وطن عزیزہندوستان اس وقت نہایت ہی اضطراب،کسمپرسی،پریشانی
اورمعاشی وسیاسی بحران کے دورسے گزررہاہے۔ملک کے اندرونی حالات پرگہری
نظررکھنے والے وطن کی حالت دیکھ کرتنہائی میں آٹھ آٹھ آنسوں بہاتے
ہیں۔ہجومی تشددکے پردے میں برہمنیت کی فتنہ سامانیاں،زنابالجبروہ بھی کم
عمربچیوں کے ساتھ،غنڈہ گردی،قومی رہنماؤں کی ڈھٹائی کے ساتھ بڑی سے بڑی رقم
کی گھپلے بازی اوربڑھتی مہنگائی جس پرروک لگانے کے لئے فرسودہ موضوعات ہردن
ورات کی بحث نے پورے ملک کوتباہی وبربادی کے داہنے پرلاکھڑاکیاہے۔ہندوستان
کی سادہ دل عوام کرے توکیاکرے،اپنی محنت کی کمائی سے سیاسی رہنماؤں کے
خاندان کی عیاشی کاسامان تعیش فراہم کررہی ہے اورخاموش تماشائی بن کراپنی
قسمت کوکوس رہی ہے۔بڑے بڑے عقلاء بھروسہ بھی کررہے ہیں تواس سسٹم
پرجویہودیت کی فریبی پیٹ سے جنمی اوریہودی برہمنی صرفے پرپلی،بڑھی اورجوان
ہوئی جسے عرف عام میں جمہوریت کانام دیاجاتاہے۔
''جمہوریت کی پرفریب فکرکاخالق کون؟''
دنیامیں سب سے کم تعدادمیں جوقوم رہتی ہے وہ یہودی اوربرہمن ہیں،دونوں
خاندان زمانۂ قدیم سے اہل ثروت ،علمی خائن اورفتنہ پروربھی رہاہے جبکہ
دونوں کاشجرۂ نسب حضرت یعقوب علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران
دونوں بزرگوں کے سسرالی رشتے پرمنتہی ہوتاہے۔برہمن نے توبخت نصرکے بعداوراس
سے پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے خودکوڈرامائی اندازمیں
''سندھ''میں سیٹل کرلیا،جس کے بعداس ملک کانام بھارت ورش رکھا،بھارت ورش
کامطلب ہوتاہے ''عبرانیوں کاملک''بنی اسرائیل کی اس نسل برہمن نے بھی
سازشوں اورفتنوں کوابھارااورانسانیت پرظلم کے نت نئے طریقے ایجادکیئے۔حضرت
سلیمان علیہ السلام کے بعددنیامیں رونماہونے والے فتنوں کاجائزہ تودرِپردہ
ہرفتنے کے پیچھے یہی دونوں قومیں نظرآتی ہیں۔دوسری طرف بخت نصرکے حملے کے
بعدحضرت یعقوب علیہ السلام کے دوبیٹوں کی اولادیں جوخودکویہودی کہلاتی تھیں
اورصرف ان کوہی یہودی ماناجاتاتھا،پوری دنیامیں ماری ماری پھرتی رہی،تجارت
ذرائع سے ذخیرہ اندوزی کرتی رہی۔اہل ثروت اورحکمراں طبقہ میں اثرورسوخ
اوران سے راہ ورسم ہونے کی وجہ سے قوم یہوداوربرہمن نے ہمیشہ غریبوں
کوستایا،ناداروں کوتڑپایااوران کی بہو،بیٹیوں کی عزتوں کاسودابھی کیا۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ جب جب ''قوم یہود''کی فتنہ سامانیاں بڑھیں
اورانسانیت کونقصان پہونچاتب تب یہ قوم ماری گئی ،پیٹی گئی اورقتل کی
گئی،ان کی ساری دولت چھین لی گئی اوران کوبے یارومددگار چھوڑدیا۔دنیامیں
کوئی قوم اگراپنی فتنہ پروری کی وجہ سے سب سے زیادہ مشق ستم بنی تویہی قوم
بنی،البتہ ایشیااورمشرقی وسطیٰ میں ان کوایک مجبورمحض قوم جان کرہرطرح کی
مدددی گئی ،خاص کرسلطنت عثمانیہ میں تجارتی میدان میں خصوصی مراعات سے
نوازی گئی،جس کے نتیجے میں انہوں نے مستقبل کی ساری پلاننگ اسی
رعایاپرورسلطنت کی سرپرستی میں پروان چڑھ گئی،آخرمیں آل سعوداورمصطفی کمال
