حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دین کے
پھیلانے میں جس قدر تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کی ہیں ، ان کا برداشت کرنا
تو درکنار اس کا ارادہ کرنا بھی ہم جیسے نالائقوں سے دشوار ہے۔ تاریخ کی
کتابیں ان واقعات سے بھری ہوئی ہیں ، مگر ان پر عمل کرنا تو علیحدہ رہا ہم
ان تاریخی واقعات سے آگاہی حاصل کرنا بھی باعث تکلیف سمجھتے ہیں۔ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے جب طائف کا سفر شروع کیا اس میں کیا کیا مشکلات پیش
آئیں یہ امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آگاہی اور سوچنے کا مقام ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو نبوت مل جانے کے بعد نوبرس تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
مکہ مکرمہ میں تبلیغ فرماتے رہے اور قوم کی ہدایت اور اصلاح کی کوشش فرماتے
رہے لیکن تھوڑی سی جماعت کے سوا جو مسلمان ہو گئی تھی اور تھوڑے سے ایسے
لوگوں کے علاوہ جو باوجود مسلمان نہ ہونے کے آپ کی مدد کرتے تھے۔ اکثر کفار
مکہ آپ کو اور آپ کے صحابہؓ کو ہر طرح کی تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ مذاق اُڑاتے
تھے اور جو ہو سکتا تھا اس سے درگذرکرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
چچا ابوطالب بھی انہیں نیک دل لوگوں میں سے تھے جو باوجود مسلمان نہ ہونے
کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرقسم کی مدد فرماتے تھے۔ دسویں سال
میں جب ابوطالب کا بھی انتقال ہو گیا تو کافروں کو اور بھی ہر طرح کھلے
مہار اسلام سے روکنے اور مسلمانو ں کو تکلیف پہنچانے کا موقع ملا۔ حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے طائف تشریف لے گئے کہ وہاں قبیلہ تصیف
کی بڑی جماعت ہے ، اگر وہ قبیلہ مسلمان ہو جائے تو مسلمانوں کو ان تکلیفوں
سے نجات ملے اور دین کے پھیلنے کی بنیاد پڑ جائے۔ وہاں پہنچ کر قبیلہ کے
تین سرداران سے جو بڑے درجے کے سمجھے جاتے تھے گفتگو فرمائی اور اللہ کے
دین کی طرف بلایا اور اللہ کے رسول کی یعنی اپنی مدد کی طرف متوجہ کیا ۔
مگر ان لوگوں نے بجائے اس کے کہ دین کی بات کو قبول کرتے یا کم سے کم عرب
کی مشہور مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک نو وارد مہمان کی خاطر مدارت کرتے صاف
جواب دے دیا اور نہایت بے رخی اور بداخلاقی سے پیش آئے ۔ ان لوگوں نے یہ
بھی گوارا نہ کیا کہ آپ یہاں قیام فرما لیں جن لوگوں کو سردار سمجھ کر بات
کی تھی وہ شریف ہوں گے اور مہذب گفتگو کریں گے ان میں سے ایک شخص بولا کہ
آپ ہی کو اللہ نے نبی بنا کر بھیجا ہے ، دوسرا بولا کہ اللہ کو تمہارے
سواکوئی اور ملتا ہی نہیں تھا جس کو رسول بنا کر بھیجتے ، تیسرے نے کہ کہ
میں تجھ سے بات کرنا نہیں چاہتا ، اس لئے کہ اگر تو واقعی نبی ہے جیسا کہ
دعویٰ ہے تو تیری بات سے انکار کر دینا مصیبت سے خالی نہیں ، اور اگر جھوٹ
ہے تو میں ایسے شخص سے بات کرنا نہیں چاہتا ، اس کے بعد لوگوں سے ناامید ہو
کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ فرمایا
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمت اور استقلال کے پہاڑ تھے مگر کسی نے بھی
قبول نہ کیا بلکہ بجائے قبول کرنے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ
ہمارے شہر سے فوراً نکل جاؤ اور جہاں تمہاری چاہت کی جگہ ہو وہاں چلے جاؤ ،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان سے بالکل مایوس ہو کر واپس ہونے لگے تو ان
لوگوں نے شہر کے لڑکوں کو پیچھے لگا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق
اُڑائیں ، تالیاں پیٹیں ، پتھر ماریں ، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
