انسان ساری عمر اپنی محدود سوچ کے دائروں میں حرکت کر تا
رہتا ہے ‘ انسان دنیاوی خوا ہشات کے لیے اپنی مرضی کے خوابوں کی تعبیر
دیکھتا رہتا ہے یہی کو شش گو تم بدھ کا باپ کر تا رہاتھا‘ جوتشیوں نے جب
اُسے بتا یا تھا کہ تمہارا شہزادہ بیٹا بڑا ہو کر جو گ یعنی رہبانیت اختیار
کر کے جنگلوں کو اپنا بسیرا بنا ئے گا تو راجا نے مسلسل یہ کوشش کی کہ اُس
کے تخت کا وارث جو گ اختیار نہ کر ے ‘ اساتذہ کی یہ ڈیو ٹی لگا ئی کہ اُسے
ایسی تعلیمات دی جائیں جن میں جو گ بیزارگی ہو یعنی شہزادہ جو گ کو اچھا
خیال نہ کر ے کبھی اگر کو ئی شہزادے کے سامنے جو گ کا نام بھی لے تو شہزادہ
اُس سے نفرت کر ے لیکن انسان ہزاروں چالیں چلتا ہے خدا صرف ایک چال چل کر
انسان کی ہزاروں کو ششوں کو پانی کے بلبلے بنا دیتا ہے جو چند لمحوں کے لیے
سطح آب پر ابھرتے ہیں پھر ہمیشہ کے لیے فنا کا جا م پی لیتے ہیں ‘ راجا نے
بیٹے کو الگ تھلگ مخصوص اساتذہ سے مخصوص تعلیم دلا ئی آبادیوں سے دور رکھا
لیکن آج جب سدھارتھ گو تم نے بیما ری بڑھا پا اور پھر مو ت کے بعد انسان کی
بے بسی دیکھی تو اُس کے اندر غور و فکر اورتجسس کی دبی چنگا ری شعلے کا روپ
دھا ر گئی ‘ بیما ر بو ڑھے اور لاش کو دیکھنے کے بعد شہزادہ گھو ڑا گا ڑی
پر غلاموں کے ساتھ آگے بڑھا تو ایک سادھو پر نظر پڑی جس نے گیروا لباس پہنا
ہوا تھا اُس کے چہرے پر غم درد اداسی بے قراری اور پریشانی کے تاثرات کی
جگہ اطمینان و سکون کے نور کا اجا لا پھیلا ہوا تھا شہزادے نے حیران ہو کر
پو چھا یہ کون ہے جو اِس غم و مصیبت سے بھری ہو ئی دنیا میں کتنے آرام سے
خوش و خرم مست دنیا کی پریشانیوں سے بے نیا ز پھر رہا ہے شہزادے کو بتا یا
گیا کہ یہ سادھو ہے جو دنیا کو جان چکا ہے جو دنیا کے ہنگاموں کو تر ک کر
چکا ہے شہزادے کو یہ بند ہ بہت اچھا لگا اُسے اپنی فطری بے چینی بے قراری
غم زدگی اداسی کا علاج اِس شخص میں نظر آیا کہ جس طرح یہ سادھو اندرونی
دکھوں سے نجات پا کر خو ش و خر م پھر رہا ہے کیوں نہ میں بھی اِسی راستے کو
اپنا کر اپنے با طنی کر ب دکھ سے نجات پا جاؤں اپنے اس خیال کا اظہار
شہزادے نے اپنے استا د سے بھی کر دیا تو وہ یہ سن کر بہت پریشان ہو گیا
کیونکہ اُسے بھی جوتشیوں کی وہ پیش گو ئی یا د آئی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر جو
گ کہ راہ اپنا لے گا دنیا تخت اوراقتدار کو ٹھو کر ما رکرغموں سے نجا ت کا
حل ڈھونڈنے کے لیے آبا دی چھو ڑ کر جنگل کی راہ لے گا ۔ باپ نے ایک طریقہ
اور لگا یا کہ جب گو تم انیس بر س کا ہوا تو اُس کی شادی یشو دھرا سے کر دی