پاشابن کراس سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ایک بات ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ
جو قوم نے اس فکرناہنجار''جمہوریت''کوجنم دیااس قوم کوکبھی بھی انسانیت سے
کوئی ہم دردی نہیں رہی،نہ ہے اورنہ رہے گی۔جمہوریت ایک چھلاواہے،ایک جال ہے
بلکہ ایک خوبصورت سراب ہے جس میں زیادہ فائدہ بلکہ مکمل فائدہ یہودی
اوربرہمن کاہے۔اس فائدے کے کچھ صدقات سے دوسری قوم کے ضمیرفروش افرادبھی
فیض یاب ہوجاتے ہیں۔
یورپ میں قوم یہودکی سازشوں کی وجہ سے جب باربارحکمراں طبقے نے ان کاسب کچھ
چھین کرجلاوطن کردیااوربہتوں کوقتل کرادیاتواس قوم نے بہت غوروفکرکے
بعدزمام حکومت کوتقسیم کرنے کامنصوبہ بنایا،جس کے لئے ایک ہوشیار،پڑھے لکھے
یہودی شخص کومتعین کیاگیا،جس نے حکومت کولاکھو ں افرادمیں تقسیم کرنے کاایک
سرخالی نظریہ دنیاکے سامنے پیش کیا۔جس کی تشہیرمیں یہودیوں نے
اپناکثیرسرمایہ صرف کیا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ نظریہ آدھی دنیاپرقابض
ہوگیالیکن یہودیوں کے کچھ سگے بھائی جواپنارنگ وروپ بدل چکے تھے مستثنیٰ
سمجھے گئے۔تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ یورپ کے بادشاہوں نے
یہودکواپناکھلونابناکراستعمال کیا،کبھی ان سے دولت چھین کرانہیں ملک
بدرکردیا،کبھی عوام کواکساکرانہیں مروادیا،کبھی انہیں تنگ وتاریک گلیوں میں
بھیڑاوربکریوں کی طرح ہانک دیااورکبھی انہیں مذہبی جنون کے پردے میں لوٹ
لیا،اس لئے ان طاقت کے خودسرعلم برادروں کے ہوتے ہوئے ان کے لئے کہیں جائے
امان ممکن نہ تھی۔اگران چندافرادکے بجائے طاقت ا ن لوگوں کے ہاتھو ں میں
آجائے جنہیں اپنی طاقت کا علم ہی نہ ہو۔اگرایک کے بجائے ایک لاکھ ،دس لاکھ
یاایک کروڑانسانوں میں بادشاہت کے حقوق تقسیم ہوجائیں تو..... ظاہرہے کہ
یہودکی بازپرس کرنے والاکون ہوگا۔وہ تجارت،علم اوردولت کے حربوں سے لوگوں
کے معاشروں،ذہنوں اورمزاجوں کوبدل دیں گے۔وہ روپے سے ووٹ خریدیں گے اوران
سے جوکام لیناچاہیں گے لے سکیں گے،یہودی سوچ کے اس فیصلے نے جمہوریت کاسنگ
بنیادرکھا،،۔(یہودیت صفحہ 213)ہندوستانی جمہوریت کی نکیل کن لوگوں کے
ہاتھوں میں ہے اس پرکچھ گفتگوسے قبل جمہوریت کے بارے میں
ڈاکٹرسراقبالؒکانظریہ بھی جان لیتے ہیں۔ڈاکٹراقبالؒ کے سامنے جب جمہوریت کی
کنواری دوشیزہ کوخوبصورت نجات دہندہ دیوی کی شکل میں پیش کیاگیاتو آپ نے
فرمایاتھا:''لادینیت کے پیٹ سے جوحکومت جنم لے گی وہ رشوت،قتل،غارت
گری،زنا،لوٹ اورغریبوں کے استحصال کوبڑھاوادے گی''۔
ہندوستان کی جمہوری سیاست پرکس کاقبضہ؟
ہم ہندوستان کی جمہوری سیاست کاجائزہ لیتے ہیں توہمیں یہاں پرہرشعبے میں
چاہے مستقل ہویاغیرمستقل اکثریت برہمنی کی نظرآتی ہے حالاں کہ یہ لوگ ملک
کی کل آبادی میں 7؍فیصدسے بھی کم ہیں۔تمام باقی کمان ان کے کنٹرول میں
ہیں،تقریباًتمام سیاسی پارٹیاں ان کی ہیں یاان کی شمولیت ہے۔صنعت وحرفت
