حبس کے ڈسے کُچھ روز اور، پھر ایک نئی سحر، بالکل ایسی ہی
جیسی رات بھر ہلکی رِم جِھم کے بعد شب کے بطن سے پھوٹتی ہے اور گرم ہوا
اُوپر کو اُٹھ جاتی ہے مگر خلا نہیں رہتا اور یہی قانونِ فِطرت ہے ، گرم کی
جگہ ٹھنڈی ہوا۔ سابق وزیر اعظم کشمیر بیرسٹر سُلطان محمودود چوہدری کی
معیّت میں ہسپانوی اداروں کے ساتھ بات چِیت میں بہت کچھ سُننے اور سیکھنے
کو مِلا۔ جو سُننے کو مِلا وہ زیادہ تر وہی تاثر ہے جس پہ ہِندوستان نے
محنت کی اور سِیکھنے کے لئے بیرسٹر صاحب سے جو جتنا چاہے سیکھ لے۔وہ براہ ِراست
بات چیت کا دروازہ کھول گئے ہیں کم و بیش سبھی جماعتوں کے ساتھ، اب باگ ڈور
کشمیری برادری کے مقامی رہنماؤں کے ہاتھ میں ہے۔مسئلہ جُوں کا تُوں ہے، کم
از کم ہسپانیہ میں ایک ـ’طویل‘ محنت کا ثمر یہی ہے۔ وجہ اِس کی جو ہماری
ناقص رائے میں ہو سکتی ہے وہ زبان کے اسرار و رمُوز سے ناواقفیّت ہے۔ جتنی
زبان کی سُوجھ بُوجھ ہے اُس سے بھاؤ تاؤ تو کیا جا سکتا ہے مسئلہ کشمیر پیش
نہیں کیا جا سکتا۔
نعروں سے کب کِسی قوم نے منزل پائی اور جب تمام تر توانائی کا بہترین مصرف
ہانپ جانے کی حد تک نعروں پہ ہو وہاں نعرے، احتجاج اور مظاہرے ہی انڈے بچے
دیتے ہیں۔ جذبات در جذبات احساس سے عاری نعرے جِن کا مجمُوعی اثر سوائے
وقتی کان کے پردوں پہ ڈم ڈم کے کوئی خاص نہیں نکلتا۔ جذبات اور جذبہ اپنی
جگہ مگر احساس کوئی اور شے ہے مگر جب انفرادی حساسیّت ہی احساس ٹھہرے تو
ذمہ داری بوجھ بن جاتی ہے اور بوجھ کوئی چاہے جتنی دیر اُٹھائے پِھرے، حُسنِ
شوق پر مُنحصر ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک زور
پکڑ گئی ہے اور دن بدن مضبُوط ہوتی جا رہی ہے۔ بین القوامی سطح پر جو لوگ
آزادی کی تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اُن کی خدمات گراں قدر مگر زیادہ تر
انفرادی ہیں۔ جو چھوٹے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں وہ نعروں اور خاص طور پہ اُن
نعروں سے مزیّن ہوتے ہیں جِنھیں دُنیا لاتعداد مرتبہ سُن چکی ہے یا اب
سُننے کو تیار نہیں۔ احتجاج ہوتے ہیں مگر ایسے ہی جن سے اپنی تشہیر زیادہ
اور احتجاج کی رُوح غائب ہوجاتی ہے۔ہر وہ انتہائی مگر ’پُر امن‘ طریقہ رواج
پکڑ رہا ہے جِس کی ضرورت نہیں اور اگر ہے تواتنی ضرورت نہیں جتنی بنا کے
پیش کر دی جاتی ہے۔مظاہرے اور نعرے والا احتجاج نُسخہ تو ہے مگر وہ نُسخہءِ
کیمیا جو قوموں کو آزادی بخشتا ہے وہ ویسا بالکل بھی نہیں جیسا دکھایا جا
رہا ہے۔ ایک عمل کیا جاتا ہے اور اُس کا ردِّ عمل آتا ہے جِس کا توڑ پہلے
سوچا جاتا ہے نہ عمل کر گُزرنے کے بعد۔ سعی اور لگاتار، سعیءِ لا حاصل، ایک
اور مظاہرہ، ایک اور احتجاج ، مزید نعرے اور مزید بیان۔مکرّر عرض ہے کہ
قابلِ قدر ہیں وہ لوگ جنھوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری میں زندہ رکھا
ہوا ہے مگر معمار وہ ہوں گے جو اِسے زندہ رکھنے کی بجائے حل کی طرف جائیں
گے۔ دوسری صورت یہی ہو گی کہ جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے باہر دلت اقلیّت کے
چار اشتہارات لگائے جائیں گے اور ساری شاہرائے سلامتی بلوچستان سے متعلق
نعروں اور اشتہاروں سے بھر دی جائے گی۔ احتجاج، مظاہرے اور نعرے کیا ہیں
