محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ

حضرت محمد ﷺ571(AD) ء مکہ مکرمہ میں پیدا ہو ئے۔ آپ ﷺکے قبیلہ کا نام بنوقریش تھا ۔آپؐ کی پرورش آپﷺ کے دادا عبدلمطلب ؓنے کی کیونکہ آپؐ کے والد حضرت عبداﷲؓ وفات پا چکے تھے عرب کی روایت کے مطابق آپ ﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے دودھ پلایا اور آپ ؐ کو ساتھ لے کے چلی گئیں چھ(۶)سال کی عمر میں آپؐ کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ حضرت عبدلمطلبؓ نے آپؐ کی پرورش اور تربیت کی آپ ﷺ کی شادی پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ سے ہوئی اس و قت حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ حضرت خدیجہ ؓ ایک مالدار عورت تھی اور تجارت کرتی تھی انہوں نے اسلام کی راہ میں بہت مال قربان کیا اور آپؐ کا ساتھ دیا ۔آپ ؐ چالیس سال تک غار ثورمیں عبادت کرتے رہے ۔آپ ؐ پر پہلی وحی غار ثور میں نازل ہوئی جو حضرت جبرائیل ؑ لے کر آئے اور آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا آپ پر ایک کیفیت طاری تھی حضرت خدیجہ آپ ؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور آپ کے ساتھ ہونے والا واقعہ بتایا تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ یہ اﷲ کے نبی ہیں اور دعا دی اور کہا اس وقت میں زندہ رہوں جب آپ ﷺکو اہل عرب تنگ کریں۔

جب آپؐ نے نبوت کا اعلان کیا تو قریبی رشتے داروں نے ماننے سے انکار کیا اور سب سے زیادہ مخالفت ابوجہل نے کی جب آپﷺ نے اہل طائف کو دعوت اسلام دی تو آپ کے پیچھے اوباش لڑکے لگا دیے گئے جنہوں نے آپؐ کو پتھر مار کے لہولہان کر دیا یہاں تک کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے اتنے میں حضرت جبرائیل ؑ نبی کریم ﷺ کے بارگاہ میں حاضر ہویئے اور عرض کی اے اﷲ کے رسولﷺ اگرآپ حکم فرمائیں تو طائف کی وادی پر پہاڑ گرادوں تو آپؐ نے فرمایا میں رحمت العالمین بن کر آیا ہوں یہ لوگ مجھے نہیں جانتے اﷲ ان کو ہدایت دے میں ان کا خیرخواہ ہوں آپ ؐ کو اہل عرب بہت تنگ کیا اس کے باوجود آ پؐ نے دعا دی آپؐحسن واخلاق کے اعلٰی درجے پرتھے آپ ؐ کی زندگی محبت شفت اور عنائت سے گزری کسی کو بددعا نہیں دی آپؐ یتیموں کے والی بے کسوں کے سہارا بنے ہمیشہ غریبوں کا ساتھ دیا۔ سائل کو کبھی خالی ہاتھ نہیں موڑتے تھے لوگ آپؐ کا اخلاق دیکھ کر مسلمان ہو جاتے تھے آپؐ کی شخصیت بے مثال تھی آپؐ کی گفتگو کا انداز نرالا تھاآپؐ کے چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی ۔آپؐ کی پیشانی پہ کبھی غصہ نہیں آیا ۔آپؐ صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جانوروں ،پرندوں اور پوری کائنات کے لیے رحمت ہیں۔قرآن پاک میں ارشاد ِ باری تعالی ہے ’’ اور ہم نے آ پ کو دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا‘‘ جانوروں اور درختوں کوبھی آپؐ سے پیار تھا ۔آپؐ راستے سے گزرتے تو درخت آپ کوجھک کر سلام کرتے تھے آپؐ کی حیات طیبہ پوری انسانیت کے لیے ایک نمونہ ہے ۔آپ کی حیات طیبہ کو تمام مزاہب تسلیم کرتے ہیں ۔آپؐ صادق اور امین تھے یہاں تک غیر مسلم بھی آپ کو امانتے دیا کرتے تھے امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسٹیٹمنٹ دی کہ آپؐ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے تھے ۔ ٓٓ

