موقع پر ایک سمینارکا انعقاد

۲۳ اپریل کوہر سال عالمی یوم کتاب منایا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں سینکڑوں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ہر سال کتابوں کے اس عالمی دن منانے کا تصور بنیادی طور پر اسپین کے علاقے کاتالونیہ سے آیا ہے۔ جہاں ایک زمانے میں لوگ عوامی ہیرو سینٹ جارج کی یاد میں منائے جانے والے دن کے موقع پر ایک دوسرے کو گلاب کے پھولوں کا تحفہ دیا کرتے تھے۔

۱۹۲۳ء سے کتابوں کی دنیا کے مالکان کی تحریک پر لوگ کتابیں بھی بطور تحفہ دینے لگے۔ اس طرح باسلونا میں ہر سال ۲۳ ۱پریل کے دن کو عوامی اور ثقافتی نوعیت کے ایک بڑے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو عالمی سطح پر یوم کتاب منانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عالمی سطح کے دو ادیبوں انگریز ڈرامہ نگار ولیئم شیکسپیئر اور ہسپانوی شاعر میگوئیل د سروانتس کا یوم وفات بھی ہے۔

جب ۱۹۹۵ء میں یونیسکو نے کاتالونیہ میں منائے جانے والے دن کو پوری دنیا میں کتاب اور کاپی رائٹ کے عالمی دن کی حیثیت سے منانے کا فیصلہ کیا تو بہت سے ممالک کی جانب سےاس فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔

۲۳ اپریل کو پاکستان میں کئی نجی، سرکاری اور تعلیمی اداروں میں عالمی یوم کتاب اور کاپی رائٹ کا دن منایا گیا۔ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس نے گذشتہ سالوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سیمی نار منعقد کیا۔ اس کا عنوان تھا "ڈسکورنگ ورلڈ تھرو ریڈنگ" جو ۲۳ اپریل ۲۰۱۸ء کو آرٹس آڈیٹوریم، جامعہ کراچی میں منعقد ہوا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر، سابق صدر شعبہ اسلامی تاریخ تھیں۔ جو "الایام"کی مدیرہ بھی ہیں۔

پروگرام کا آ غاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد نعت رسول مقبولﷺپیش کی گئی۔صدر شعبہ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس ڈاکٹر منیرہ نسرین انصاری نے مقررین اور مہمانوں کو خوش آمدید کہا اپنے افتتاحی خطبہ میں انھوں نے عالمی یوم کتاب اور کاپی رائٹ ڈے کے اہم عناصر پر روشنی ڈالی۔

انھوں نے شعبہ میں دن بدن ہونے والے اضافوں کا ذکر کیا اورکہا کہ یہ شعبہ بہت پہلے سے یہ دن مناتا چلا آرہا ہے۔ شعبہ میں سیمی نار، سمپوزیم، ورکشاپس اور واک کرنے کی روایت قدیم سے ہے۔ بعض اوقات مختلف اسکولوں کے طلبا و طالبات تشریف لاتے ہیں اور مطالعہ کتب اور مطالعاتی عادات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی عملہ، لائبریرینز اور طالب علم دور دراز کے علاقوں کے اسکولوں کا دورہ کرتے ہیں اس دورہ کا مقصد مطالعہ کے کلچر کا فروغ ہوتا ہے۔

ایک مقرر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی تھے جو مقرر، ٹی وی اینکر پرسن اور شاعر ہیں اپنے متاثر کن انداز میں انھوں نے اپنے خیالات، مطالعہ اور کتابی دنیا پر اظہار خیال کیا۔انھوں نے مطالعاتی تاریخ و تہذیب، کتابی تجارت اور کتابی دوکانوں کا کراچی میں ذکر کیا کہ اب یہ کتابی دوکانیں کسی اور مفید تجارتی مرکز کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے مطبوعہ کتب، برقی کتب اور میکانکی کتب کا بھی تذکرہ کیا انھوں نے کہا کہ مطبوعہ یا قلمی کتاب کے مطالعہ کا لطف برقی کتاب سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں مطالعہ کے ذوق و شوق کا ذکر کیا اور اپنے شخصی کتب خانہ میں نایاب کتب کی موجودگی ظاہر کی۔

پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے بھی ذوق مطالعہ کے سلسلے میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اپنے ذخیرہ کتب کی بعض اہم اور نایاب کتب کا تذکرہ کیا انھوں نے کہا کہ بزرگوں کی سنائی ہوئی کہانیوں نے انھیں خود پڑھنے کی طرف راغب کیا اور اس طرح انھوں نے اپنی تشنگی مٹائی۔ وہ بچپن میں ملنے والے جیب خرچ سے کتابیں خریدا کرتی تھیں۔

جناب ناصر نایاب، اسسٹنٹ لائبریرین، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری جامعہ کراچی نے اس موقع پر اپنی شاعری پیش کرکے سامعین سے بھرپور داد حاصل کی۔

محترمہ سائرہ سلیم جو خصوصی تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں انھوں نے بصارت سے محروم افراد اور محققین کے مسائل سے جو انھیں مطالعہ میں در پیش ہیں آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مقتدرہ شخصیات اور مختلف اداروں کو نابینا افراد کے مطالعہ کی ضرورت کا احساس کرنا چاہئیے اور ان کی دشواریوں کو مد نظر رکھ کر اقدامات کرنے چاہئیں۔

سیمی نار کا دوسرا سیشن جس کی صدارت ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے کی ۔ اس میں مذکورہ بالا موضوع پر سات مقالے پڑھے گئے۔ انھوں نے محققین کے بارے میں عمدہ اظہار خیال کیا اور ان کی کاوشوں کو انفرادی طور پر سراہا۔

سیمی نار میں پیشہ ور لائبریرینز نے بڑی تعداد میں شرکت کی جو شہر کے مختلف حصوں سے تشریف لائے اور دیگر ادبی شخصیات بھی شامل تھیں اس کے علاوہ محققین اور ماہر تعلیم بھی شامل تھے۔