سوائے اِس کے کہ انسانی جذبات، غم اور غُصہ باہر نکلے، منظرِ عام پہ آئے
اور تاریخ کے اوراق میں درج ہو کے گُم ہو جائیں۔
اقوامِ عالم کیا چاہتی ہیں؟ اِس کا ادراک لازم ہے۔ مثال کے طور پہ گزشتہ
ستر سالوں میں ’آن آف‘ بہت سا کام سڑکوں، عالمی ایوانوں کے اندر باہر ہوتا
رہا ہے مگر کیا مسئلہ کشمیر کو جامعات تک لے کے جایا گیا اور اگر لے کے
جایا گیا تو کِس حد تک سیمینار منعقد کروائے گئے؟ کیا طلبا جن کا تعلق
خالصتاً کشمیر سے ہے اُنہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی یا اُنہیں تیار کیا گیا
کہ وہ اِس مسئلہ کی جانب اپنی اپنی جامعات میں معلومات پہنچانے کی غرض سے
سے چھوٹے چھوٹے اور مسلسل سیمینار کروائیں، مسئلہ کو علمی بُنیادوں پہ
اُجاگر کریں، کوئی ایک ایسی مربُوط علمی بُنیادوں پہ جماعت تیار کی گئی جو
بین الاقوامی سطح پہ مسئلہ کشمیر کی تشہیر کرے، طلبا کی معاونت کرے اور سب
کا سچ ایک ہی ہو۔ کشمیری رہنماؤں کے نام عالمی سطح پہ اُنگلیوں پہ گِنے جا
سکتے ہیں مگر طُلبا جو کہ اِس سب کا ہراول دستہ ہونے چاہیئے تھے وہ کہاں
ہیں؟
اقوامِ متحدہ کی جنیوا کی حالیہ رپورٹ میں جو انسانی تاریخ کی بُزدل ترین
فوجی اور نِیم فوجی بھارتی کاروائیوں کے متعلق ہے کتنوں کو ازبر ہے۔ ساری
چھوڑئیے، صرف بنیادی نقاط اور اُن پہ مکالمہ کے لئے کتنے تیار ہیں اور جو
تیار ہیں کیا اُنہوں نے مکالمہ کا آغاز کر دیا ہے اور اگر آغاز ہو چُکا ہے
تو وہ کہاں ہو رہا ہے۔ بیرسٹر صاحب کی زبانی پہلی دفعہ آگاہی ہوئی اِس
رپورٹ سے اور انٹرنیشنل کشمیر پِیس فورم اِس معاملے میں کام شُروع بھی کر
چُکا ہے جسے مربوط اور مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ کی نقول بانٹی
گئیں مگر انگریزی میں۔ سوال یہ ہے کہ یورپ میں مقیم کشمیری رہنما جوجس مُلک
میں موجود ہیں کیا وہاِں اِس رپورٹ کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کر یا کروا
نہیں سکتے ؟ اور یہ ہو سکتا ہے تو کیا طلبا پہ محنت نہیں کی جا سکتی کہ وہ
انسانی حقوق کی پامالی پہ آواز اُٹھائیں۔ یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جامعات
میں زیرِ تعلیم ہیں۔ کشمیر کو علمی اور مدلّل بُنیادوں پہ پیش کیا جانا
چاہیئے، انسانی حقوق کی پامالی اور بے حُرمتی وہ نُسخہ ہے جو کشمیر کے
مظلوموں کی آواز بنے گا۔ مظاہرے اور نعرے نہیں کہ اِن میں جو مانگا ، بتایا
اور لگایا جاتا ہے وہ سب کُچھ تو ہوتا ہے سوائے دُنیا کو یہ بتانے کے کہ
اِنسانی حقُوق کی پامالی کِس حد تک کی جا رہی ہے۔
ایک اور بات یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ پاکستانی تنظیموں (حالانکہ اِن میں
تنظیم نام کا مادہ ہی سِرے سے ناپید ہوتا ہے مگر بحث کی خاطر قبُول کیئے
جانے کے سوا چارہ نہیں) کو بھی چاہیئے کہ یہ حق خالصتاً کشمیریوں کو دیا
جائے کہ وہ پہلی صف میں کھڑے ہوں اور آپ اُن کے ساتھ تاکہ دُنیا کو معلوم
ہو کہ آپ اخلاقی طور پہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو پیغام پاکستانی
تنظیمیں دے رہی ہیں وہ سادہ ترین الفاظ میں یہی ہے کہ شکم میں درد
پاکستانیوں کے ہے اور کشمیری برادری اِن کے ساتھ اخلاقاً کھڑی ہے۔ بہتر ہو
گا پاکستانی پاکستان کو مضبُوط کریں، کشمیری مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔ سگے
بھائی تک کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا مضبوط اور مربُوط ہونا لازمی ہے اور
اگر بات اپنی ہی شہ رگ کی ہو تو یہ کیا بات ہوئی کہ نعروں کی گونج آسمان تک
اور علم و عمل زمینی سطح کا بھی نہیں۔مقدمہ بہر حال کشمیر کایورپ کے طُول و
عرض میں بسنے والے کشمیریوں نے ہی پیش کرنا ہے ۔
ایک اور بات جو بین الاقوامی سطح پہ اِس مسئلہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
وہ ہے ذات، پاک اور مقدس گائے، جِس سے باہر نکلنے کی بجائے اندر ہی اندر
گُھلنا روا رکھا جاتا ہے۔ باتیں اور دعوے بُلند و بانگ ہیں مگر قابلِ قبول
وہی ہے جو المعرُوف المشہور نظر بظاہر رہنما صاحب جِس کے معترف ہیں اور جو
اُن کے ہاں مقبُول ہے۔ جدید دُنیا میں ایک ہی مسئلہ کے حل کے لئے مختلف
الخیال اور مُختلف العقیدہ لوگوں کا یکجا ہو کے کام کرنا قبُول کیا گیا ہے۔
جڑیں کاٹنا، افواہ پھیلانا، چُغلی کرنا ہمارے ہاں اِس لئے بھی ہے کہ
کارکنان زبان کے ’پکے‘ اور رہنما کانوں کے ’کچے‘ ہیں۔ یہ شاید اِس لئے بھی
ہے کہ کاٹنا ، پھیلانا، کرنا جیسے افعال کا کما حقہ ادا کرنا لازمی جُزو
سمجھ لیا گیا ہے اور شاید یہ رہنما کے قریب ترین (یہاں ترین کا مطلب وہی ہے
جو سطر میں بیان کیا گیا ہے) رہنے کا اُصول سمجھ کر اپنا بھی لیا گیا ہے۔
تعلیم یافتہ کو پیچھے دھکیلنا یا اُس کو صرف اِس لئے پیچھے کھڑا کرنا کہ
اپنی شان میں اضافہ ہو یہ لغو تو ہے ہی مگر مرد کبھی بُوڑھا نہیں ہوتا کے
مصداق یہ گُمان پالنا کہ جب تک دم میں دم ہے یہ کام صرف رہنما صاحب ہی کے
کرنے کا ہے ، یہ حماقت ہے۔ مگر جِس معاشرے کو عادت ہو صرف ایک اکلوتا پیدا
کرکے اُس کی پُوجا کرنے کی وہاں کوئی بھی ایسی بات جو رواج سے ہٹ کے ہو
بدعت ہی کہلائے گی۔
بین القوامی سطح پرتحریک آزادی کشمیر کے اصل معمار طلبہ و طالبات ہیں یا وہ
غریب الوطن کشمیری جو یہاں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں کہ جو کام یہ لوگ
کررہے ہیں اور کر سکتے ہیں وہ اکثر مُیسّریورپی کشمیری رہنما نہیں کر سکتے۔
مودبانہ عرض ہے کہ اگر صرف چار پانچ بڑی زبانوں میں یورپ بھر کی جامعات میں
طلبا و طالبات پہ مشتمل غور و فکر کرنے والی جماعتیں بنا دی جائیں اور ایک
جماعت کو ایک جیّدکشمیری رہنما اپنی رہنمائی سے فیض بخشے اور ان کشمیری
رہنماؤں اور طُلبا کے واقعی ذات سے بالا ہو کر آپس میں روابط ہوں تو دُنیا
جو سُننے کو تیار بیٹھی ہے وہ خیر ایسا مُشکل بھی نہیں کہ عِلم، عمل، دلیل
اور خطاب میں نہ لایا جا سکے۔آپ کو اپنے رہنما یہیں پیدا کرنے پڑیں گے، آپ
یہ کام طلبا کو سونپ دیں اور پھر کرامات دیکھیں۔ صرف طالبِ علم کے کلام میں
ہی وہ وزن ہے جِس کے متعلق کہا گیا کہ ملائکہ اپنے پر مس کرتے ہیں اور تبرک
حاصل کرتے ہیں۔ مسئلہ کو کافی زندہ رکھ لیا، اب اِس کے حل کی طرف آئیں
اوریہ کشمیر کے طلبا کر سکتے ہیں۔ایوانوں میں زلزلے برپا کرنے سے بہتر ہے
دُنیا کو علم اور دلیل کی روشنی کے ذریّعے منور کریں اور ساتھ ساتھ اپنا
ہلکا پُھلکا شغل بھی جاری رکھیں کہ آج کے طُلبا کل کے سیاستدان پالیسی
بنانے والے اورموثر افسران ہیں۔ آ پ آج میں رہ کر کل پہ سرمایہ کاری کر
سکتے ہیں اور اِس کے لئے میدان اور گھوڑا دونوں حاضر ہیں۔ |