آپ نے ٹیکنالوجی کی چیزوں مثلا لیپ ٹاپ موبائل وغیرہ میں
جنریشن کا لفظ استعمال ہوتے دیکھا ہوگا۔ جیسے آئی تھری فورتھ جنریشن۔ آئی
سیون نائن جنریشن وغیرہ۔ بالکل اسی طرح انسانوں کی تقسیم بھی مختلف جنریشن
میں کی جاتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ انیس سو اکسٹھ(1961) سے انیس سو
اکیاسی(1981) کے درمیان پیدا ہوئے ہیں انھیں جنریشن ایکس کہا جاتا ہے،کہتے
ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ تبدیلیاں جنریشن ایکس نے ہی
دیکھی ہیں ، کیونکہ جنریش ایکس کے دور میں زمانے اتنا زیادہ اور اتنی تیزی
سے بدلا ہے کہ پچھلے زمانے کا کوئی انسان آج آجائے تو چکرا کر رہ جائے گا۔
جنریش ایکس اس انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی اور سائنس کی ترقی کے عین
موقع پر پیدا ہونے والے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے ان چیزوں کو بھی
دیکھا جو صدیوں سے انسانوں کے زیر استعمال تھیں اور ان کو بھی دیکھا جو
اچانک سے ایجاد ہوئیں اور چھا گئیں۔
مہمان کے آنے پر مرغی کو بھگا بھگا کر پکڑنے سے لے کر فارمی مرغی کے پھٹے
پر ٹھک ٹھکا ٹھک تک۔سارا دور اس جنریشن نے دیکھا۔
پردہ سکرین سے لے کر ہولوگرام اور وی آر ٹیکنالوجی تک۔ ٹانگے سے لے کر
میٹرو ٹرین تک۔ تجوریوں سے لے کر ماسٹر کارڈ تک۔تار مارنے ، فیکس کرنے سے
لے کر ایس ایم ایس اور وٹس اپ تک۔ پرانے ریکارڈر سے یوایس بی سٹک تک۔بلیک
اینڈ وائٹ ٹی وی سے لے کر سمارٹ ایل سی ڈی تک۔ڈائل گھمانے والے فون سے لے
کر ٹچ سکرین اور وائس ڈائل سمارٹ فونز تک۔پتنگ اڑانے سے ڈرون اڑانے تک۔
صدیق دی ہٹی سےلے کر ایمازون اور دراز پی کے تک۔پیتل کی تار سے لے کر وائی
فائی تک۔ چور پکڑنے والے کتوں سے لے کر سی سی ٹی وی کیمروں تک۔عشاء کے بعد
دادی جان کی کہانیوں سے لے کر فیس بک اور سوشل میڈیا میں گم ہونے تک۔
ڈسپرین کے فضائل سے لے کر ڈسپرین کے نقصاندہ قرار دیے جانے تک۔سڑک کنارے
لگی مداری دیکھنے سے لے کر سوشل میڈیا کی لائیو سٹریم تک۔ سپیرے کی پٹاری
میں چھپے عجیب سانپ کو دیکھنے کی جستجو سے لے کر یوٹیوب پر جدید چیزوں کی
اَن باکسنگ دیکھنے تک۔دلہن کی ڈولی سے لے کرپھولوں سے سجی لیموزین کارتک۔
شکر ، دیسی گھی ملے سفید چاولوں کے ولیمے سے لے کر میرج ہال کی بے شمار
ڈشوں تک۔کلینڈر سے لے کر ٹکٹنگ آفیسر تک۔ پھیری والے بابوں سے لے کرایم بی
اے کیے ہوئے مارکیٹنگ کے بابووں تک۔ہاتھ والے پنکھوں سے لے کر سولر اے سی
تک۔ لالٹین اور دیے جلانے سے ایل ای ڈی تک۔جندر سے لے کر فلور مل تک۔ سحری
و افطاری کے وقت ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس قرآن سے لے عامر لیاقت کی
فنکاریوں تک۔ صدرپاکستان ایوب خان کے امریکا میں تاریخی استقبال سے لے کر
وزرائے اعظم کے جوتے اتارنے تک۔ علاقے کی پنچائیتوں اور جرگوں سے لے کر
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس تک۔سدھائے ہوئے کتےاور بندروں سے لے کر آرٹیفیشل
انٹیلی جنس(اے آئی ٹیکنالوجی) تک،اپنے سینوں میں عروج و زوال ، تغیر و
تبدیلی کی ہزاروں داستانیں چھپائے ہوئے ہیں۔
انسانوں کی یہ جنریشن بڑی قیمتی ہے،کبھی جنریشن ایکس سے تعلق رکھنے والے
کسی انسان کے پاس بیٹھ کر ماضی کی یادیں ، حالات کی تبدیلیاں اور وقت کے
تغیرات کریدنا شروع کریں، مجھے یقین ہے کہ آپ کو بہت کچھ سننے کو ملے
گا۔بعض ممالک میں ان کے پاسپورٹ پہ بھی باقاعدہ ایکس جنریشن درج ہوتا
ہے۔جنریش ایک 1961 سے 1981 کے دورا ن پیدا ہونے والوں کو جبکہ جنریشن وائی
1982 سے 1995 تک پیدا ہونے والوں کو۔ اور جنریشن زیڈ 1995 سے 2012 کے دوران
پیدا ہونے والوں کو کہا جاتا ہے۔ جنریشن ایکس چونکہ پچھلے اور اگلے یعنی
پرانے اور جدید دور اور ان کی چیزوں کو دیکھ چکی ہے اس لیے اگلے پندرہ بیس
سال بعد جب دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گی، اور یہ جنریشن دادا ابو اور
دادی جان کی سیٹ پر بیٹھ جائے گی، تب پوتے پوتیاں اور نئی نسل کے نوجوان ان
کی پرانی اور اپنے بچپن کے زمانے کے حالات، کہانیوں اور روز مرہ کی زندگی
کی چیزوں کے بارے سن کر حیرت زدہ بھی ہوں گے اور شاید یقین بھی نہ آئے۔
|