اورتجارت پربلاواسطہ یابالواسطہ برہمن براجمان ہیں،جمہوریت جس بیساکھی کے
سہارے کھڑی ہوتی ہے وہ سب ان کی رکھیل ہے،جیسے''ہاؤس،میڈیااورعدلیہ''رہی
عوام بے چاری تواسے یہودی دولت کی مددسے پانچ سال میں ایک بارنہایت سستے
داموں میں خریدکربے دام کردیاجاتاہے۔سمجھاجاسکتاہے کہ مٹھی بھرافرادنے ڈیڑھ
ارب انسانوں کواپنے اشاروں پرنچارکھاہے تویہ لوگ اپنے مجرم بھائیو ں کوجرم
کے الزام سے کتنی آسانی سے نکال لیں گے یاکچھ ایساکرگزریں گے کہ جرم خوددم
توڑدے گا۔اپنے ملک کی سب سے اونچی عدالت نے لگاتارجوفیصلے دیے ہیں وہ صرف
فیصلہ ہی نہیں بلکہ ایک زبردست عدالتی چھلاواہے۔دوسرے لفظوں میں ایک برہمن
کی دوسرے برہمن کوبچانے کے لئے تگڑم بازی ہے،جس کے لئے عدلیہ کے تقدس
کوپامال کیاگیا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی آڑ میں برہمن گھوٹالے بازوں کے جرم سے دھیان ہٹانے
کی مذمو کوشش ہے۔''شوہرکے بسترپرغیرمردسے جسمانی رشتہ''انسانیت کے خلاف سب
سے خطرناک جنگ ہے جسے ایک شخص عدالت عظمیٰ کی فصیل سے ہندوستانی سماج
پرزبردستی تھوپ چکاہے۔عورت کادوسرے مردکے ساتھ شب پاشی کرنااورمردکادوسرے
کی عورتوں کی باہوں میں کروٹیں لینا''ہائی پروفائل سوسائٹی کاسب سے مرغوب
کھیل ہے،یہ ہائی فروفائل ہندوستانی سوسائٹی کی پہچان بن گئی ہے۔اگرہائی
سوسائٹی کودوسرے لفظوں میں ''برہمن سماج کارہائشی علاقہ ''کہہ دیں زیادہ
بہترہوگا۔ظاہرسی بات ہے سپریم کورٹ کے اونچے خاندان کایہ جج بھی بھی اسی
علاقے میں رہ کرکسی اورکی بیوی کے ساتھ اپنی راتیں رنگین کرتاہوگااوران کی
بیوی کسی ''پیش کار''کے ساتھ گل چھڑے اڑاتی ہوگی۔ہم جنسی توہرہمیشہ
اوریہودیت کی خاندانی پسندیدہ غذاہے،لہٰذاقانوناًجوازکی سندتوملنی ہی چاہئے
تھی۔ایک بات توآسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے کہ'' اسرائیل کے یہودی بھارت
کے برہمن''مل کرہندوستان کوتباہ کرنے کامنصوبہ بناچکے ہیں۔
وطن عزیزمیں آخرچارسالہ دورحکومت اندرونی کم باہری فتنہ سازیوں کازیادہ
شکاررہاہے،باربارعوام کوآپس میں ٹکراکرہندوستانی معیشت کی ہچکیاں لیتی
سانسیں روکنے کی کوشش کی گئی،زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ کراسرائیل بھیج دی
گئی،بڑے بڑے برہمن صنعت کاروں اورتاجروں کوان کے اصلی وطن اسرائیل بھیجنے
سے پہلے وافرمقدارمیں قرضے کے نام پرہندوستانی دولت تحفے میں دی گئی،ملک
کادفاعی شعبہ کمزورسے کمزورتربنانے کی سازش رچی جاچکی ہے،مشہورلڑاکاطیارہ
رافیل جب انیل امبانی کی کمپنی میں تیارہوکرباہرآئے گاتواس کی حیثیت بچے کے
کھلونے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ان سب کڑیوں کوآپس میں ملائیں تویہ بات بآسانی
سمجھ میں آجائے گی کے برہمنوں نے اپنے خاندانی ملک اسرائیل کودرِپردہ
جودولت بھیجی ہے اس پرہمیشہ کے لئے پردہ پڑجائے اس لئے طلاق
ثلاثہ،جھوٹاانکاؤنٹر،ہم جنس پرستی،نابالغ بچی کابلات کار،عورتوں سے جسمانی
رشتہ جیسے مسائل اچھالے جارہے ہیں۔
محمدرضی احمدمصباحیؔ |