معائدہ کے سو سال، 2023 اور طیب رجب اردگان

ترکی کے موجودہ صدر طیب رجب اردگان اس وقت مسلم دنیاکے ہیروہیں۔وہ 2003ء سے 2018ء تک ترکی کے وزیراعظم رہے۔مگرحالیہ انتخابات میں انہوں نے یہودیوں کے بہت بڑے ہتھیاریعنی جمہوریت کے میدان میں انہیں شکست دیتے ہوئے ایک بارپھرسے کامیابی حاصل کرلی ہے ۔طیب اردگان نے کمال اتاترک کے سیکولرترکی،فوج اورعدلیہ سے بناکسی تصادم کے کمال ذہانت کے ساتھ اسے اسلامی ترکی کی منزل کی طرف گامزن کردیاہے۔ترکی 1299ء سے 1923تک اسلامی خلافت کامرکزرہا۔جیسے آج ہم سلطنت عثمانیہ کے نام سے جانتے ہیں۔یہ خلافت آج کے موجودہ دورکے آرمینیا، عراق،شام،اردن،فلسطین،بلغاریہ،یونان،مکہ اورمصرجیسے ممالک پرمشتمل تھی۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعدترکی مصطفی کمال اتاترک کی قیادت میں بتدریج دین اسلام سے دورہوتاچلاگیا۔اسے ایک سیکولرریاست میں بدل دیاگیا۔ہرطرف بے حیائی اوربرائی کاراج ہونے لگا،کیونکہ اتاترک نے اسلام کی مخالفت میں ہروہ کام کیاجس کے کرنے سے اسلام میں منع کیاگیا۔1923ء میں پہلی جنگ آزادی کے بعدخلافت عثمانیہ کی مخالف اتحادی فوجیں جن میں فرانس جرمنی اوربرطانیہ شامل تھے انہوں نے زبردستی ترکی کے ساتھ ایک معائدہ کیا۔جس کی مدت ایک سوسال تھی اوراسے معائدہ لوزان(Lausanne) کانام دیاگیا۔اس معائدہ پردستخط کرنے والاکمال اتاترک ہی تھا۔جس کے مطابق تین براعظموں پرپھیلی خلافت کاخاتمہ کردیا۔اس کے تمام وسائل سے دستبرداری کااعلان کرنے کاکہاگیا۔جس کے نتیجے میں چالیس ملک وجودمیں آئے ۔موجودہ سلطان کی تمام جائیدادوں کاضبط کرلیاگیا۔سلطان کوان کے خاندان کے ساتھ ترکی سے جلاوطن کردیاگیا۔اسلام اورخلافت پرپابندی لگاکرترکی کوایک سیکولرریاست قراردے دیاگیا۔قارئین کرام!ترکی کے قدرتی وسائل میں پٹرول سرفہرست ہے۔اس کی ٹریڈنگ پرمکمل پابندی لگادی گئی۔ترکی کی ایک اہم بندرگاہ جس کانام باسفورس ہے یہ دنیاکی ایک انتہائی اہم بندرگاہ ہے ۔اس کی اہمیت بھی نہرسوئیز(افریقہ) جتنی ہے ۔نہرسوئیز اپنی منفردجغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔کیونکہ یہ مشرق ومغرب کے ممالک کوکم ترین فاصلے سے ایک دوسرے سے جوڑتی ہے ۔بالکل اسی طرح باسفورس بندرگاہ بھی دوبراعظموں یعنی براعظم ایشیاء اوریورپ کوآپس کم ترین فاصلے سے جوڑتی ہے ۔باسفورس بندرگاہ پرپابندی لگاکراسے عالمی ملکیت قراردے دیاگیایوں اس کااختیارتمام یورپی ممالک کے پاس چلاگیا۔ایک ملک کی بندرگاہ اس کے لیے کتنی اہم ہے اس سے آپ اچھی طرح واقف ہیں۔اس معائدہ کے مطابق ترکی پرپابندی لگادی گئی کہ وہ اس بندرگاہ سے کسی قسم کاکوئی ٹیکس نہیں لے سکتا۔غرض اس معائدہ کے تحت ترکی کے ہاتھ ایک سوسال تک باندھ کراسے ایک طرف پھینک دیاگیا۔’’معائدہ لوزان‘‘کی مدت ایک سوسال تھی اورسے 2023ء میں ختم ہوناہے جوکہ قریب آچکاہے اورعالمی طاقتوں کی نینداس خوف سے اڑتی جارہی ہے کہ جیسے جیسے 2023ء قریب آرہاہے اس معائدے کے ختم ہوتے ہی ترکی تمام وسائل کوپھرسے حاصل کرلے گا۔اوردنیامیں اپنی عالمی حیثیت کومنوانے کے لیے جوچاہے گاکرپائے گا۔مطلب خلافت پرلگائی گئی پابندی اب ختم ہونے کوہے اورترکی کے موجودہ صدرطیب اردگان کاکرداربھی دنیاکے سامنے ہے کہ وہ عالم اسلام کادردرکھنے والے کس قدرمخلص حکمران ہیں۔مسلمانوں پرہونے والے مظالم کی مذمت اوران کے لیے عالمی سطح پرآوازبلندکرنے والوں میں طیب اردگان پہلے شخص ہوتے ہیں۔