سیٹ اپ اور مائنڈ سیٹ

 پاکستان میں'' خوشحالی اورہریالی '' کیلئے چہروں سے زیادہ نظام کی'' تبدیلی ''ناگزیر ہے۔گڈگورننس کیلئے''سیٹ اپ'' کی تبدیلی کافی نہیں بلکہ ارباب اقتدارکواپنااپنا''مائنڈسیٹ ''بھی بدلناہوگا۔عمران خان کا''نام'' میاں نوازشریف اوربینظیر بھٹو سے مختلف ہے مگران تینوں کے'' کام''میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ، نیک نیت،مستقل مزاج اورکرپشن سے بے نیاز نیازی کو کامیابی کیلئے کچھ منفردکرناہوگا ۔کپتان آئی ایم ایف کی بجائے اوورسیزپاکستانیوں سے رجوع کرتے تویقیناان پرپیسہ برستا۔ ذوالفقارعلی بھٹوسے عمران خان تک عوام کیلئے'' گھر'' بنانے کادعویٰ کرنے کے بعد ہروزیراعظم خوشامدیوں میں کیوں'' گھِر'' جاتا ہے۔جومٹھی بھرلوگ بینظیر بھٹو اورنوازشریف کے مشیررہے آج وہ عمران خان کومشورے دیتے ہیں،کپتان خوشامدیوں کی باتوں پرکان دھرنے کی بجائے پاکستانیوں کی نبض پرہاتھ رکھیں اورنتیجہ اﷲ تعالیٰ پرچھوڑدیں۔توہین کرنادشمنی مگرخوشامدکرنابدترین دشمنی ہے جبکہ تنقید کرنیوالے دوست ہوتے ہیں۔عمران خان اپنے پیشرووزرائے اعظم سے کچھ مختلف کرتے ہوئے شہریوں کو ''کوارٹر''نما گھروں کی بجائے آسانی ،آسودگی اورباعزت روزگار دیں جس سے وہ اپنے خوابوں کے مطابق محلات تعمیرکر سکیں۔عوام کی'' خودداری'' کاراستہ ''خودانحصاری'' سے ہوکرگزرتا ہے،ا ن کا اپنی بنیادی ضرورتوں کیلئے حکمرانوں کی طرف دیکھنا بلکہ دیکھتے رہنا ان کے ساتھ ساتھ ریاست کیلئے بھی سودمند نہیں ۔پاکستان کے لوگ سات دہائیوں سے حکمرانوں کاآناجانا دیکھ رہے ہیں،ملک عزیزمیں عوام دوست نظام کاقیام ازبس ضروری ہے۔ایسانظام جس سے شہری یکساں بنیادوں پرمستفید ہوں ،جہاں کوئی نادارو مفلس بیمار جدیدطبی سہولیات کیلئے اپنی عزت نفس کی قیمت پر ارباب اقتدار سے ''اپیل ''کرے اورنہ ان کے نام درخواست دے ۔

ایوان اقتدار کی دیواروں پرلٹکائے جانیوالے قیمتی ''فریم'' میں محض'' تصویر'' تبدیل کرنے سے پاکستانیوں کی'' تقدیر''نہیں بدلے گی ۔پاکستانیوں نے تبدیلی کادیرینہ خواب شرمندہ تعبیر اوربہتری کی تدبیر کرنے کیلئے انتھک کپتا ن عمران خان کو وزیراعظم منتخب کیا،خدانخواستہ عمران خان ناکام ہوگئے توپھردوسیاسی خاندانوں کے ہاتھوں بدترین انتقام عوام کامقدربن جائے گا۔کپتان تبدیلی کیلئے موزوں ٹیم ممبرز کے انتخاب میں ناکام رہے،دوچاروزیروں کے سواباقی وزاء عوام اورنظام پر بوجھ ہیں تاہم کپتان اپنے جنون سے کایاپلٹ سکتا ہے ۔اگرعمران خان سنجیدگی سے اپنے ایجنڈے کوپایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں توانہیں''بزدار ''کی بجائے کسی ''بردبار'' کاہاتھ تھامنا ہوگا کیونکہ انسان اپنی صحبت سے پہچاناجاتا ہے۔کسی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کبھی دسویں نمبرپرکھیلنے والے بلے بازکواوپننگ کرنے کیلئے نہیں بھیجا ،سردارعثمان بزدارکوابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے اورتخت لاہورتجربات کامتحمل نہیں ہوسکتا۔