تحریر:زینب نور
آج میں نے امی جی کا سامان دیکھا تو سوچا یہ تو ویسے کا ویسا ہی ہے۔بیڈ جس
کو اس زمانے میں پلنگ کہتے تھے۔پلنگ تعداد میں دو ہوتے تھے۔جیسے آج کل سنگل
بیڈ کی اختراع چلی ہے۔یہ دو سنگل بیڈ پلنگ کہلاتے تھے۔ان کے اندر لکڑی سے
بنا ایک فریم فٹ ہوتا تھا جوکہ سفید رنگ کی 2انچ چوڑی پٹی سے بنا ہوتا
تھا۔پلنگ کے باہر کیل تھے جو اکثر اوقات گھٹنے کو تکلیف میں مبتلا کرنے کا
سبب بنتے تھے۔یہ پلنگ امی جی جہیز میں لائی تھیں۔اور ان کی حفاظت بھی اسی
حساب سے ہوتی تھی کیو ں کہ میکے کی نشانی تھے۔
مائیں میکے سے آئی چیزوں کو خوب سنبھال کے رکھتی ہیں۔بچپن میں ان چیزوں کو
دیکھنے کا بہت اشتیاق ہوتا تھا جو اکثر پیٹی کے اندر ہوتی تھیں۔جن کی
سالانہ رونمائی پہ اچک اچک کر اندر جھانکنے کی کوشش میں کبھی دوہتھڑپڑ جاتے
اور کبھی زبانی مارجوکہ ہماری نازک طبیعت پر گراں گزرتی اس کے باوجود شوق
دیدنی تھا۔چار کرسیاں زیادہ استعمال سے اپنی وضع کھو چکی تھیں لیکن میز
ابھی تک اپنی اصلی حالت میں یو پی ایس رکھنے کے کام آرہا حالاں کہ ان کی
مالکہ اس دنیا سے رخصت لے چکی۔اس زمانے میں برتن رکھنے کے لیے ایک ڈولی بھی
دی جاتی تھی آج کل شوکیس ہیں۔ڈولی لکڑی کی بنی ایک مربع نما ہوتی۔جس کے دو
خانے ہوتے۔آگے والے حصے میں جالی کے دودروازے اور تینوں سائید کو ہارڈبورڈ
سے کور کیا جاتا۔اوپر ایک چھت اور دروازے کے اوپری حصے میں دونوں طرف دراز
بھی بنے ہوتے۔امی جی نے ڈولی میں چینی اور کانچ کے برتن سیٹ کیے ہوتے تھے
جو کہ کبھی کبھار خاص الخاص مہمانوں کی آمد پر نکالے جاتے اور پھر بحفاظت
رکھ دیے جاتے۔
امی جی نے بیشتر سامان غرباء میں تقسیم کردیا اور جو باقی ہے ان کی یاد بن
کر آنکھیں نم کرتا ہے۔ان کی سلائی مشین جس پہ نجانے کتنے کپڑے سلائی کیے
گئے اس کو دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے اور پنکھا جو اس زمانے میں شاذونادر
ہی دیا جاتا تھا۔امی جی واحد خوش نصیب تھیں جو پنکھا بھی لائی تھیں جس کی
خاطر ابو جی کو بجلی کا انتظام کرنا پڑا جو کہ ایک مشکل امر تھا کیوں کہ
ابھی بجلی گھر گھر نہیں پہنچی تھی۔پلنگ،یوپیایس والی میز،پنکھا،سلائی
مشین،پیٹی اور ڈولی اس دورکی یادگار ہیں جب ان کی مالکن ان کو اپنے ہونے کا
احساس دلاتی تھیں۔
میں ان کی طرف دیکھ کے سوچ رہی تھی کہ یہ سب چیزیں امی جی کی نشانیاں ہیں
ان کے معاملے میں دل بہت جذباتی ہے لیکن جب میں آئینہ دیکھتی ہوں تو دل میں
اک ہوک سی اٹھتی ہے اور ایک سوال مجسم بن کر سامنے کھڑا ہوجاتا ہے کہ میں
کیا ہوں؟کیا میں امی جی کی نشانی نہیں ہوں؟اس سوال کا جواب بہت دیر تک
سوچتی ہوں کہ مجھ میں اورسامان میں کیافرق ہے ، مماثلت ہے یا کوئی تضاد۔اسی
لمحے امی جی کا مسکاتا چہرہ تصور میں آتا ہے ،مجھے سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
|