باپ بیٹے کا رشتہ بہت ہی عظیم اور انمول رشتہ ہے۔ یہ
وراثت کا ایک ایسا تسلسل ہے جس سے دنیا میں قبیلے، ذات، قومیں اور گوتیں
بنتی ہیں۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو نا صرف نسل کے تسلسل کی ضمانت دیتا ہے
بلکہ انسان کو اس بات کا اطمینان بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ اس دنیا سے جانے
کے بعد بھی کسی نا کسی شکل میں زندہ رہے گا۔ گویا بقول شاعر
بعد میرے میں ہی رہوں گا
میرا بیٹا بھی میرے جیسا ہے۔۔۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عموماً بیٹیاں اپنی ماؤں کے جب کہ بیٹے باپ کے
قریب ہوتے ہیں اور ان ہی سے اپنی شخصیت کا اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ ضروری
نہیں کہ انجینئر کا بیٹا انجینئر یا ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ہی بنے تاہم یہ
بیٹے میں باپ کی شخصیت کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ
باپ پہ پوت، پتا پہ گھوڑا
بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا
یعنی کم یا زیادہ۔۔۔ ایک بیٹا اپنے باپ کی شخصیت کا پرتو ضرور ہوتا ہے۔
ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی بہترین پرورش اور تربیت کرے
تا کہ اس کا جانشین معاشرے میں ایک اعلی اور باعزت مقام پا سکے۔ خواہش کے
ساتھ ساتھ یہ ایک باپ کی زمہ داری بھی ہے۔ لیکن یہ زمہ داری یکطرفہ نہیں
ہے۔ اولاد کے کچھ حقوق ہیں تو کچھ فرائض بھی ہیں۔ ان فرائض میں سب سے بڑھ
کر یہ کہ جہاں ایک باپ کو اولاد کی تربیت میں مثالی ہونا چاہیے وہیں ایک
بیٹے کو مثالی بیٹے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مثالی بیٹا کیسے بنا جا سکتا ہے۔ وہ کون سے
عوامل ہیں جنہیں اپنا کر ایک بیٹا والدین کے ساتھ اپنے رشتے کو لازوال اور
مثالی بنا سکتا ہے؟ تو اس کے لیے میرے پاس قریب ترین اور مستند مثال والد
محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید کی ہے۔ جنہوں نے اپنے ہر عمل ہر قول ہر قدم
سے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک عظیم باپ کے عظیم بیٹے ہیں۔
ایک مثالی بیٹے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی مکمل طور پر
فرمانبرداری اور تابعداری کرے۔ اس کے سامنے اف تک نا کرے۔ حتی کہ وقت آنے
پر اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نا کرے۔ عبدالرزاق
کھوہارا شہید نے ساری زندگی اپنے والد یعنی میرے دادا جان کی تابعداری میں
گزاری۔ بحیثیت بیٹا ان کی فرمانبرداری کی ایک مثال بیان کرنا چاہوں گا جس
سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایک مثالی بیٹے کی خوبیاں کس طرح ان میں کوٹ کوٹ
کر بھری ہوئی تھیں۔
والد صاحب کو بچپن سے ہی پاک فوج میں ملازمت کرنے کا شوق تھا۔ اس شوق میں
میری دادی جان بھی ان کی ہمنوا تھیں۔ بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بیٹے کی
شہادت کے خواب تک دیکھا کرتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا ایک بیٹا وطن
کی خاطر محاذ پر لڑتے ہوئے اپنی جان دے۔ آپ حیران ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے
کہ آج بھی ایسی مائیں موجود ہیں جو اپنے بیٹوں کو وطن کی خاطر قربان کرنے
کو اعزاز سمجھتی ہیں۔ بہرحال میرے دادا جان کو یہ ہرگز پسند نا تھا۔ انہوں
نے سختی سے منع کیا تھا کہ فوج میں نہیں جانا۔ والد صاحب نے ان کے حکم کے
آگے سر تسلیم خم کیا اور فوج میں بھرتی ہونے کا خیال دل سے نکال دیا۔
میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد صاحب اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ پاک
فوج کے بھرتی کیمپوں پر جایا کرتے اور وہاں اپنے دوستوں یا جاننے والوں کو
بھرتی ہوتے دیکھتے۔ چونکہ والد صاحب ماشاءاللہ ٹھیک ٹھاک قد و قامت اور