جب حضور اکرم ﷺ کو کفار نے آپ کی عدالت کو مانا ،آپ کو امین اور صادق مانا تو مسلمان اپنے پیارے رسول ﷺکی اطاعت چھوڑ کر مغربی تہذیب میں شامل ہو گئے جب اﷲ تعالی فرماتا ہے’’ ؛ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی گویا اس نے اﷲ کی اطاعت کی‘‘ پھر آگے اﷲ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم اﷲ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو محمد ﷺسے پیار کرو یہ تمہاری محبت اﷲ کی محبت ہو گی‘‘ یہاں میں علامہ اقبال کا شعر لکھنا چاہتا ہو ں
کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں
یہ جہاں کیا چیز ہے لوح و قلم تیرے ہیں

اﷲ تعالی فرماتے ہیں اے انسان تو محمد ﷺ سے وفا کرو یہ جہان کچھ بھی نہیں میں تجھے لوح و قلم عطا کروں گاآگے پھر ارشاد فرمایا ’’ اور حقیقت تم لوگوں کے لیے رسول ﷺ ایک بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کے لیے جو اﷲ تعالی اوریوم ٓاخرت کا امیدوار ہو‘‘ نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس بعث رحمت ہے ایک دفعہ نبی اکرمﷺ ایک جگہ سے گزر ہوا ساتھ صحابہ اکرام بھی تھے صحابہ کرام رضوان اﷲ نے چڑیا کے بچے اٹھا لیے اور وہ چڑیا رونے لگی اور صحابہ کے پیچھے اڑ رہی تھی آپ ﷺ نے صحابہ سے پوچھا اس چڑیا کو کس نے پریشان کیا ہے کہا اے اﷲ کے رسول ہم نے چڑیا کے بچے اٹھالیے ہیں آپﷺ نے فرمایا چڑیا کے بچے واپس کرو ۔آپ کو پرندوں سے پیار تھا آپ جانوروں سے پیار کرتے تھے آپﷺ کا جنگل سے گزر ہوا تو ایک ہرنی رو رہی تھی آپ قریب جا کے پوچھا تو ہرنی نے جواب دیا میرے بچے بھوک سے مر رہے ہیں مجھے یہاں قید کیا گیا ہے آپ ﷺ نے اس ہرنی کو آزاد کر دیا ہرنی نے وعدہ کیا میں واپس آ جاؤں گی جب اسکا مالک واپس آیا تو وہ رسول ﷺ سے ناراض ہوا تم نے ہرنی کو کیوں آزاد کیا ہے آپ نے فرمایا ہرنی نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ واپس آئے گی مالک نے کہا کبھی جانور بھی وعدہ پورا کرتے ہیں ابھی باتیں کر رہے تھے ہرنی دودھ پلا کے واپس آ گئی یہ واقعہ دیکھ کر وہ ہرنی کا مالک میرے پیارے نبی کا گرویدہ ہو گیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔

