پاکستان میں سنسنی خیزی ہمیشہ سے ہی بڑی محبوب روش رہی
ہے۔ہماری قوم ذہنی طور پر جس سانچے میں ڈھل چکی ہے اس میں سنسنی خیزی کی
بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہ پر اثر ہونے کے ساتھ ایک ایسی نشہ آور دوا کا کام
بھی کرتی ہے جو ان میں طمانیت کا احساس اجاگر کئے رکھتی ہے ۔ بڑے بڑے دعووں
اور ناقابلِ عمل پروگرا م سے عوام کومٹھی میں بند کرنے کا حربہ سدا سے ہی
تیر بہدف نسخہ رہا ہے۔قوم عملی طور پر جن مالی اور معاشی مسائل کا شکار بن
چکی ہے انھیں سنسنی خیزی ہی سکون عطا کر سکتی ہے۔عوام وعدوں کی کہکشاں میں
خود کو محوِ پرواز محسوس کرتے ہیں اور ایک ایسی فضا میں زندہ رہنا چاہتے
ہیں جسے ان کا قائد انھیں دکھاتا رہتاہے۔وہ ساری دنیا سے بے نیاز ہو کر
تصوراتی جنت میں گم رہنا پسند کرتے ہیں جس میں آسود گی کا رومانس پنہاں ہو
۔ا ن کی آنکھوں میں تمناؤں کے جو ستارے جھلملاتے ہیں ان کی برو مندی اور
حصول ان کی زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے اور وہ اس کی خاطر کسی بھی آزمائش سے گزر
سکتے ہیں۔وہ دلکش نعروں سے خود میں نئی توانائی محسوس کرتے ہیں ۔ محرومیوں
کے شکار اور نظر انداز کئے ہوئے افراد ایسی ہی نفسیاتی کیفیت کے حامل ہو تے
ہیں۔اسے نشہ کی کیفیت سے منسوب کیا جا سکتا ہے جس میں حقیقی دنیا کی نسبت
طلسماتی دنیا زیاہ دلکش نظر آتی ہے جو انھیں نئی منزل کا پتہ دیتی ہے لہذا
وہ اسی نئی اور پر پیچ زلف کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ قائدین کے وعدے،ان کی
کمٹمنٹ ،ان کا درد،ان کا احساس انھیں اپنے دل کے قریب لگتا ہے لہذا وہ اپنے
قائد کے عشق میں جان کی بازی لگانے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ بس
انھیں اس بات کا یقین ہو نا چائیے کہ ان کا قائد سچا اور کھرا ہے اور ان کے
خوابوں کو حقیقت بنانے کیلئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرے گا ۔ہمارے
قائدین عوام کی اس نفسیاتی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں لہذا انھیں اپنا
ہم رکاب بنانے میں انھیں چنداں دشواری پیش نہیں آتی ۔وہ اپنی لچھے دار
باتوں اور پر کشش نعروں سے عوام کو اپنے دام میں پھانس لیتے ہیں اور یوں ان
کے اقتدارکے سنگھاسن تک رسائی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے ۔اقتدار چونکہ کسی
بھی سیاستدان کی آخری منزل ہو تا ہے لہذا اس منزل کے حصول کی خاطر عوامی
جذبات کو پسِ پشت ڈالنے میں وہ کسی بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔وعدہ
کرنا انتہائی آسان ہو تا ہے لیکن وعدہ پورا کرنا انتہائی مشکل ہو تا
ہے۔اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ قائدین وعدے تو کر لیتے ہیں لیکن اپنے وسائل
کی محدودیت کی وجہ سے انھیں ایفا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں
قائدین کی وعدہ خلافیوں کی تاریخ بڑی طویل اور درد نا ک ہے۔عوام کوخو اب
کیسے بیچے جاتے ہیں، عوامی خوابوں پر اپنے اقتدار لکا محل کیسے تعمیر
کیاجاتا ہے ہماری سیاست کا وطیرہ رہاہے۔ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ دلکش
وعدوں کے بعد عوام کوقربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اور ان کے جذبات کو بڑی
بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں عوام کی اکثریت لوئر مڈل کلاس سے
تعلق رکھتی ہے لہذا ان کے لئے سہانے خواب بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔وہ
یقین،محبت اور اعتماد کی ڈور سے خود کو باندھ لیتے ہیں یہ الگ بات کہ
سیاستد ان وہی ڈور ان کے خوابوں کے قتل کے لئے استعما ل کر لیتے ہیں ۔،۔
قوم اس وقت جس کرب سے گزر رہی ہے میرے لئے اس کا مکمل احاطہ کرنا ممکن نہیں
ہے ۔ہر سو بے اطیمنانی اور غیر یقینی کا راج ہے اور اس میں پوری قوم گرفتار
ہے۔بلندو بالا وعدوں کی جگہ اب پشیمانی کا رنگ نمایاں ہونے لگا ہے۔یقین کی
جگہ اب تشکیک کا پہلو نمایاں ہو نے لگا ہے ۔جوش کی جگہ اب ہوش کا دامن
تھاما جا رہا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ سو دنوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیاگیا
تھا لیکن اب بات دوسالوں کی سنائی جا رہی ہے۔دو سال بھی انتظار کیا جا
سکتاہے بشرطیکہ کسی سمت اور ڈائریکشن کاپتہ تو چلے۔کسی بات کا کوئی سر پیر
نہیں ہے ،ایک بات کہی جاتی ہے اور اگلے دن اس سے یو ٹرن لے لیا جاتا ہے۔ جس
کے جی میں جو کچھ آ تا ہے وہ میڈیا کے سامنے بیان کر دیتا ہے اور یوں غیر
یقینی مزید بڑھتی جا تی ہے ۔اب تو ہر وہ بات جس کا پہلے وعدہ کیاگیا تھا اس
سے راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔قرضہ نہیں لیں گے،امریکی امداد قبول نہیں
کریں گے،نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے،مہنگائی کو لگام دیں گے،جھو لی نہیں
پھیلائیں گے ، کشکول توڑ دیں گے اور اپنے بازوؤں سے انقلاب برپا کریں
گے۔ایک بھولی بسری کہانی کا دیباچہ بن چکا ہے۔اس طرح کی باتیں جنرل پرویز
مشرف نے بھی کہی تھیں،میاں محمد نواز شریف نے بھی اسی طرح کے خواب بیچے
تھے۔قرض اتارو ملک سنوارو اسی دور کے نعرے تھے جس کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
فارن کرنسی اکاؤنٹ بھی استعمال کر لیا گیا لیکن اتنے بلندو بالا دعووں کے
بعد وہی کشکول ہمارا مقدر بنا ہوا ہے جسے توڑنے کی باتیں کر کے عوام کی
ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں۔مہنگائی کا قلع قمع کرنے والوں کی حکومت میں
مہنگائی کا جن پوری قوت سے عوام کا لہو چاٹنے کیلئے بوتل سے باہر نکل چکا
ہے۔روز مرہ کی ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔غریب کا
جینا دوبھر ہو گیا ہے۔جھنیں مہنگائی ختم کرنے کا مژدہ سنا یاجانا تھا انھیں
مہنگائی کا تحفہ دیا گیا ہے۔پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جو
کچھ دنوں میں مزید بڑھ جائیں گی کیونکہ آئی ایم ایف سے قرضہ کے حصول کی
خاطر ایسا کر ناگزیر ہے ۔عوام کو تو سبز باغ دکھائے گے تھے کہ نا اہل
حکمران ملک کا خزانہ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں لہذا ان کی لوٹی ہوئی دولت
کوواپس لا کر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہائی جائیں گی ۔ابھی نہروں کی
گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ عوام کو مہنگائی کے دوزخ میں جھونک دیا گیا ۔عوام
سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی فریاد سننے کیلئے کسی کے پاس وقت نہیں
ہے۔انھیں طفل تسلیاں دے کر بہلایا جا رہا ہے لیکن کب تک؟ حکومت اس وقت سخت
دباؤ میں ہے کیونکہ ان کے پاس ادائگیوں کیلئے زرِ مبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں
۔ کبھی چین کی طرف دستِ طلب پھیلایا جاتا ہے ،کبھی سعودی عرب سے بھیک مانگی
جاتی ہے، کبھی مفت پٹرول کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، کبھی امریکہ کی کاسہ لیسی
کی جاتی ہے اور کبھی آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایاجاتا ہے لیکن اہم سوال
یہ ہے کہ عوام کا کیا قصور ہے کہ ان کے خوابوں کا بلیدان دیا جا رہا ہے ؟ریلیف
دینے کی بجائے ان پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے اور انھیں مہنگائی کی چکی
میں پیسا جا رہا ہے ۔اس سارے پرا سس میں کرپشن کا نعرہ پورے تواتر کے ساتھ
لگایا جا رہا ہے تا کہ اپوزیشن کو د باؤ میں رکھا جا سکے۔نیب ایک مخصوص
جماعت کے خلاف مقدمات دائر کرکے انھیں انتقام کا نشانہ بنا رہاہے۔ایک مخصوص
گروہ کے علاوہ پورا ملک فرشتوں کی بستی ہے جس میں سارے معصوم اور بے گناہ
ہیں ۔ پی ٹی آئی والے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر پہلے
بھی کئی حکومتوں کے مزے لوٹ چکے ہیں۔وہ جنرل پرویز مشرف،مسلم لیگ (ق)، پی
پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں بھی کلیدی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں
لیکن چونکہ آجکل وہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اس لئے فرشتوں کی فہرست میں ہیں
لہذا انھیں ہاتھ لگانا کسی مقدس بت کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔قانون کا
شکنجہ صرف مخالفین کے خلاف استعمال ہورہا ہے جبکہ حکمران جماعت کے کرپٹ
عناصر کوکلین چٹ دی جا رہی ہے۔اپوزیشن کو گرفتار کر کے سلاخوں کے پیچھے
دھکیلا جا رہا ہے ۔ان کی گرفتاری سے ملک میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہو رہا
ہے۔جس سے ملکی معیشت متاثر ہو رہی ہے ۔ مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانے
کیلئے قانون کو جس غلط انداز سے استعمال کیا جا رہا ہے اس سے قوم میں تناؤ
اور الجھاؤ کا ماحول پیدا ہو گیا ہے اور قومی یکجہتی دھیرے دھیرے دم توڑ
رہی ہے ۔احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن احتساب بلا امتیاز ہونا چائیے
اور اس میں اپنے اور غیر کی تمیز نہیں ہونی چائیے ۔ انصاف کی دیوی کے سامنے
سب جھکیں گے تو یہ ملک ترقی کرے گا وگرنہ یہاں انتشار،بد امنی اورلڑائی ہو
گی۔،۔ |