کپتان عمران خان کی ٹیم میں منجھے ہوئے آل راؤنڈرز کاقحط نہیں پڑا، توپھرکیوں پنجاب کی صورت میں پاکستان کاسب سے بڑاصوبہ ایک ناتجربہ کار کے رحم وکرم پرچھوڑدیا جائے۔عمران خان کایہ کہنا کہ عثمان بزدار ایک پسماندہ مقام سے ہیں تووہ پسماندگی دورکریں گے،ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔اگر کسی آباد ی میں پچاس انسان بیمارہوں توان کی صحت وتندرستی کیلئے ان میں سے کسی ایک مریض کومعالج مقرر نہیں کیاجاتا بلکہ ایک ماہرڈاکٹر پراعتماداور انحصار کیا جاتا ہے ۔ پسماندگی دورکرنے کیلئے کسی مسیحا کیلئے اس پسماندہ مقام کامقیم ہوناضروری نہیں۔وزیراعلیٰ اپنے ہاتھوں سے بجلی کے ٹاورنصب اورشاہراہیں تعمیرنہیں کرتے ۔ ارباب اقتدار کاماہرمعمارہونانہیں بلکہ سرکاری امورکومنظم اندازسے انجام دینے کیلئے اعلیٰ منتظم ہونااہم ہے۔عمران خان کی طرح جہاں حکمران کا دامن صاف ہونا اہم ہے وہاں اس میں اوصاف حمیدہ ہونابھی ضروری ہیں ۔انسان داناؤں کی مجلس میں دانائی جبکہ ناداناوں کی صحبت میں حماقت سیکھتا ہے،ہمارے پرعزم نوجوان چاندتک رسائی کیلئے پرجوش ہیں مگردانائی کیلئے انہیں ابھی مزید کئی برسوں تک نشیب وفراز سے گزرنااورتجربات کی بھٹی میں جلنااورکندن بنناہوگا ۔نوجوانوں سے ان کی خدادادصلاحیتوں کے مطابق کام لیا جائے مگران پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنادرست نہیں ۔ان دنوں جووزیرمشیر عمران خان کے'' ویژن'' کی گردان کررہے ہیں وہ ان کے دوست نہیں ہوسکتے۔عمران خان مسلسل غلطیاں کررہے ہیں اوردانااپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے لہٰذاء وہ اپنی گفتگومیں'' میرے ویژن ''کادعویٰ نہ کریں کیونکہ ابھی انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔عمران خان یادرکھیں وہ حجازمقدس ننگے پاؤں جانے ، حضرت بابا فریدالدین مسعودؒ کے مزارکی دہلیز پربوسہ یابشریٰ بی بی کے ساتھ نکاح کرنے کی بنیادپروزیراعظم منتخب نہیں ہوئے بلکہ پاکستانیوں نے دوخاندانوں کی موروثی سیاست سمیت بدعنوانی اوربدانتظامی سے اظہاربیزاری جبکہ ان کی قیادت اور نیت پراعتمادکرتے ہوئے انہیں مینڈیٹ دیا ،اگرحضرت بابا فریدالدین مسعودؒ کے مزارکی دہلیز چومناسبب ہوتا توسینکڑوں برسوں سے روزانہ ہزاروں لوگ دہلیز چوم رہے ہیں مگران میں سے کوئی وزیراعظم نہیں بنا،اگربشریٰ بی بی کی کرامات نے انہیں وزیراعظم بنایاہوتاتوان کے سابقہ شوہروزیراعظم کیوں نہ بنے لہٰذاء وہ اس سحر اورغلط فہمی سے باہرنکل کرخوداعتماد ی کے ساتھ درست اوردوررس فیصلے کریں۔ عمران خان اپنی اہلیہ کوبے پایاں محبت اورعزت دیں مگرانہیں امورمملکت میں مداخلت اورمشاورت کاحق نہ دیں ۔جس کسی نے عمران خان سے یہ کہا کہ اُس نے استخارہ میں سردارعثمان بزدارکاچہرہ چاندی کے برتن میں دیکھا ہے لہٰذاء اسے وزیراعلیٰ پنجاب بنادیں اورکپتان نے بنادیا ،اس شاطر انسان کواپنادوست سمجھنا وزیراعظم کی بدترین غلطی ہے۔عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی والے اپنے انتہائی غلط فیصلے کاجس قدردفاع کریں گے اس قدر انہیں نقصان ہوگا۔اگرکسی پتھر کو کئی برسوں تک ہیروں کے پاس رکھ دیاجائے تووہ ہیرانہیں بنے گا ۔

پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کپتان عمران خان کامذاق اڑاتے رہے اوران کے وزیراعظم منتخب نہ ہونے کادعویٰ کرتے رہے لیکن وہ نہ صرف وزیراعظم منتخب ہوئے بلکہ'' بادشاہ گر'' کی حیثیت اختیار کرگئے ،کپتان کی نگاہِ اِنتخاب جس پرپڑی وہ ''بادشاہ''بن گیا ،کسی کووزارت اعلیٰ ملی،کوئی گورنربنا اور بیسیوں وفاقی اورصوبائی وزارتوں کے قلمدان لے اُڑے۔پنجاب کوکسی'' بزدار''نہیں '' بردبار'' منتظم کی ضرورت ہے ،یہ بات طے ہے کہ بزدار کے انتخاب کیلئے پی ٹی آئی میں کسی سطح پر مشاورت نہیں کی گئی۔اے ٹی ایم کاطعنہ سننے والے عبدالعلیم خان اور شہرلاہورمیں پی ٹی آئی کی آبیاری کرنیوالے میاں اسلم اقبال نے پارٹی ڈسپلن کاپرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا ۔عثمان بزدارکے انتخاب سے اب تک مختلف افواہیں زیرگردش ہیں ،پی ٹی آئی کے اندرایک بااثرمگرخاموش دھڑا وزیراعلیٰ پنجاب کی'' تبدیلی ''کاخواہاں ہے مگر عمران خان اپنے حالیہ دورہ لاہورمیں عثمان بزدار کے گیت گاتے رہے اورانہیں پانچ برس کیلئے وزیراعلیٰ برقراررکھنے کابڑااعلان کردیا۔عمران خان نے ماضی میں شیخ رشید ،بابراعوان اورچوہدری پرویزالٰہی کے بارے جوکچھ کہا وہ یقیناآج ان کلمات کودہرانہیں سکتے لہٰذاء وہ قبل ازوقت عثمان بزدار کی ایمانداری کی شہادت نہ دیں ورنہ کل انہیں خفت اٹھاناپڑسکتی ہے ۔اگرمتنازعہ فیصلے کرناحماقت ہے تو ان کادفاع کرنے کیلئے ڈٹ جانا جہالت ہے ،اگروزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کے سلسلہ میں اپنافیصلہ تبدیل نہ کیا توانہیں سیاسی طورپر اس کاخمیازہ بھگتناپڑے گا ۔عثمان بزدار میں اس منصب کیلئے ضروری قابلیت ،صلاحیت اورخوداعتمادی نہیں ہے۔وزیروں اورمشیروں کی فوج ظفرموج کتنی بارانہیں''دھکاسٹارٹ'' کر تے ہوئے صوبائی اداروں کے اچانک دوروں پرلے جائے گی۔شہبازشریف کی طرح پی ٹی آئی نے بھی پولیس کلچر تبدیل کرنے کامژداسنایااوربیڑااٹھایا ہے۔خیبرپختونخوامیں یقینا پولیس کلچر میں تعمیری تبدیلی کے اثرات اور ثمرات سے انکار نہیں کیا جاسکتااوراس کاکریڈٹ بجاطورپرعمران خان اورناصرخان درانی کوجاتا ہے کیونکہ اگرعمران خان خیبرپختونخواپولیس میں سیاسی مداخلت کاراستہ بند نہ کرتے توناصرخان درانی ہرگزکامیاب نہ ہوتے ۔

پنجاب میں تھانہ کلچر کی تبدیلی کے نام پرفردواحدکی شعبدہ بازی نے پولیس کلچر کاکچرابنا دیا۔ عوام پولیس کوبھی پاک فوج کی طرح باوقار، خودمختار،مستعد اورفرض شناس دیکھنے کے خواہاں ہیں جبکہ سابقہ حکمران طبقہ پولیس کی طرح پاک فوج کوبھی یرغمال بناناچاہتا تھا۔پاکستان کے ''خادمین شریفین''کئی دہائیوں تک تخت لاہورپرراج کرنے کیلئے پنجاب پولیس کویرغمال بنا ئے رہے،انہوں نے اپنے اقتدارکے استحکام اور دوام کیلئے پولیس کااستعمال اوراستحصال کیا ۔