دونوں جوتے خون کے جاری ہونے سے رنگین ہو گئے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم اسی حالت میں واپس ہوئے جب راستہ میں ایک جگہ ان شریروں سے اطمینان
ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی۔ ’’اے اللہ تجھی سے شکایت
کرتاہوں میں اپنی کمزوری اور سبکسی کی اور لوگوں میں ذلت اور رسوائی کی ۔
اے ارحم الراحمین تو ہی ضعفاء کا رب ہے اور توہی میرا پروردگار ہے تو مجھے
کس کیے حوال کرتا ہے کسی اجنبی بیگانہ کے جو مجھے دیکھ کرترش روہوتا ہے اور
منہ چڑھاتا ہے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر قابو دے دیا ۔ اے اللہ
اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں ۔ تیری حفاظت
مجھے کافی ہے میں تیرے چہرہ کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن
ہو گئیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے سارے کام درست ہو جاتے ہیں اس بات سے
پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غصہ ہو یا تو مجھ سے ناراض ہو تیری ناراضگی
کا اس وقت تک دور کرنا ضروری ہے جب تک تو راضی نہ ہو ، نہ تیرے سوا کوئی
طاقت ہے نہ قوت‘‘۔ مالک الملک کی شان قہاری کو اس پر جوش آنا ہی تھا کہ
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آکر سلام کیا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ
کی قوم کی وہ گفتگو جو آپ سے ہوئی سنی اور ان کے جوابات سُنے اور ایک فرشتہ
کو جس کے متعلق پہاڑوں کی خدمت ہے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں اس کو
حکم دیں ، اس کے بعد اس فرشتہ نے سلام پیش کیا اور عرض کیا جوارشاد ہو میں
اس کی تعمیل کروں اگر ارشاد ہو تو دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملادوں جس سے یہ
سب درمیان میں کچل جائیں یا اور جو سزا آپ تجویز فرمائیں ، حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی رحیم و کریم ذات ن ے جواب دیا کہ میں اللہ سے اس کی امید
رکھتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان نہیں ہوئے تو ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہو
ں جو اللہ کی پرستش کریں اور اس کی عبادت کریں۔ یہ ہیں اخلاق اس کریم ذات
کے جس کے ہم لوگ نام لیوا ہیں کہ ہم ذرا سی تکلیف سے کسی کی معمولی سے گالی
دینے سے ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ پھر عمر بھر اس کا بدلہ نہیں اترتا ظلم پر
ظلم اس پر کرتے رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں اپنے محمدی ہونے کا نبی کے
پیرو کار بننے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی سخت تکلیف اور مشقت
اٹھانے کے باوجود نہ بدعا فرماتے ہیں نہ کوئی بدلہ لیتے ہیں، یہ تو نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ کی ایک جھلک ہے، اب ایک نظر ان
کا ہاتھ تھام کر زندگی گزارنے والے ، ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے چند
صحابہ کرامؓ کا ذکر کرتا ہوں۔حضر انسؓ بن نضر ایک صحابی تھے جو بد ر کی
لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے تھے ، ان کو اس چیز کا صدمہ تھا اس پر اپنے نفس
کو ملامت کرتے تھے کہ اسلام کی پہلی عظیم الشان لڑائی اور توا س میں شریک
نہ ہو سکا۔ اس کی تمنا تھی کہ کوئی دوسری لڑائی ہو تو حوصلے پورے کروں ۔
اتفاق سے احد کی لڑائی پیش آگئی جس میں یہ بڑی بہادری اور دلیری سے شریک
ہوئے ، اُحد کی لڑائی میں اول اول تو مسلمانوں کو فتح ہوئی مگر آخر میں ایک
غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ وہ غلطی یہ تھی کہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے کچھ آدمیوں کو ایک خاص جگہ مقرر فرمایا تھا کہ تم لوگ اتنے