پھرچاہے وہ شام کامعاملہ ہوفلسطین پرہونے والے مظالم ،برماہویاکشمیرکامعاملہ۔امریکہ صدرڈونلڈٹرمپ نے جب پاکستان پرالزامات لگائے توسب سے پہلے مسلم حکمران میں سے ایک ہی نے اس کی کھل کرمذمت کی اس کانام طیب اردگان ہے ۔طیب اردگان کی فہم وفراصت نے ترکی کوایک متعدل ریاست کے طورپرایک بارپھرسے تمام اسلامی ریاستوں کی قیادت کے لیے تیارکرلیاہے۔دنیاکے کسی بھی مسلم ملک میں کوئی حادثہ ہو،کوئی آفت آجائے،کوئی طوفان یاقحط سالی ہویاسیلاب یادہشت گردی کی لہرآئے طیب اردگان ان کی مددکرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ترکی کے بہت سارے علاقوں میں طیب اردگان کوسلطان بھی کہاجاتاہے۔جس سے سلطنت عثمانیہ کے دورکی یادتازہ ہوتی ہے ۔عالمی طاقتوں کایہ خوف ہے کہ کہیں ایسانہ ہوکہ اہل ترکی طیب اردگان کی قیادت میں ایک بارپھرسے خلافت کی جانب گامزن ہوجائیں۔یہی وجہ تھی کہ پندرہ جولائی 2016ء کوامریکہ کے کہنے پرترکی میں مارشل لاء لگانے کی کوشش کی گئی اورفوج نے حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔مگرعوام نے اردگان کی محبت میں فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کران کی حکومت کوبچایا۔اس سازش کے ناکام ہونے کے بعدطرح طرح کی سازشیں اردگان اورترک حکومت کے خلاف مزیدکی جارہی ہیں۔جوایک بارپھرمسلمانوں کے اکٹھاہونے کی طرف اشارہ کرتاہے۔طیب اردگان بارباراپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ 2023ء کے بعدموجودہ ترکی پہلے جیسانہیں رہے گا۔بلکہ عالمی سیاست میں اپناکرداراداکرے گا۔دوسری طرف میڈیاوارکے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی معیشت اوراس کے جنگی ہتھیاروں کاخوف دنیامیں بٹھادیاگیاہے جوکہ اصل حقیقت نہیں ہے اس کاثبوت پاکستان میں نیٹوفورسزچوری ہونے والے 19ہزاراسلحے سے بھرکنٹینرزہیں جواچانک کہیں غائب ہوگئے۔تمام ترامریکی ٹیکنالوجی مل کرآج تک ان کاکوئی سوراغ نہیں لگاپائی۔یہ وہ امریکہ ہے جواپنی سٹلائیٹس ودیگرکی تعریفیں کرنے میں دم نہیں بھرتا۔اس کے علاوہ تمام ترامریکی ٹیکنالوجی مل کرآج تک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کوڈھونڈنہیں پائے کہ وہ آخرکہاں موجودہیں۔یقیناطیب اردگان بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں۔لہذاوہ کھلم کھلا2023ء کے بعدبرطانوی امریکی اوراسرائیلی متحدہ قوتوں کوایک بارپھرسے عالمی سیاست پرٹکردینے کوتیارہیں۔دنیاایک بارپھرسے بدلنے والی ہے ۔آنے والے پانچ سال انتہائی اہم ہیں۔جوایک بہت بڑی تبدیلی لے کرآئیں گے لیکن اس دوران اردگان اورترکی مخالف پروپیگنڈہ زورپکڑتاجائے گا۔کیونکہ دنیاکوگمراہ کرنے کے لیے یہودی لابی دنیاکے 97فیصدمیڈیاکااستعمال کرے گی جس کے یہ مالک ہیں۔لیکن مسلمانوں کواسباب پرنہیں بلکہ مسبب الااسباب پرتوکل کرناچاہیے کیونکہ مسلمانوں کاایمان ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے ۔تب ہی توغزوہ بدرکے 313مجاہدایک ہزارکے لشکرپربھاری پڑتے ہیں،پاکستان کوبھی طیب اردگان جیسے حکمران کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کے پاس بھی ترکی جیسی ایک بندرگاہ ہے جوعالمی ٹھیکیداروں کی آنکھوں کھٹکتی ہے ۔
 

Ahsan ul haq
About the Author: Ahsan ul haq Read More Articles by Ahsan ul haq: 10 Articles with 14331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.