آپ ﷺ کو جانوروں سے پیار تھا انسانیت کو اس سے زیادہ پیار تھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اس بڑھیا کی خدمت کی جو آپ پرکوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی آپ ﷺ ایک بڑھیا کا سامان دوسرے شہر میں پہنچایا جو آپ کو جادو گر سمجھ کر ہجرت کر رہی تھی جب عورت نے پوچھا اے شخص تو کون ہے ؟ آپﷺنے فرمایا جسے تو جادو گر سمجھ کرہجرت کر رہی ہے میں وہ محمدﷺ ہوں وہ عورت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئی ۔ایک شخص کا آپ نے کا ادھار دینا تھا وہ شخص آیااور آپ کے گلے میں رومال ڈال کے آپ کو پریشان کیا یہاں تک کہ آپ چہرہ اقدس سرخ ہو گیا صحابہ کرام آگے بڑھے کہ اس شخص کو روکا جائے آپ نے روک دیا فرمایا میں اس کا قرض دار ہوں وہ جو سلوک چاہے وہ کر سکتا ہے چاہے تو سرکار ان سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن پھر بھی صبر کرنے کا مظاہرہ کیا آپ کی رحمت و شفقت و مغفرت کا درجہ یہ آپﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس کا کلیجہ چبانے والی عورت ہندہ کو بخش دیا فتح مکہ کے موقع پر تمام کفار آپ ﷺ کے قبضہ میں آ گئے آپ نے تمام کفار کو معاف کر دیا اور فرمایا جو ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا اس کو بھی معاف کر دیا جائے گا چاہے تو آپﷺ کفار سے انتقام لے سکتے تھے لیکن پھر بھی سرکار دو عالم نے معاف کیا اور عفوو درگزر کا سبق دیا آپ کی ذات اقدس وعدہ کی پاس داری کرتے تھے ایک شخص آپ کا سفر کر رہے تھے راستے میں اس شخص نے کہا میں گھر سے ہو کے آتا ہوں تین دن گزر گئے لیکن وہ واپس نہ آیاتین دن کے جب دیکھا سرکار وہیں کھڑے ہو کے انتیظار کر رہے تھے وہ شخص بڑا شرمندہ ہوااور معافی چاہی یہ تھی سرکا ر کی زندگی جو مکمل طور پہ اخلاق حسنہ سے بھری ہے آپﷺکے اخلاق حسنہ کی وجہ سے درختوں کو بھی آپ سے پیار تھا آپ جمعہ کے دن ایک خشک درخت کے تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے صحابہ اکرام کے اسرار پرآپﷺ کے لیے منبر بنایا گیا جب پر بیٹھ کر آپ خطبہ دینے لگے تو وہ خشک درخت کا ٹکڑا رونے لگا یہاں تک مؤرخین لکھتے ہیں وہ درخت سسکیوں کے ساتھ رونے لگا آپ منبر سے نیچے اترے اور درخت کو تھپکی دی اور پیار دیا اور اس کے اوپر ہاتھ پھیرا اﷲ کی رحمت سے وہ درخت کا خشک حصہ جو کافی عرصے سے خشک تھا ہرا ہو گیا ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا یا رسول اﷲ قیامت کب آئے گی آپ نے فرمایا تم نے قیامت کی تیاری کر لی اس نے کہا کچھ بھی نہیں بس سرکار آپ سے پیار کرتا ہوں قیامت کے اس کے ساتھ ہو گا جس سے پیار کرتا ہو گا اب دیکھیں محبت یہ مقام ہے سرکار سے محبت کرنے کا اجر جنت ہے حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کا صلہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

سرکار ﷺایک بہترین مہمان نواز تھے ایک بدو کو آپ ﷺ نے رات کو مہمان ٹھرایا خوب کھانا کھلایا رات کو سونے کے لیے بہترین بستر دیا اس بدو نے بستر پر پیشاب کر دیا اور صبح سویرے بھاگ گیا جب اسے خیال آیا میری انگوٹھی رہ گئی ہے پھر واپس آیا تو دیکھا حضور رحمت خود اپنے ہاتھوں سے بستر دھو رہے تھے وہ بدو بہت شرمندہ ہوا سرکار کے اس عمل سے حیران ہوآخری خطبہ ارشاد فرمایااورکہا اے لوگو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری اہل بیت اطہاراگر تم اس کی پیروی کرو گے تم کامیاب ہو جاؤ گے افسوس اس بات کا ہے ہم حضور اکرم کی سیرت کو چھوڑ کر اپنے مسلک اور اپنا دین بنا لیا امت مسلمہ اسی وجہ سے پوری دنیا میں رسوا ہے ہم قرآن اور سیرت کو چھوڑ دیا علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ’’ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ،تم خوار ہوئے تارک قراں ہو کر‘‘ اگر ہم سرکار کی سیرت پہ چلتے تو ہمارا پوری دنیا میں مقام ہوتا میں اپنے کالم کا اختتام اپنے والد صاحب ڈاکڑ غلام فرید درانی کے ان اشعار پہ کرتا ہوں سب کے پیارے نبیﷺ جان جاں محترم سرور انبیاء تاجدار آ گیا ، روح نسانیت کو قرار آگیا بے نواؤں کا جب غمگسار آ گیا ۔

Waseem Khan Durrani
About the Author: Waseem Khan Durrani Read More Articles by Waseem Khan Durrani: 9 Articles with 7488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.