میں نہ کہوں اس جگہ سے نہ ہٹنا کہ وہاں سے دشمن کے حملہ کرنے کا اندیشہ تھا۔
جب مسلمانوں کو شروع میں فتح ہوئی تو کافروں کو بھاگتا ہوا دیکھ کر یہ لوگ
بھی اپنی جگہ سے یہ سمجھ کر ہٹ گئے کہ اب جنگ ختم ہو چکی اس لئے بھاگتے
ہوئے کافروں کا پیچھا کیا جائے اور غنیمت کا مال حاصل کیا جائے اس جماعت کے
سردار نے منع بھی کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت تھی تم یہاں سے
نہ ہٹو۔مگرا ن لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
صرف لڑائی کے وقت کے واسطے تھا ۔ وہاں سے ہٹ کر میدان میں پہنچ گئے ،
بھاگتے ہوئے کافروں نے اس جگہ کو خالی دیکھ کراس طرف سے آکر حملہ کر دیا
مسلمان بے فکر تھے اس اچانک بے خبری کے حملہ سے مغلوب ہو گئے اور دونوں طرف
سے کافروں کے بیچ میں آگئے جس کی وجہ سے ادھر اُدھر پریشان بھاگ رہے تھے ۔
حضرت انسؓ نے دیکھا کہ سامنے سے ایک دوسرے صحابی حضرت سعدؓ بن مُعاذ آرہے
ہیں ، یہ کہ تلوار تو ہاتھ میں تھی ہی کافروں کے ہجوم میں گھس گئے اور اتنے
شہید نہیں ہو گئے واپس نہیں ہوئے ، شہادت کے بعد ان کے بدن کو دیکھا گیا تو
چھلنی ہو گیا تھا ۔ اسّی سے زیادہ زخم تیر اور تلوار کے بدن پر تھے ۔ ان کی
بہن نے انگلیوں کے پوروں سے ان کو پہنچانا۔جو لوگ اخلاص اور سچی طلب کے
ساتھ اللہ کے کام میں لگ جاتے ہیں ان کو دنیا ہی میں جنت کا مزہ آنے لگتا
ہے ۔ یہ حضرت انسؓ زندگی میں ہی جنت کی خوشبو سونگھ رہے تھے اگر اخلاص آدمی
میں ہو جاوے تو دنیا میں بھی جنت کا مزہ آنے لگتا ہے، میں نے ایک معتبر شخص
سے جو حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری رحمتہ اللہ علیہ کے
مخلص خادم ہیں حضرت کا مقولہ سُنا ہے کہ ’’جنت کا مزہ آرہا ہے ‘‘۔ اس کا
فضائل رمضان میں ہو چکا ہے۔ حضرت بلال حبشیؓ مشہور صحابی ہیں جو مسجد نبوی
کے ہمیشہ موذن رہے شروع میں ایک کافر کے غلام تھے ۔ اسلام لے آئے جس کی وجہ
سے طرح طرح کی تکلیفیں دیئے جاتے تھے ، اُمیہ بن خلف جو مسلمانوں کا سخت
دشمن تھا ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا کر
ان کے سینہ پر پتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور
کہتا تھا کہ یااس حال میں مرجائیں اور زندگی کی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں
مگر وہ اس حالت میں بھی اَحد اَحد کہتے تھے ،یعنی معبود ایک ہی ہے رات کو
زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر
ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہو کر اسلام سے پھر جاویں یا
تڑپ تڑپ کر مرجائیں ۔ عذاب دینے والے والے اُکتا جاتے ، کبھی ابوجہل کا
نمبر�آتا کبھی اُمیہ بن خلف کا ، کبھی اوروں کا ، اور ہر شخص اس کی کوشش
کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس حالت میں
دیکھا تو اُن کو خرید کر آزاد فرمایا۔ چونکہ عرب کے بُت پرست اپنے بتوں کو
بھی معبود کہتے تھے اس لئے ان کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی
جس کی وجہ سے حضرت بلالؓ کی زبان پر ایک ہی ایک کا ورد تھا ، یہ تعلق اور
عشق کی بات ہے ہم جھوٹی محبتوں میں دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہو جاتی ہے اس
کا نام لینے میں لطف آتاہے ، بے فائدہ اس کو رٹا جاتا ہے تو اللہ کی محبت
کا کیا کہنا جو دین و دنیا میں دونوں جگہ کام آنے والی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
حضرت بلالؓ کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا۔ سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی
تھیں ، مکہ کے حوالہ کر دیا جاتا کہ وہ ان کو گلی کوچوں میں چکر دیتے پھریں،
اور یہ تھے کہ ایک ہی ایک ہے کی رٹ لگا تے تھے ۔ اسی کا یہ صلہ ملا کہ پھر
