چند ہفتوں کی بات ہے کہ ایک مقامی اخبار میں
خبرشائع ہوئی کہ قاضی محمد سرورؒ پر لکھی گئی کتاب ’’مرجع خلائق‘‘ کی
رونمائی ہو گی۔ خبر میں جگہ نہیں لکھی تھا۔ خیر میں نے سوچا کہ کتابوں کی
رونمائی اکثر راولپنڈی آرٹس کونسل میں ہی ہوتی ہے اور کیونکہ چند ماہ پہلے
میرے ایک دوست راجہ جاوید صاحب سابق ماہر تعلیم کی کتاب کی رونمائی بھی اس
آرٹس کونسل میں ہوئی تھی، جس میں بھی شریک ہوا تھا۔ میں نے کریم ٹیکسی
منگوائی اور سیدھا آرٹس کونسل پہنچ گیا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا آج جہاں کسی
بھی کتاب کی رونمائی کا پروگرام طے نہیں۔ البتہ کچھ دیر بعد بھارت کی جیل
میں طویل عرصہ قید رہنے والے مشہور معروف پاکستان فوج کے ایک سپاہی کی
بہادری پر ڈرامہ پیش ہونے والا ہے۔ میں نے اپنے دوست راجہ جاوید صاحب کو
فون کیا اور معلوم کیا کہ مرجع خلائق کی رونمائی کہاں ہورہی ہے میں تواس
پرگروام میں شرکت کے لئے جہاں آرٹس کونسل پہنچ گیا ہوں۔ مگر جہاں تو کچھ
دیر بعدایک ڈرامہ اسٹیج ہونے والا ہے۔کسی کتاب کی رونمائی کا پروگرام یہاں
نہیں تو کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اس کی رونمائی تو پریس کلب راولپنڈی
میں ہونے والی ہے۔میں حسب عادت نئی کتاب کی تلاش میں پریس کلب راولپنڈی
پہنچ گیا۔پریس کلب میں جماعت اسلامی کی مقامی قیادت اور چترال سے قومی
اسمبلی کی سیٹ پر کامیاب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی سمیت، اولپنڈی کے
شہریوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور راولپنڈی پریس کا ہال کچا کچ بھرا ہوا
ہے۔ کچھ لوگ پیچھے بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ حاضری دیکھ کر مجھے اطمینان ہو ا ۔جو
اِدھر اُدھر کی تلاش میں جو تھکاوٹ ہوئی تھی وہ دُور ہو گئی۔
مرجع خلائق کتاب پر زور دار تبصرے، قاضی محمد سرور ؒ کی دینی اور سماجی
خدمات پر تقریریں سن کر میں حیران ہوا۔ کیونکہ عموماً مساجد کے امام حضرات
مساجد میں پانچ وقت نمازپڑھانے اور بچوں کو قرآن شریف پڑھانے کے علاوہ
سماجی کا موں میں کم ہی ملوث ہوتے ہیں۔ اے کاش! کہ ہماری مساجد کے امام
حضرات ان اہم کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے نمازیوں اور محلے کے غریب شہریوں کی
فلاح و بہبود کے لیے بھی خدمات پیش کریں۔رسولؐاﷲ کے دور میں مساجدمسلمانوں
کی خدمات میں پیش پیش ہوتیں تھیں۔ جب ہم قاضی محمد سرور ؒ کوجماعت اسلامی
کا مثالی کار کن ، مرجع خلائق کے ساتھ ساتھ کئی مساجد ، کراچی میں جامع
مسجد طیبہ، میں دس سال خطابت کے فرائض ادا کیے، اپنے گاؤں کوٹھیرہ، پنڈی
گھیب روڈ پر واقع گاؤں کلی جاگیر میں امات کی اور کچی مسجد کو مکمل کرانا ،
پھر رولپنڈی میں مسجد مائی جان اور مسجد سردار خان میں امام کی خدمات کے
ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں مصروف دیکھتے ہیں، تو اُن کے لیے بے ساختہ دل سے
دُعا نکلتی ہے، کہ اﷲ تعالیٰ اس مردِ مرجع خلائق قاضی محمد سرورؒ کو کروٹ
کروٹ سکون نصیب عطا فرمائے۔ کہ جس نے زندگی بھر ضرورت مندوں، مشکل میں
پھنسے ہوئے غریب لوگوں کی مشکلات دُور کرنے میں اپنی جان کھپائی۔
مرجع خلائق کتاب کا پیش لفظ لکھے والے پندرہ روزہ جہاد کشمیر کے مدیر، دانش
، ادیب اور کالم نگار ،عبدالہادی احمد صاحب لکھتے ہیں کہ’’ سفید رومال ،سر
اور منہ پر لپیٹے رہتے یہ ان کی فطری، عجز و انکسار کا اظہار تھا۔مگر میدان
عمل میں ہمیشہ سب سے آگے رہتے تھے۔ دعوت،خدمت خلق، یتیموں، مساکین کی
ضرورتوں کو پورا کرنا ان کا وظیفہ تھا۔مظلوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے
نگی تلوار بن جاتے تھے۔سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب، کتاب کے
مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں ۔ اﷲ تبارک تعالیٰ کی عجیب سنت ہے کہ ہر دور میں
ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کی حجت
ہوتی ہے کہ جن بُرے حالات کا لوگ گلہ کرتے ہیں،مایسویوں،محرومیوں اورکچھ نہ
کر سکنے کے درمیان اپنے آپ کو ششدر اورحیران پاتے ہیں۔ تو اﷲ کہتا کہ دیکھو