پنجاب میں سیاسی انتقام کیلئے بدترین پولیس گردی کی جاتی تھی ،اہل سیاست نے سیاہ کرتوت کامظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کواپناہتھیاربنایااوراسے رسواکیا نتیجتاً پولیس کو خفت اور نفرت کاسامناکرناپڑا ۔اس دوران پولیس کی کچھ کالی بھیڑوں نے بھی ذاتی حیثیت میں بھی فائدہ اٹھایا جس کے نتیجہ میں پولیس کی ساکھ راکھ کاڈھیربن گئی۔شہبازشریف نے سیاسی مفادات کے تحت سابق آئی جی سندھ رانامقبول کوپنجاب پولیس پر نازل کیا تھامگروہ پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے کوئی'' مقبول اورمعقول ''کام کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔شہبازشریف کے دیکھا دیکھی'' تبدیلی''برانڈ پی ٹی آئی سرکار نے بھی تھانہ کلچر کی'' تبدیلی'' کا بیڑااٹھایا اوراس ہدف کی تکمیل کیلئے محمدطاہرخان اور ناصرخان درانی کو''مشن اورمنصب '' دیاگیامگرانہیں آزادی، طاقت اور مہلت نہیں دی گئی ۔ابھی پنجاب پولیس میں دوررس اصلاحات کی شروعات ہوئی تھی کہ نیک نام اورنیک نیت آئی جی پنجاب محمدطاہرکواچانک تبدیل کردیا گیا ،انہیں ایک ماہ قبل مقررکیاگیا تھااس سے پہلے وہ خبیرپختونخواہ میں آئی جی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔الیکشن کمشن نے بروقت اوردرست مداخلت کرتے آئی جی پنجاب محمدطاہرخان کی ٹرانسفر معطل کردی ہے،اگرحکومت تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے سنجیدہ ہے تومحمدطاہرخان کی متنازعہ ٹرانسفرفوری منسوخ کردے ۔ناصردرانی نے آئی جی پنجاب محمدطاہرخان کی متنازعہ تبدیلی کیخلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیاہے ۔محمدطاہرخان جیسے فرض شناس آفیسرز کواچانک تبدیل کرنے سے ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ انہیں مناسب ٹائم فریم دیاجائے ،اس سلسلہ میں حکومت کی عجلت مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔محمدطاہرخان نے خیبرپختونخوامیں پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے کی جانیوالی اصلاحات کابغورمشاہدہ کیا اوروہ پنجاب میں تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی نیت اوربھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔زیرک اورپروفیشنل محمدطاہرخان کی تقرری سے اب تک حالیہ تیس دنوں میں پنجاب کوکس طوفان یاامتحان کاسامناکرناپڑا تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے اور حکومت کوانتہائی اقدام کر ناپڑا۔ پنجاب پولیس میں اس قسم کی غیرضروری'' تبدیلی'' سے فورس میں'' بددلی'' پیداہو ئی۔حکمران جس طرح اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے مہلت مانگ رہے ہیں اس طرح پولیس حکام کوبھی مناسب وقت دیں ورنہ ''تبدیلی '' کاخواب چکناچورہوجائے گا۔
 

MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan
About the Author: MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan Read More Articles by MUHAMMAD Nasir Iqbal Khan: 14 Articles with 11195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.