نئی ہیرا پھیریاں

طاقتوروں کے پاس قانون سے بچنے کا سامان بھی ہوتاہے۔اور اس سے نبٹنے کا حوصلہ بھی۔کمزور تو قانون سے چھپتے پھرتے ہیں۔مگر طاقتوروں کے لیے قانون سے زور آزمائی کسی مشغلے سے کم نہیں۔قانون توڑنا ان کا شغل میلہ ہوتا ہے اول تو انہیں کبھی پریشانی آتی ہی نہیں کبھی بھولے سے قانون کی زد میں آبھی جائیں تو اس سے نکلنے کے بیسیوں ٹوٹکے مل جاتے ہیں۔وسائل کھلے ہونے کے سبب انہیں ایک مکاراور عیار ٹیم مہیا رہتی ہے جو اپنی ہنر مندی سے ان کی خلاصی کی راہ نکال سکے۔یہ عیاری اور مکاری کا ایسا کھیل کھیلتی ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن بنا ڈالے ۔جھوٹ کو سچ بنا دینا اس کاکمال ہوتا ہے۔بے ایمان کو محترم بنادینا اور ایماندا رکو چو ربنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتاہے۔طاقتوروں کو اس عیار ٹولے سے بڑا فیض ملتاہے۔ اپنے ناجائز کو جائز کروانے میں اور دوسروں کے جائز کو ناجائز کروانا آسان رہتاہے۔عیار ی اور مکاری سے کارندے اپنے مالکان کی سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔خالفین پر بہتان سازی ہوتی ہے۔ بدنام کیا جاتاہے۔یہ ہیرا پھیری کے ماہر قانون شکنی کی راہیں ڈھونڈتے ہیں۔ قانون سے بچنے کے گرتیار کرتے ہیں۔قانون میں کہاں کہاں سقم موجود ہیں۔ڈھونڈے جاتے ہیں۔پھر ان سقموں سے مالکان کے ناجائز دھندوں کو چھپایا جاتاہے۔

قائد حزب اختلا ف شہباز شریف کی گرفتاری پر جمود کی شکار سیاست میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔اگر چہ حکومت کی طرف سے گیس ۔بچلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور ضمنی بچٹ کے بعدسے عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی مگر اپوزیشن کی طرف سے خاموشی اپنائے جانے کے بعد عوام کے پاس سوائے خون کے گھونٹ پینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔شہبازشریف کی گرفتاری سے وہ جمود ٹوٹ رہا ہے۔انہیں نیب نے آشیانہ اقبال کیس میں گرفتارکیا ہے۔ایک خبر کے مطابق فواد حسن فواد کے سلطانی گواہ بن جانے کے سبب یہ گرفتاری عمل میں آئی۔سابق وزیر اعلی پنجاب کی گرنتاری ایک بڑہی خبر ہے۔تاہم جس معاملے میں انہیں پکڑ اگیا ہے۔وہ اتنا کمزو رہے کہ شاید جلد ہی وہ چھوٹ جائیں۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جس معاملے میں گرفتاری ہوئی اس میں سرکاری خزانے سے ایک دمڑی بھی خرچ نہیں ہوئی۔جہاں تک بات ایک کمپنی سے ٹھیکہ کسی دوسری کمپنی کو دینے کا ذکر ہے۔ایسا صوابدیدی آختیار ہمیشہ استعمال ہوتا رہا۔حکام کو کسی بھی معاملے میں تسلی کرلینے کا حق ہوتاہے۔اس کمزور بیس پر ہوئی گرفتاری کے سبب سیاسی حلقوں میں بڑی ہلچل مچی رہنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔خیال کیا جارہاہے کہ اس گرفتاری سے وقتی مقاصد کا حصول درکارہے ۔جیسے ہی حاصل ہوگیا معاملہ سمٹ جائے گا۔حکومت جو کہ مہنگائی بڑھ جانے کے سبب عوام میں مقبولیت کھو رہی ہے۔اپوزیشن کی طرف سے کسی بڑی احتجاجی تحریک کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔یہ بڑی کمزور بنیادوں پر کھڑی حکومت ہے ۔بالخصوص پنجاب میں تو بالکل ڈھیلا معاملہ ہے۔اگر اپوزیشن ذرا سا آسر اکے تو گیم بن سکتی ہے۔اس لیے حکومت کبھی نہ چاہے گی کہ اپوزیشن کو کوئی ایسا برننگ ایشوفراہم کرے جو کسی بڑی احتجاجی تحریک میں معاون ہو۔رانا مشہود کی طرف سے پنجاب میں تبدیلی آنے کی بات ہو امیں نہیں کی گئی۔لازماً اس پر کچھ نہ کچھ پلاننگیں ہورہی ہیں۔اپوزیشن کے ساتھ ساتھ قانونی حلقے بھی اس گرفتاری کو ایک کمزور فیصلہ قراردے رہے ہیں۔اس فیصلے کے اثرات دیرپا نہ ہونگے اس لیے کسی بڑی تبدیلی کی امید کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ۔شہباز شریف جلد باہر آسکتے ہیں۔ان کے باہر آنے کے بعد حالات پھر پرانی ڈگر پر چلنے لگیں گے۔شاید حکومت کی اپنی خواہش بھی یہی ہے ورنہ وہ کوئی جاندار معاملہ ڈھونڈ تی۔