میرا فلاں بندہ تو بلکل ٹھیک ٹھاک کام کر رہا ہے۔حالات تو اس کے بھی آپ
لوگوں جیسے ہیں۔ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں۔قاضی محمد سرورؒ ایسے
ہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب’’ پیہم رواں ہر
دم جواں‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔ قاضی محمد سرورؒ راولپنڈی شہر کے مخلص،
فعال ،متحرک، بے باک اور جی دار ساتھی تھے۔اپنی کالونی کے ہر فرد کے ساتھ
ان کا رابطہ تھا۔ وہ ایک روشن مثال تھے۔حافظ محمد ادریس صاحب، نائب امیر
جماعت اسلامی ’’کامیاب داعی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ۔ قاضی محمد سرورؒ سے
تعلق تیس برسوں پر محیط ہے۔وہ محض ایک عالم،خطیب ہی نہیں، حقیقی معنوں داعی
حق، درد دِل سے مالامال شخصیت اور قافلہ حق کے بہترین عدی خوان تھے۔سابق
صدر الخدمت فاؤڈیشن پاکستان جناب پروفیسر ڈاکٹر حفیظ الرحمان’’ پیارے
مولانا‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں۔میں نے پچیس سالہ رفاقت میں انہیں کبھی کسی
کے ساتھ بحث میں الجھتے نہیں دیکھا۔لوگ ان کی زندگی ہی میں برملہ یہ کہتے
سنے گئے کہ اگر جماعت اسلامی کا مثالی کارکن کسی کو دیکھنا ہے تو مولانا
محمد سرور ؒ کو دیکھ لے۔
قاضی محمد سرورؒ وہ شخص ہیں کہ جن کے لیے شعرا نے نظمیں لکھیں۔ جس کی
انسانی خدمات کو عام کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے کتاب لکھنے
کی سفارش کی۔جن کے لیے زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے سو سے زیادہ
لوگوں نے تعارفی کلمات کہے۔ یہ کتاب مکتبہ خواتین میگزین منصورہ لاہور نے
شائع کی۔ کتاب مرجع خلائق میں،سو سے زیادہ لکھنے والوں میں سے مولانا قاضی
محمد سرورؒ کے لیے، کسی نے کہا، جاں پرسوز،کسی نے کہا، مینار نور،کیسے کیسے
خطاب سے نوازہ گیا۔ ملاخطہ ہو، کردار کا غازی،کامیاب داعی،ایک مثالی کارکن،
وہ جن کو دیکھ کر آئے خدا یاد،نرم گفتگو۔ گرم دم جستجو،پہاڑی کا چراغ،
روشنی کا مینار، نوجوان بزرگ، سراپا دعوت۔سراپا خدمت،کارکن قائد،میرے ہم
سفر، میر ابھائی، میری اُمید،میرے شفیق ابا جی،بے نواؤں کا سہارا، مجسم
محبت، پیارے دادا جان،تابندہ کردار،باکمال انسان، تحریک کا سرمایا، ابوزر
غفاری کی راہ پر، مردِ درویش، اسلاف کی نشانی،باہمت قائد،روحِ انقلاب،ہمہ
پہلو شخصیت،بے چین روح، مشعل راہ، دنیا کی محبت سے دور اﷲ کا ولی، معلم
ِخیر، جہد ِ مسلسل کا نمونہ، نفس مطمئنہ،بے غرض انسان،عزیمت کا راہی، فکر
آخرت کا داعی، ہدایت کا روشن چراغ،گنج ہائے گراں مایہ، توکل علی اﷲ کا
پیکر، خادم خلقِ خدا،سکون قلب کی تلاش کا مسافر، چراغ راہ، مثالی داعی دین،
لازوا ل وابستگی، اخوانی کارکن ، سادہ درویش،ہمہ وقت کارکن، میرا یار ۔میرا
امیر، شجر سایہ دار، صاحب الرائے۔میر امحسن،ہم دم و ہم راز،بے لوث کارکن،ہر
دل عزیز،اﷲ کے لیے پیار کرنے والے،پیکر شفقت،ہمارے مثالی بزرگ،بندہ مولا
صفات، مخلص اور دانا قائد، صاحب سکینت،خود نمائی سے گریزاں،دین کے
محافظ،ہمارے معلم، مشعل راہ، زندگی میں انقلاب برپا کیا جس نے،ہماری بستی
میں اجنبی،ایک عید سازشخصیت، صاحب کردار،جماعت اسلامی کا عاشق،تمہیں
ڈھونڈیں کہاں، خوشبو کا سفر، چنار صفت شخصیت، ایک مجادانہ کارنامہ،مسجد
مائی جان کا درویش،پیکر صدق و وفا ، حامی دین مصطفیٰؐ، آئیڈیل سماجی
کارکن،اِک ولی اﷲ، اسلاف کے نقش قدم پر، سب کا محبوب اور بہت سے خطابات سے
بھری مرجع خلائق کتاب ۔ ان کے علاوہ میں نے بہت سے خطابات نکل بھی نہیں کیے
۔ کتاب کو پڑھ میں تو حیران ہو گیا ۔ جس انسان کو اپنے پرائے اتنے زیادہ
خطابات سے نوازیں، اﷲ یقیناً اس سے راضی ہوگیا ہو گا۔ کیونکہ آوازِ خلق کو
نقارہِ خدا سمجھو۔ مولاناقاضی محمد سرورؒ واقعی مرجع خلائق شخص تھے کہ جن
کی طرف ہر کسی نے رجوع کیا۔ اتنی محنت سے کتاب ترتیب دینے والے مولاناقاضی
محمد سرورؒ کے بیٹے عبدلودود صاحب کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اﷲ تعالیٰ
مرجع خلائق مولانا قاضی محمد سرورؒ کو اپنی جنت فردوس میں جگہ دیے ۔ آمین۔
|