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں موذن بنے اور سفر خضر میں ہمیشہ
اذان کی خدمت اُن کے سپر د ہوئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد
مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کو خالی دیکھنا
مشکل ہو گیا اس لئے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے باقی دن ہے جہاد میں گذاروں
اور اس لئے جہاد میں شرکت کی نیت سے چل دئیے۔ ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ
کر نہیں آئے۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال یہ کیا ظلم ہے ہمارے پاس کبھی نہیں
آتے تو آنکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہوئے ، حضرت حسن حسین نے اذان کی
فرمائش کی ۔ لاڈلوں کی فرمائش ایسی نہیں تھی کہ انکار کی گنجائش ہوتی، اذان
کہنا شروع کی اور مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اذان
کانوں میں پڑ کر کہرام مچ گیا ،عورتیں تک روتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں ۔ چند
روز قیام کے بعد واپس ہوئے اور ۲۰ ھ کے قریب دمشق میں وصال ہوا (اسد
الغابہ)۔ حضر ت عمارؓ اور ان کے ماں باپ کو بھی سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی
گئیں ، مکہ کی سخت گرم اور ریتلی زمین میں ان کو عذاب دیا جاتا اور حضور
اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرف گزر ہوتا تو صبر کی تلقین فرماتے اور
جنت کی بشارت فرماتے۔ آخر ان کے والد حضرت یاسرؓ اسی حالت تکلیف میں وفات
پاگئے کہ ظالموں نے مرنے تک چین نہ لینے دیا اور ان کی والدہ حضرت سُمیہؓ
کی شرمگاہ میں ابوجہل ملعون نے ایک برچھا مارا جس سے وہ شہید ہو گئیں مگر
اسلام سے نہ ہٹیں حالانکہ بوڑھی تھیں ، ضعیف تھیں مگر اس بد نصیب نے کسی
چیز کا بھی خیال نہیں کیا۔ اسلام میں سب سے پہلی شہادت ان کی ہے اور اسلام
میں سب سے پہلی مسجد حضرت عمارؓ کی بنائی ہوئی ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ
وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف رکھا کریں ، دوپہر کو آرام فرما لیا کریں
اور نماز بھی سایہ میں پڑھ سکیں تو قُبا میں حضرت عمارؓ نے اول پتھر جمع
کئے اور پھر مسجد بنائی ، لڑائی میں نہایت جوش سے شریک ہوتے تھے ، ایک
مرتبہ مزے میں آکر کہنے لگے کہ اب جاکر دوستوں سے ملیں گے محمد حضور صلی
اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت سے ملیں گے۔ اتنے میں پیاس لگی اور پانی
کسی سے مانگا۔ اس نے دودھ سامنے کیا ۔ اُس کو پیا اور پی کر کہنے لگے کہ
میں نے حضورحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تو دنیا میں سب سے آخری چیز
دودھ پیئے گا اس کے بعد شہید ہو گئے اس وقت چورانوے برس کی عمر تھی۔ بعض نے
ایک آدھ سال کم بتلائی ہے (اسد الغابتہ)۔میرے محترم مسلمان بھائیو! یہ تو
چند ایک قصے ہیں جو میں نے آپ کی نظر کئے ہیں ان کے علاوہ تاریخ اسلامیہ ،
صلح حدیبیہ ، ابو جندلؓ ، ابو بصیرؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ ، حضرت خبابؓ ،
حضرت صہیبؓ کی زندگی کے مشہور واقعات موجود ہیں جن میں ان کی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی محبت تکلیفیں برداشت کرتے ہوئے اس دنیا ئے فانی سے رخصت
ہو گئے۔ یہ طریقہ اسلامیہ میرے اور آپ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ، کہ جو
لوگ اخلاص اور سچی طلب کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے کام میں لگ جاتے ہیں ان کو دنیا ہی میں جنت کے مزے آنے لگتے ہیں
اور وہ دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہو جاتے ہیں۔ اللہ سے امید ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آمین |