‘ شادی کے بعد بھی گو تم کو با طنی سکون نہ ملا اُس کی بے قراری میں کمی کی
بجائے اور اضا فہ ہو گیا ایک سال بعد جب گو تم کے ہا ں بیٹا پیدا ہوا تو
درد بھر ی آہ بھر کر کہا لو ایک اور زنجیر میرے پاؤں میں ڈال دی گئی ہے گو
تم کا فطری اضطراب اور غو رو فکر اُسے آبا دیوں سے دور جا نے پر اکسا رہا
تھا پھر گو تم کی زندگی کا وہ اہم ٹرننگ پوائنٹ آگیا جس کا فطرت نے پہلے سے
طے کیا ہوا تھا محل میں سالانہ تہوار کی تقریب شاندار طریقے سے منانے کا
پروگرام بنا ‘ شاندار کھانے تیا ر کرا ئے گئے ناچ گانے کا ہنگامہ خوب برپا
ہوا سدھار ت نے انسانوں کو شراب نوشی اور رنگ رلیوں ناچ گانے میں جانوروں
کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ گھتم گھتا دیکھا تو انسانوں سے اور بھی بیزاری
پیدا ہوگئی ناچ گانے والے رقاص خوب دھما چوکڑی کے بعد نشے کی حالت میں فرش
پر چاروں طرف بے ہو ش پڑے تھے وہی گلو کار جن کے گلوں سے سریلے نغمے نکل
رہے تھے نشے میں دھت جانوروں کی طرح اُن کے گلو ں سے اب بے ہنگم قسم کے
خراٹے دھاڑوں کی صورت میں نکل رہے تھے کاجل اور غازے کی تہوں میں خو بصورت
چہرے جب مسخ ہو ئے تو ان کی اصل صورتوں پربکھرے ہو ئے کاجل اور غازے نے بد
صورتی پیدا کر دی ‘ انسانوں کی اصلی شکلیں اور حقیقت دیکھ کر شہزادے کا دل
اور بھی اچاٹ ہو گیا ‘ کرا ہت انگیز منا ظر دیکھ کر گوتم نے فیصلہ کر لیا
اب یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں لیکن آخری بار اپنی بیوی یشو دھرا اور بیٹے
رہل پر نظر ڈالی اوراقتدار شاہی محل اور تخت و تاج کو ٹھو کر مار کر محل کے
با ہر آگیا جہاں اُس کا غلام اُس کے محبوب گھوڑے کے ساتھ اُس کا انتظار کر
رہا تھا اس کے ساتھ شہزادے نے ندی کا رخ کیا وہاں پہنچ کر اپنی زلفیں کاٹ
دیں سادھو کا حلیہ بنا یا جو گیوں والا لمبا گیروا کر تا پہنا غلام اور گھو
ڑے کو الوداع کیا ندی کو پار کیا سنیاس کی دنیا میں داخل ہو گیا ۔ ان دنوں
میں جو گ سنیا س پہلے سے عام تھا تو بہت سارے حساس غم زدہ لوگ شہروں کی
ہنگامہ خیز زندگی پھیکی زندگی سے بیزار ہو کر فطرت کی دنیا جنگلوں میں آبسے
تھے ۔ جنگلوں میں یہ جو گی مختلف ٹو لیوں میں خیموں اور جھونپڑوں میں خاک
نشین تھے یہاں پر شہروں کی ہنگامہ خیز یاں نہیں تھیں فطرت تھی فطرت کے
نظارے اور شہروں سے اکتائے ہو ئے یہ لوگ تلاش حق کے مسافرتھے جن میں ایک
اور مسا فر کا اضافہ ہو گاتو جس نے مشیت الٰہی کے اشارے کے تحت عقل و دانش
کے سمندر میں غو طے لگا کر حقائق کے مو تی چن کر انسانوں میں بانٹنے تھے ۔
