وزیراعظم اور ان کی کابینہ فی الوقت عوام کو سمجھانے میں
ناکام ہیں کہ جن پالیسیوں کا ذکر عوامی جلسوں میں کیا کرتے تھے، انہیں نافذ
کرنے میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔ راقم پر کئی احباب نے اپنی ناراضی ظاہر کی
کہ ابھی حکومت کو بنے چالیس روز نہیں ہوئے اور تم ’’تبدیلی‘‘ کا حساب مانگ
رہے ہو۔ جواباً کہا کہ میں اس تبدیلی کو کچھ اس طرح سمجھتا ہوں کہ جب ہم
کوئی گھر بناتے ہیں تو پہلے زمین کا انتخاب کرتے ہیں، ماہر تعمیرات سے گھر
کا بہترین نقشہ بنواتے ہیں اور پھر مضبوط بنیادیں رکھ کر تعمیر شروع کردیتے
ہیں۔ یہ تو ہوا ایک جواب کہ تیاریوں کے ساتھ کسی بھی نئے گھر کے لیے اچھی
لوکیشن اور پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب خانہ بدوش ہیں جنہیں کہیں
بھی جگہ ملنے سے غرض ہے۔ اپنی جھونپڑی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اُس وقت تک
وہاں رہتے ہیں جب تک انہیں بے دخل نہ کیا جائے، یا ان کی جھونپڑیوں کو آگ
نہ لگ جائے۔ تیسری بات قابل غورہے کہ قیمتی زمینوں پر لینڈ مافیا کچی
آبادیاں بناکر قبضہ کرلیتی اور جن کی زمین ہوتی ہے وہ اپنی جائیداد سے
محروم رہ جاتے ہیں، مقدمات کا سامنا کرتے اور اپنی ہی ملکیت کو حاصل کرنے
کے لیے عدالتوں کے برسہا برس چکر لگاتے رہتے ہیں۔ بعض حق دار تنگ آکر عدالت
کے باہر قبضہ مافیا سے معاملات طے کرلیتے ہیں۔
تحریک انصاف کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے عوام کے سامنے بڑے بڑے دعوے
کچھ اس طرح کیے کہ جیسے جادو کی کوئی چھڑی ان کے پاس ہے یا پھر الٰہ دین کا
چراغ۔ یہاں تک کہ انہوں نے قبل ازانتخابات ایک شیڈو حکومت بھی بنالی تھی کہ
ان کی کابینہ میں کون کون سی شخصیات ہوں گی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ
پی ٹی آئی کے لیے ایسا ماحول بنایا گیا جس سے خاص و عام متاثر ہوئے بغیر نہ
رہ سکے۔ وزیراعظم عمران خان کو نہ جانے کیوں خوش فہمی ہوگئی تھی کہ انہیں
کامیابی کے لیے صرف ’’نمبر گیم‘‘ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ٹیم ورک کے بجائے
اپنی ذات کو محور بنایا کہ جیسے اس کرپشن زدہ مملکت میں وہ ہی واحد
سیاستدان ہیں جن پر تمام ملکی عوام کو بھرپور اعتماد ہوگا، لیکن انہیں
سمجھنا چاہیے تھا کہ سیاست دان اور قائد میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں شامل وزراء کی اکثریت کو اقتدار میں شامل
رہنے کا تجربہ ہے۔ اکثریت کا تعلق ایسی سیاسی جماعتوں سے رہا جو برسر
اقتدار رہ چکی ہیں۔ اس لیے ماضی کی ناقص پالیسیوں میں ان کا بھی کردار
بالواسطہ رہا، تاہم وزیراعظم کے پاس حکومت کرنے کا کوئی تجربہ ماسوائے خیبر
پختونخوا کے، نہ تھا۔ صوبائی و وفاقی حکومت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
عمران انتخابات سے قبل اعتراف کرچکے کہ اچھا ہوا انہیں وفاق میں حکومت نہیں
ملی ورنہ وہ ناکام ہو جاتے (شاید5 برس بعد دوبارہ اعتراف کریں)۔ بلاشبہ
40دن میں ناکامی و کامیابی کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن موجودہ
حکومت نے اپنی پالیسیوں میں جس ابہام اور ناپختگی کا مظاہرہ کیا، وہ غیر
سنجیدگی کا عنصر لیے ہوئے ہے۔
سرکاری املاک و اثاثوں کی فروخت کے معاملات ہوں یا پھر بھینسوں کی نیلامی،
پروٹوکول نہ لینے کا اعلان ہو یا پھر بیرون ملک سے دولت واپس لانے کے دعوے۔
قرض نہ لینے کی بات ہو یا پھر غیر ملکی دورے پر تین مہینے تک نہ جانے کی
قسم۔ وفاقی بجٹ میں ترمیم میں کیے جانے والے فیصلوں کو دوبارہ برقرار رکھنے
پر اپنی غلطی کا احساس ہونا یا پھر غیر جانبدار ادارے کے سربراہ سے ملاقات
کے تنازعات (جب کہ وزیراعظم کو نیب ریفرنس کا سامنا ہے)۔ ہمیں ادارک کرلینا
چاہیے کہ وزیراعظم کے ماضی کے جتنے اہم اعلانات تھے، وہ ’’سب‘‘ سیاسی ہیں،
کیونکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کی پہلی کڑوی گولی ملکی تاریخ میں
ڈالر کی بلند ترین سطح کی صورت عوام کو دے دی گئی ہے۔ سٹاک انڈیکس میں
سرمایہ کاروں کو اربوں کے نقصان سمیت ڈالر کے 138روپے ہونے سے قرضوں میں
900ارب کا اضافہ ہوچکا ہے اور ڈالر کی یہ اونچی اُڑان مزید کتنا اوپر جائے
گی، اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ اس سے جہاں ایک مخصوص طبقہ راتوں رات
اربوں روپے کا منافع حاصل کربیٹھا تو دوسری جانب اس کے اثرات سے سونے کی فی
تولہ قیمت میں 1700روپے کا اضافہ ہوا۔ سی این جی کی قیمت میں 22روپے کے ہوش
ربا اضافے نے متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ ڈالی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سی
این جی کی قیمتیں پٹرول کی قیمت سے بھی بڑھ گئیں۔ سعودی عرب سے سی پیک
منصوبے میں شراکت داری کے بجائے سرمایہ کاری کا یوٹرن بیان جگ ہنسائی کا
سبب بنا تو دوسری طرف پہلے ہی مہینے میں 200 ارب ڈالرز نہ آنے سے خزانے
نہیں بھرے۔ ڈیم کے لیے فنڈ مہم ناکامی کا شکار اور تمام تر کوششوں کے
باوجود وزیراعظم اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی بحران سے نکلنے
کے لیے ڈالر پاکستان میں رکھنے کی اپیل بھی غیر مو?ثر ہوچکی ہے۔
تحریک انصاف اپنے بیانات میں تمام صورت حال کا ذمے دار ماضی کی حکومتوں کو
قرار دینے پر ساری قوت صَرف کررہی ہے۔ عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ یہ
سب ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے ہوا۔ چلیں اس بات کو سب نے ’’تسلیم‘‘ بھی
کرلیا، لیکن ان مسائل کا ’’حل‘‘ کیا ہے۔ اس کا جواب آج تک موجودہ حکومت کی
تجربہ کار کابینہ نہیں دے سکی۔ وزیراعظم نے معاشی صورت حال اور سخت فیصلوں
پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا، یہ کام وہ پہلے کرلیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
سعودی حکومت سے کیا ڈیل ہوئی، پارلیمنٹ کو بے خبر رکھ کر فیصلے کیے گئے،
ردعمل سامنے آیا تو خود حکومت کو کہنا پڑا کہ سعودی عرب سی پیک میں شراکت
دار نہیں بلکہ سرمایہ کار ہو گا۔ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پروگرام کے لیے
وزیر خزانہ کو اپنے تاریخی کلمات کو یاد کرلینا چاہیے کہ ’پاکستان اپنے
قرضوں کا بندوبست کرلے گا، امریکا اپنے قرضوں کی فکر کرے‘۔
وزیراعظم اب خود میدان عمل میں آئیں۔ قابلِ اعتماد دوست ممالک اور نئی
تجارتی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات کے لیے جگہ تلاش کریں۔ وہ بیرون ملک
سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو لانا چاہتے ہیں، لیکن درحقیقت سرمایہ کاروں کا
اعتماد ریاست پر بحال نہیں ہوا، اس لیے وزیراعظم افرادی قوت کو زیادہ سے
زیادہ تعداد میں باہر ممالک بھیجنے کی منصوبہ بندی کرائیں۔ اس سے بے
روزگاری کا خاتمہ ہوگا اور زرمبادلہ کی ترسیل بھی ممکن ہوگی۔ یہ زمینی
حقائق ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے قیمتی زرمبادلہ بھیجنے سے مملکت ابھی
تک دیوالیہ نہیں ہوئی۔ اس لیے بیرون ملک باہمی تجارت و روزگار کے مواقع
فراہم کرنے کے لیے وزیراعظم کو بیرونی دورے شروع کردینے چاہئیں۔ سرمایہ کار
موجودہ ملکی صورت حال پر فوری رسک لینے کو تیار نہیں، ابھی ان کا اعتماد
بحال ہونے میں وقت لگے گا۔
قرضوں کی وجہ سے ڈالر بلندیوں تک پہنچ چکا۔ مملکت کی صورتحال ایسی نہیں کہ
لاکھوں بے روزگاروں کو مستقل ملازمت دی جاسکے۔ پاکستان کے لیے نئی تجارتی
منڈیوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ ان ممالک پر توجہ دینی ہوگی جنہیں ’’چھوٹے‘‘ و
کمزور سمجھ کر نظرانداز کیا گیا۔ وزیراعظم کو مستحکم پالیسیوں کے لیے غیر
روایتی فیصلے کرنے ہوں گے۔ غیر روایتی فیصلوں سے ہی پاکستان نامساعد حالات
سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
|