*تحریر : محمد عبداللہ اکبر*
انسان جب سے اس دنیا میں آیا ہے ہمیشہ سے ترقی و خوش حالی کا خواہاں رہا ہے۔
ہمیشہ اس نے اپنے آپ کو کسی اونچے مرتبے پر دیکھنے کی کوشش کی اگر میں یہ
بات کہوں تو ہانث نئی ہوں گا کہ اپنے آپ کو ترقی کی راہوں اور کامیابیوں کی
ٹاپوں کو چھونا انسان کے لیے ایک نشے کی حثیت رکھتا ہے وہ اس کے لیےکچھ بھی
کر گزرنے کو تیار ہوتا ہے کئی دفعہ تو ایسے ہوتا ہے کے انسان اس کامیابی
اور ترقی کے پیچھے بھاگتا ہوا انسانیت کی حدوں کو عبور کر جاتا ہے۔
اس معاملے میں انسان بہت جلد باز ہے کبھی کبھی وہ اسی جلد بازی میں بہت کچھ
ایسا کر جاتا ہے جو اسے بعد میں احساس ہوتا ہے کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا
کتنا ہی اچھا ہو اگر انسان کام کرنے سے پہلے یہ بات سوچ لے۔
اسی جلد بازی کی سی صورت حال کچھ آج ہمارے ملک پاکستان میں بنی ہوئی ہے نئی
حکومت آئی کو ابھی چند ماہ ہوۓ ہیں اس نے اپنی سٹریٹیجی واضح کی اپنا
مستقبل کا گیم پلان واضح کیا جو کہ قابل اعتماد اور قابل توجہ تھا لیکن کچھ
لوگ جنہوں نے ہمیشہ سے سیاست اور پاکستان کو ایک کاروبار اور مفاد کی نظر
سے دیکھا انہوں نے ہمیشہ کی طرح نئی حکومت کے اس پلان کی دھجیاں اڑانے میں
کسی قسم کی کسر نا چھوڑی انہوں نے اسی پرانی طرز پر الزامات اور لعن طعن
کھینچا تانی مردہ آباد مردہ آباد کی سیاست شروع کرتے ہوۓ اس گیم اور پلان
کو خراب کرنے کی کوششیں اور سازشیں شروع کر دیں انہیں کے ساتھ عام فہم سادہ
مزاج لوگ بھی انہیں کی باتوں کی رو میں بہہ گئے اور بننے والی نئی حکومت کے
خلاف بننے والے محاذ کا حصہ بننا شروع ہو گئے ان تمام میرے سادہ لوح
پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ عزیزو یہ وقت ان باتوں کا متقاضی نہیں اس وقت کا
پاکستان ان معاملات ان کھینچا تانی والی سیاست کا متحمل نہیں پاکستان اپنے
آپ کو آگے بڑھانا چاھتا ہے ہمیں ایسے موقع پر اپنے حکمرانوں کے کاندھے بننا
چاہیے نہ کہ ان کے کاندھوں کو کمزور کرنا۔ ہمیں اس پاکستان کی خاطر اپنے آپ
کو پیش کرنا چاہیے۔ اگر میں اس قابل نہیں ہوں تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا
کہ میں اس ملک پاکستان کی ترقی چاھنے والوں کی راہ میں رکاوٹ بنوں۔
پاکستان اس وقت بہت نازک موڑ پہ کھڑا ہے ہم الحمدللہ اپنی مضبوط سٹریٹیجی
اور مستقبل کا گیم پلان دنیا کے سامنے رکھ کر امریکہ کی چودھراہٹ سے جان
چھڑا رہے ہیں جس کا شاھد ہمارے وزیر خارجہ کا اقوام متحدہ کے فورم پہ کیا
گیا خطاب ہے انہی کچھ وجوہات کی بنیاد پہ امریکہ جس کی وجہ سے ہم پر معاشی
جنگ مسلط ہے اور پاکستان نا چاہتے ہوۓ آئی ایم ایف کے پاس جا رہا ہے
چند ایک دوست احباب اس پر بہت تنقید بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف
کی جانب سے پہلے شور مچایا جارہا تھا کہ وہ IMF کے پاس نہیں جائیں گے مگر
اب انہوں نے یو ٹرن لیا ہے اور انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے نا چاہنے کے باوجود اُسے جانا کیوں پڑ رہا
ہے؟
کیا کوئی دوسرا ملک پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں؟
انتہائی معذرت کے ساتھ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت کی غلط
پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج پر پہنچے چکے ہیں کہ 2018 میں پاکستان کو
12سے 15ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
اور پھر قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کے مشیر برائے
خزانہ امور مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے آئی
