تابوتِ سکینہ
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
تابوتِ سکینہ (Ark of the Covenant) تینوں آسمانی مذاہب — یہودیت، عیسائیت، اور اسلام — میں ایک نہایت محترم اور پراسرار شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک صندوق نہیں، بلکہ ایک روحانی علامت، مذہبی میراث، اور الٰہی طاقت کی نشانی تھا جسے بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق ، انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جانشینوں کے دور میں خدا کے حکم سے محفوظ کیا تھا۔ لیکن تابوتِ سکینہ کہاں ہے؟ کیا یہ حقیقتاً موجود تھا؟ اگر تھا، تو اب کہاں غائب ہے؟ ان سوالات نے صدیوں سے محققین، مؤرخین، مہم جوؤں، اور مذہبی عقائد کے ماننے والوں کو متجسس رکھا ہے۔ تابوتِ سکینہ کیا تھا؟ تابوتِ سکینہ ایک مقدس لکڑی کا صندوق تھا جو تقریباً ساڑھے تین فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ڈھائی فٹ اونچا تھا، اور خالص سونے سے منقش تھا۔ تورات کے مطابق، اس میں درجِ ذیل مقدس اشیاء رکھی گئی تھیں الواحِ موسوی (تختیاں جن پر دس احکام درج تھے) ، حضرت ہارونؑ کا عصا منّ و سلویٰ کا نمونہ، کچھ دیگر مقدس یادگاریں یہودی عقیدے کے مطابق، تابوت سکینہ میں خدا کی موجودگی کا عکس تھا، اور جب بنی اسرائیل کسی جنگ پر جاتے تو وہ اسے آگے لے کر چلتے، اور یہی ان کے لیے فتح کی علامت ہوتا۔ قرآنِ کریم میں تابوتِ سکینہ کا ذکر سورہ البقرہ، آیت 248 میں موجود ہے: "اور ان کے نبی نے ان سے کہا: اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان اور کچھ باقی ماندہ چیزیں ہوں گی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون نے چھوڑیں، اور اسے فرشتے اٹھائے ہوں گے۔" اس آیت کے مطابق، تابوت سکینہ صرف مادی صندوق نہیں بلکہ روحانی سکون اور ربانی تسکین کا مرکز بھی تھا، اور یہ حضرت طالوت علیہ السلام کی بادشاہی کی علامت بنا۔ تابوت سکینہ کا آخری مصدقہ تاریخی ذکر تقریباً 586 قبل مسیح میں آتا ہے، جب بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد یہ صندوق اچانک تاریخ سے غائب ہو گیا۔ مورخین کے مطابق، تابوت: تباہ کر دیا گیا، چھپا دیا گیا فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا گیا بحرِ مردار یا غاروں میں دفن کر دیا گیا تاہم ان میں سے کوئی نظریہ قطعی ثبوت کے ساتھ ثابت نہیں ہو سکا۔ تابوت سکینہ کی تلاش: جدید کوششیں اور نظریات تابوتِ سکینہ کو تلاش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، جن میں مذہبی علماء، آثارِ قدیمہ کے ماہرین، حتیٰ کہ خفیہ ایجنسیاں اور مغربی صیہونی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ چند مشہور نظریات درج ذیل ہیں: ایتھوپیا کا دعویٰ: ایتھوپیا کی ایک قدیم چرچ کا دعویٰ ہے کہ تابوت ان کے پاس ہے اور اسے "آکسوم" (Axum) شہر میں انتہائی حفاظت سے رکھا گیا ہے، لیکن کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔ بحرِ مردار کے غار: کچھ محققین کا خیال ہے کہ تابوت کو بنی اسرائیل کے کچھ نیک افراد نے بحرِ مردار (Dead Sea) کے قریبی غاروں میں چھپا دیا۔ یہودا کے پہاڑ: کچھ اسرائیلی مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ تابوت ہیکل کے نیچے تہہ خانوں میں دفن ہے، اور اسی بنیاد پر وہ مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائیاں کر رہے ہیں۔ آسمانی مقام: اسلامی روایات میں بھی ایک رائے یہ ہے کہ تابوت کو فرشتے اٹھا لے گئے اور وہ قیامت سے پہلے واپس آئے گا۔ تابوتِ سکینہ اور جدید سیاست تابوتِ سکینہ اب صرف ایک مذہبی یا تاریخی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ صیہونی سیاست کا ایک کلیدی عنصر بن چکا ہے۔ بعض یہودی تنظیمیں تابوت کو مسجد اقصیٰ کے نیچے موجود مانتی ہیں، اور اسی بنیاد پر الاقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک تصور ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مقام مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، اور اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی پوری امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہے۔ تابوتِ سکینہ تاریخ، عقیدہ اور روحانیت کا ایک نادر امتزاج ہے۔ اس کی حقیقت کے بارے میں آج بھی مکمل یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس پر عقیدے کی شدت اور سیاسی مقاصد کی آمیزش نے اسے ایک پرخطر بحث بنا دیا ہے۔ |
|