گو تم نے دریا پار کیا تو اُس کا واسطہ پانچ سنیاسیوں کی ٹولی سے ہوا جن کے
نام کندن ‘ بھا ویا ‘ مہانام‘ وپا اور آساجی تھے گوتم نے چند ماہ اِن
سنیاسیوں کے ساتھ گزارے اِن کے مخلص روئیے نے گوتم کو بہت متا ثر کیا لیکن
اندرونی اضطراب اور پیاس ابھی قائم تھی ‘ تشنگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا
رہی تھی چار پانچ مہینے یہاں گزارنے کے بعد سدھارتھ یہاں سے اگلی منزل کی
طرف روانہ ہو گیا ۔ جنگل گردی میں اُس کا ٹاکرا کئی جوگیوں کی ٹولیوں سے
ہوا لیکن اُس کے سوالوں اور من کی شانتی کے جواب اُن کے پاس نہیں تھے اِس
لیے وہ چند دن گزارتا آخر آگے بڑھ جاتا آخر کار تھک ہار کر گو تم نے سوچا
اب اپنے وجدان عقل و شعور کی کھڑکی کو کھولا جائے اپنے من کو کھو جا جا ئے
اپنے باطن میں ڈوبا جائے اپنی ذات کے پر دے سرکائے جائیں اگلے چھ سال گو تم
نے اکیلے جنگل میں گزارے تنہائی فطرت فطری مظاہر خدا جنگلی جڑی بو ٹیوں
اورپھلوں پر گزارا تھا گر می سردی کے مو سموں نے اُس کی سوچ کو پختگی دی یہ
چھ سال گو تم خود سے ہمکلام تھا اپنی ذات کا مراقبہ تھا ۔ یہاں کو ئی انسان
کتاب لیکچر ز مطا لعہ نہ تھے فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اُس سے ہم
کلام تھی خاموشی کا روزہ تھا تنہا ئی تھی گو تم تھا یہاں پر گو تم نے جنگلی
درندوں کی درندگی بھی دیکھی جانوروں پر ندوں کی بو لیاں بھی سنیں مسلسل بھو
ک پیا س سے گوتم کمزوری کی آخری حدوں تک پہنچ گیا تھا بس ہر کثافت لطافت
میں ڈھلنے کا عمل شروع اوربے ہو شی کے قریب تھا کہ فطرت نے آخری چال چلی گو
تم بُدھی ( دانش ) کے درخت کے پاس آکر مراقب ہو گیا ۔ انچاس دن بے حس و
حرکت حالت ِ مراقبہ میں بیٹھا رہا تیز مو سلا دھار بارش میں ناگ نے اپنے سر
کی چھتری گو تم پر تان کر اُسے بارش سے بچایا کثافت لطافت میں ڈھلی گوتم نو
ر کا پیکر بنا الہامی معلومات شیشہ قلب پر اُترنے لگیں شکوک کے بادل چھٹنے
لگے عرفان کے اجالے نے گو تم کو لپیٹ میں لے کر ظاہری با طنی کثافتیں دھو
ڈالیں گوتم عرفان کے نور میں نہا گیا ۔ گو تم حقیقت کے مو تی چننے کے بعد
اب قدرت کے قانون کے تحت آبادی کی طرف بڑھا تو راستے میں وہی پانچ سنیاسیوں
سے ملاقات ہو ئی جن سے وہ پہلے مل کر گیا تھا سنیاسیوں نے گوتم کے چہرے کا
نور دیکھا تو متحیر رہ گئے تو گو تم نے نجات کا طریقہ بتایا اورآٹھ باتوں
کی تلقین کی ۔ دھیان ‘ فہم ‘ قول ‘ عمل ‘ روزی کی کمائی ‘ کو شش ‘ تدبر ‘
خیال ۔ اِس طرح خالقِ کائنات نے ایک اور انسان کو کائناتی رازوں سے آگاہی
دے کر اُس سے انسانوں کی راہنمائی کا کام لیا ۔ |