شاہکار

تحریر: زینب نور (اوکاڑہ)
جو چہرہ اس کی چشم زدن میں تھا ہر وقت اسے بے چین و بے قرار رکھتا تھا۔ کئی کئی راتیں کروٹیں لے کر گزرتیں لیکن وہ اپنی بے قراری کو کوئی نام نہ دے پاتا۔ اس کو بت تراشی کا شوق تھا۔ یہ شوق بھی جنون کی حد تک تھا۔ وہ جب تک کوئی چہرہ اپنے ہاتھوں سے تراش نہ لیتا چین نہ لیتا۔ ہزاروں چہرے اس کے ہاتھوں تخلیق پا چکے تھے۔ وہ کبھی نہ تھکتا، جو چہرہ اس کو متاثر کرتا وہ اس کو بنا لیتا۔ اپنے اس شوق کی خاطر اسے گھر بھی چھوڑنا پڑا حالانکہ وہ ماں کا بے حد پیارا اور لاڈلہ تھا۔ باپ کو اس کے ساتھ ویسی ہی امیدیں وابستہ تھیں جوکہ ایک باپ کو بیٹے کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن وہ ان کی امیدوں کے برعکس اور ہی جہاں کا باسی نکلا۔

جیسے تیسے تعلیم مکمل کرکے ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرار کی ملازمت حاصل کرلی اور اپنے شوق کی خاطر گھر والوں سے کنارا کرلیا۔ اسے بس ایک ہی لگن تھی ایسا شاہکار تراشوں جو اس کی پہنچان بنے۔ اسی دھن میں نت نئے چہرے تراشتا تراشتا وہ ایک ایسا چہرہ تراش بیٹھا جو اس کو بے چین کرگیا اس کی نیندیں لے گیا۔

اپنے تراشے چہرے کو جب جب دیکھتا نئے جذبات سے آشنا ہوتا۔ وہ جذبات جن سے وہ اب تک نا آشنا تھا۔ باوجود کوشش کے وہ یہ یاد نہ کرپاتا یہ چہرہ اس نے کہا دیکھا جو اس کے ذہن کے پردوں میں ثبت ہوگیا۔ اس کے سر پہ جنون سوار ہوگیا ایک ہی چہرے کو تراشنے کا۔ وہ ایک ہی چہرے کو مختلف زاویوں سے تراشنے لگا۔ آنکھیں اتنی گہری کہ جیسے کئی راز ان میں پوشیدہ ہیں جو عیاں ہونے کو ترس رہے ہوں اور وہ ان رازوں تک پہنچنے کی سرتوڑ کوشش میں گھنٹوں آنکھوں کو تکتا رہتا اور راز تھے کہ عیاں ہوکے نہیں دے رہے تھے۔ کبھی ہونٹوں تراش کر گھنٹوں تکتا رہتا۔ ایسے ہونٹ جیسے گلاب کی پنکھڑی ہوں وہ اس چہرے کو غور سے تکتا تو جیسے صدیوں کے راز اس پر عیاں ہونے لگتے لیکن وہ ایک بھی راز تک نہ پہنچ پاتا۔ کبھی ان آنکھوں میں اپنا عکس دیکھنے کو ساری رات بتا دیتا۔ وہ اپنی اس کیفیت کو کوئی نام نہ دے پاتا لیکن وہ اس چہرے کو جنون کی حد تک چاہنے لگا۔

یہ چاہت محبت بہ تھی عشق کے مشابہ تھی۔ لوگ اس کو پاگل دیوانہ سمجھنے لگے لیکن وہ پاگل نہیں تھا۔ ہاں وہ دیوانہ تھا ایک ہی چہرے کا جس کو تراشنے کے لیے اس کے پاس بے تحاشا محبت اور عقیدت تھی۔ اگر اس کو جس کا چہرہ تراشتا تھا ذرا بھی اس درجہ محبت کا علم ہوتا تو وہ اس پہ اپنی جان ہی وار دیتی اور وہ اسے پانے کی حد سے بھی آگے نکل چکا تھا۔وہ لوگوں میں بت پرست مشہور ہوگیا۔ اس کے دوست احباب اس سے کترانے لگے۔ لوگ اسے پاگل خبطی سمجھنے لگے لیکن وہ اس کی پروا نہ کرتا اور اپنی دھن میں لگا رہتا۔ وہ اپنی دنیا میں خوش تھا۔ جہاں اس کی اپنی مرضی چلتی تھی۔ وہ کسی کا تابع نہیں تھا۔ وہ لوگوں میں بت پرست مشہور ہوگیا اور اس بات سے اسے سخت اور شدید اختلاف تھا کہ وہ بت پرست نہیں بت تراش ہے۔

کوئی اس کی بات کا یقین نہیں کرتا تھا۔ بت پرست نہ ہوتے ہوئے بھی وہ مجرم ٹھرایا گیا۔ اس کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔ وہ جس راہ کا مسافر تھا وہ جس عشق میں سانس لے رہا تھا وہ شعور اور لاشعور سے بالاتر تھا۔ اس کی واپسی ناممکن تھی وہ آگے ہی آگے سفر کرتا گیا اور ایک دن اس نے اس کو ایسا تراشا کہ اس کی دراز زلفوں کو سنوارتا اس کی گہری راز بھری آنکھوں میں ایسا ڈوبا کہ دنیا و مافیا سے بے خبر ہوگیا۔ کئی راز اس کے اندر ہی دم توڑ گئے۔ اس کا ایک ہاتھ اس کی زلفوں پہ تھا اور آنکھیں اس کی آنکھوں میں وہ تعظیما جھکتا ہوا اس کی گود میں گر کر دم توڑ گیا۔ ایک نیا شاہکار وجود میں آگیا۔ وہ بت پرست نہیں تھا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.