قابل رشک صحت کے مالک تھے اس لیے اکثر ایسا ہوتا کہ کیمپ پر انہیں بھرتی
ہونے کی آفر کی جاتی لیکن وہ ٹھکرا دیا کرتے کیونکہ باپ کا حکم تھا۔
بھرتی پر مامور افسران کی ان کے ساتھ اچھی خاصی سلام دعا ہو چکی تھی۔ ایک
بار ایسا ہوا کہ کیمپ پر موجود افسر نے زبردستی پکڑ کر ٹیسٹ کے تمام مراحل
سے گزار کر سینے پر نمبر لگا دیا (جو کہ نئے بھرتی ہونے والوں کے لیے اس
دور میں معمول تھا). والد صاحب اس واردات پر سخت پریشان ہوئے۔ بلآخر افسر
کے ساتھ یہ طے پایا کہ اگر گھر سے اجازت ملی تو ڈیوٹی پر آؤں گا۔ بصورت
دیگر نہیں۔
گھر پہنچ کر دادا جان کو بتانے سے قاصر تھے کہ کیا ماجرا ہوا ہے۔ اجازت
بہرحال ضروری تھی۔ ایک دن داداجان کو کہنے لگے کہ
"ابا جان کیا کروں۔۔۔ جس دوست کو بھرتی کروانے کے جاتا ہوں تو کہا جاتا ہے
اسے چھوڑو تم ہو جاؤ بھرتی"
جواباً داداجان نے غصے یا طنز میں کہ دیا۔۔۔
"تو ہو جاؤ بھرتی۔۔۔کس نے روکا ہے"
دادا جان کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہونے تھے کہ والد صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور
قمیص کے اوپری بٹن کھول کر سینے پر درج نمبر دکھا کر کہنے لگے۔۔۔
"ابا جان اجازت مل گئی۔ اب دعا دیجیے۔ میں ٹریننگ پر جا رہا ہوں"
دادا جان کو جب صورت حال کا اندازہ ہوا تو بہت پچھتائے۔ لیکن وہ بھی ایک
بااصول شخص تھے۔ اپنے الفاظ کا پاس رکھا اور والد محترم کو پاک فوج میں
ملازمت کرنے کی اجازت دے دی۔
داداجان بعد میں بھی اکثر اس بات کا تذکرہ اپنے عزیز و اقارب سے کیا کرتے
تھے کہ اگر اس لمحے وہ ایسا نا کہتے تو ان کا بیٹا کبھی نوکری پر نا جاتا۔
دراصل وہ اپنے بیٹے کو ہر وقت اپنے پاس دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ پاک
فوج میں ملازمت کے خلاف تھے۔
بہرحال یہ ایک چھوٹا سا قصہ یہ بتانے کے لیے کافی کہ آج کل کے دور میں جب
اولاد اپنے والدین سے یہ پوچھنا بھی گوارا نہیں کرتی کہ ان کا مطمع نظر کیا
ہے ایسے میں ایک بیٹے کا اپنے باپ کی خواہش پر کما حقہ عمل کرنا
فرمانبرداری کی اعلی مثال ہے۔
میری عمر تقریباً 18 سال تھی جب دادا جان کا وصال ہوا۔ اپنی تمام عمر میں
میں نے کبھی والد محترم کو ان سامنے اونچی آواز میں بولتے نہیں دیکھا۔
اونچا بولنا تو درکنار وہ ساری زندگی احتراماً اپنے باپ کے برابر یا ان کی
چارپائی پر نہیں بیٹھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ دادا جان اپنی ضعیف العمری کے
باعث غلط فہمی میں والد صاحب سے شدید ناراض ہوتے لیکن والد محترم ان کے
سامنے اف تک نا کرتے۔
عبدالرزاق کھوہارا شہید ایک حوصلہ مند اور بااصول باپ کے مثالی بیٹے تھے۔
انہوں نے جوں ہی ہوش سنبھالا تو گھر میں غربت و افلاس کے ڈیرے تھے۔ ننگے
پاؤں کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر تعلیم حاصل کی۔ آسائشوں کی تو کیا بنیادی
ضروریات زندگی کی بھی قربانی دینا پڑی۔ اس کے باوجود میں نے ساری زندگی ان
کی زبان سے اپنے والد کا گلہ یا قدرت کی ستم ظریفی کا شکوہ کرتے نہیں
دیکھا۔ ہمیشہ یہی کہا کرتے کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے۔ میرے والد
میرے لیے جو کر سکتے تھے انہوں نے کیا۔ مشکل ترین حالات میں بھی تعلیم جاری
رکھنے دی۔ یہی کافی ہے۔
صرف والد ہی نہیں والدہ کے ساتھ بھی ان کا سلوک، پیار، محبت اور عقیدت بے
مثال تھی۔ یہی وجہ تھی کہ منجھلی اولاد ہونے کے باوجود وہ اپنے ماں اور باپ
کی آنکھوں کا تارا تھے۔
تحریر کی طوالت کے پیش نظر اس بات پر اختتام کرتا ہوں کہ والد محترم
عبدالرزاق کھوہارا شہید تمام رشتوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ انہوں نے اپنے
والدین کے ساتھ طرز عمل سے ہمارے لیے بھی ایک مثال قائم کی۔ دعا ہے کہ اللہ
پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین
|