عیار ی اور مکاری کا کھیل جاری ہے۔شریف خاندان کو آؤٹ کرنے کے لیے عجب عجب نعرے متعارف کروائے گئے۔نرالے وعدے کیے گئے۔ہتھیلی میں سرسوں جمانے اور راتوں رات دودھ کی نہر نکال دینے کی باتیں کرکے بھولی بھالی عوام کو مائل کرلیا گیا۔تب سب سے بڑا وار سابق وزیر اعظم کو ایک کمزور مقدمے کے مشکوک فیصلے کے تحت جیل بھجوایا گیا۔مقصد یہی تھاکہ مد مقابل ؂کوئی نہ ہو۔جو پپٹ شو چلانا درکارہے ۔وہ آسانی سے چلایا جاسکے۔اب ضمنی الیکشن کے دن ہیں۔حکومت اپنی بدترین کارکردگی کے سبب عوام سے چھپتی پھرتی ہے۔ایسے میں بلدیاتی الیکشن اور ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔عوام کولبھانے کے لیے ایک بار پھر عجب عجب سے نعرے اور وعدے وعید کیے جارہے ہیں۔عملا تو عام آدمی پس رہا ہے۔مگر ٹی وی پر بیٹھے کچھ لوگ مسلسل خیالی پلاؤ کے مصالحے بڑھا رہے ہیں۔شہباز شریف کی گرفتاری اصل میں سنجیاں ہوجان گلیاں کا قصہ ہے۔تحریک انصا ف کی حکومت کو اپنی کارکردگی کا پتہ ہے۔وہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ اسے اصل خطرہ پنجاب حکومت کے چھن جانے کا ہے۔عوام کی بے زاری ضمنی الیکشن میں گیم پلٹاسکتی ہے۔اس لیے چار دن کے لیے شہبازشریف کو منظر عام سے ہٹا دینے کا منصوبہ ہے۔بڑے الیکشن میں نوازشریف کو راستے سے ہٹائے رکھا گیا۔اب چھوٹے الیکشن میں شہبازشریف کو دیوار سے لگایا جارہاہے۔شریف برادران کچھ لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔انہیں راہ راست پرلانے کے لیے تدبیریں سوچی جاتی رہی ہیں۔یہ تدبیریں زیادہ کارگریوں نہیں ہوپارہی کہ جتنا زہریلا پراپیگنڈا شریف فیملی کے خلاف کیا جاتاہے۔شریف فیملی کی پرفارمنس کے آگے دھندلاپڑ جاتاہے۔کچھ دن تو عوام بہکاوے میں آجاتے ہیں۔مگر جلد ہی موازنہ کیے جانے کے بعدرائے بدل لیتے ہیں۔عوامی رائے دہندگی سے یہ نہیں ہٹائے جاسکتے۔جب بھی الیکشن ہوئے عوام نے بھرپور اعتماد کیا۔میاں نوازشریف او رمیاں شہباز شریف کی شہرت محب وطن ۔مخلص اور خیر خواہ لیڈران کی ہے۔ان کی قابلیت کوعالمی برادری تسلیم کرچکی۔بالخصوص امریکہ ۔چین۔ترکی۔سعودی عرب میں ان کی ساکھ بہت اچھی ہے۔اس کے باوجود کچھ لوگ ان سے الرجک ہیں ۔اصل میں نوازشریف اس ٹوپی ڈرامے کے خلاف ہیں جو یہ لوگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اختیارات اور وسائل پر ناجائز اور غیر قانونی قبضہ کرنے اور اس کی بقا کا ٹوپی ڈرامہ نوازشریف کو قبول نہیں۔وہ یہ بات ناپسند کرتے ہیں کہ عوام تو کسی کو پسند کریں اوراختیارات کچھ اور لوگوں کے پاس ہو۔ نوازشریف کی پہچان جمہوریت کی بالادستی کا علمبردار ہونا ہے۔غیر جمہوری قوتوں کے لیے وہ ایک ننگی تلوار بن چکے ہیں۔جس طرح جنرل الیکشن میں شعبدے بازی کرکے ایک مخصوص گروہ کو آگے لایا گیا۔اب پھر ضمنی الیکشن میں نئی ہیرا پھیریاں کی جارہی ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141032 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.