ایم ایف کے خدشات درست ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستان پر
قرض بڑھ جائے یا مزید قرض لینا پڑے۔ یعنی مفتاح اسماعیل نے اس بات کی
نشاندہی رواں سال مارچ ہی میں کر دی تھی کہ آنے والی حکومت کے لیے
ادائیگیاں کرنے میں مسئلہ ہوگا۔ اس لیے انہیں اربوں ڈالر درکار ہوں گے
حقیقت میں تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے خزانے میں 8.4 ارب
ڈالرز موجود ہیں جو کہ 2 ماہ کی درامدات کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ حکومت
سنبھالنے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی مختلف مالی آپشنز پر غور کررہی ہے، ان
آپشنز میں چین اور سعودی عرب سے مالی امداد حاصل کرنا بھی شامل ہے، تاہم ہم
اب بھی مالی سال کیلئے مطلوبہ ڈالرز پورا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں
(ایک مالی سال کیلئے حکومت کو 12 ارب ڈالرز درکار ہوتے ہیں)۔اس معاشی چیلنج
سے نبرد آزما ہونے کیلئے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں درآمدی اشیاءپر
ڈیوٹی، گھریلو گیس کی قیمتوں اور مرکزی بینک کے شرح سود میں اضافہ شامل ہیں
اور موجودہ حکومت اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے ہنگامی اقدامات کر رہی
ہے اس نے پٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھادی ہیں۔ دوست ملکوں سے کہا
ہے کہ وہ سٹیٹ بنک آف پاکستان میں اکاﺅنٹس کھولیں تاکہ ہمارے زرمبادلہ کے
ذخائر بہتر بنائے جاسکیں۔ بیرونی ملکوں میں منتقل کی جانے والی کھربوں روپے
کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے کوششیں کی جارہی ہے اور ریکوری کے لئے
ایک خصوصی یونٹ بنایا جا رہا ہے۔
لیکن ہم ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا موضوع ملنا چاہیے جس کے ساتھ لوگوں کے
درمیان مایوسیاں پھیلا سکیں۔
آج جس کے پاس بیٹھو ملو بات کرو تو آگے سے ترکی کی ترقی کا بتانا شروع کر
دیتا ہے کہ کیسے اس کے صدر کی دنیا میں عزت کی جاتی ہے۔ کیسے وہ دنیا کی
سپریم طاقتوں کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے ہمارے سامنے ہی ہے کہ جب
اقوام متحدہ کے فورم پہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر شروع ہوئی تو طیب اردوان فوراً
اپنی نشست سے اٹھ کے باہر چلا گیا ہم ترکی کی ایسی مثالیں تو لوگوں کو سنا
دیتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ نئی سوچا کے آخر ترکی یہ سب کیسے کر رہا ہے
کیسے اس نے اپنے آپ کو یورپین طاقتوں کے چنگل سے نکالا۔
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہی ہے کہ عزیزو ترکی کی اس ترقی کے پیچھے اس کی
عوام کا ہاتھ ہے عوام اپنے حکمرانوں کو کاندھا فراہم کرتی ہے ہر اٹھنے والے
سازش کا قلع قمع کرتی ہے اس کی زندہ مثال چند سال پہلے ترکی میں ہونے والی
فوجی بغاوت تھی کہ کیسے ان لوگوں نے اپنے وزیر اعظم کے ایک ویڈیو پیغام پہ
گھروں سے باہر نکل کر ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ان بغاوتوں کو کچل دیا میں قطعا
یہ بات نئی کہہ رہا کہ ہم ٹیکنوں کے آگے لیٹ جائیں میں یہاں یہ بات کہنا
چاھتا ہوں کہ اگر ہم حکومت کا دفاع نہیں کر سکتے تو ہمیں الزام تراشی کا
بھی کوئی حق نئی ہاں اگر کہیں حکومت غلط فیصلے کرےتو اس بارے اپنا مؤقف
حکومت تک پہنچانے کا ہمیں مکمل حق ہے نا کہ اس بات کا سہارا لے اپنی ہی
حکومت کے خلاف ہو جانا اور مایوسی پھیلانا۔ ترکی کی مثالیں دینے سے اچھا ہے
ترکی کی عوام سے سبق سیکھا جاۓ۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو |