"بیٹی ! آج تو اپنے گھر کی ہونے والی ہے،اب تیری لاش ہی
اُس گھر سے نکلنی چاہیے ۔ اچھی بیٹیاں اپنے گھر میں ہی من لگاتی ہیں ۔ماں ،زیبا
کو رخصت کرتے سمے سب نصیحتیں کرتی جارہی تھی۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا ، زیبا کا جسم زخموں سے چور تھا، اس کے خواب
اس کی آنکھوں سے بہہ کر دریا برد ہوچکے تھے۔اس کی زندگی کا آغاز ہی بہت
دردناک تھا، وہ سوچ رہی تھی ،اتنا تشدد کیا میں عمر بھر برداشت کرسکونگی؟
اس نے خاموشی سے کلائی کی چوڑیاں پیس کر پھانک لیں۔ ماں کا کہا تو اس نے
عمر بھر نہیں ٹھکرایا تھا۔
|