انسانی زندگی مختلف دائروں میں منقسم ہے۔ وہ دائرہ سماجی
زندگی کا ہو، معاشرتی و معاشی کا ہو،یا اخلاقی وروحانی قدروں کا ہو، ادبی
حلقوں کا ہو یا سائنسی نقطہ نظرہو ، بہر کیف انسان کی زندگی ان سے متاثر
ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ انسانیت کی زنجیر کی ہر کڑی جزوی و کلی طور پر ان
دائروں کے گرد گھومتی ہے۔ اور جب انسان کے اخلاق اور رویوں کی نمو ہوتی ہے
تو اعتراف، اعتراض ،ردو قبول کی ایک فضا ترتیب پاتی ہے۔ جہاں پر مختلف
نظریات جنم لیتے ہیں۔ تایئد و تردید کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ابھی حال
ہی میں میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں عروج پر ہیں۔ کوئی
ٹی وی رپورٹیں تیار کر رہا تو کوئی کالم آرائی کر رہا۔ ایک صاحب کا بیان
تھا کہ جب بھی کوئی ظلم کی روداد رونما ہوتی ہے تو لکھنے والوں اور بولنے
والوں کو ایک عنوان مل جاتا ہے۔ پھر ہر کوئی قلم آزمائی کرتا ہے اور لوگو ں
سے داد وصول کرتا ہے کہ میں نے کیسے لکھا۔۔ یہاں پر مجھے لکھنے والے پر
اعتراض نہیں ہے اگر ہے تو تنقید کرنے والے پر کہ اس کی تنقید برائے تنقید
نہیں بلکہ تنقید برائے تعمیر ہو نی چاہیے۔ اہلِ قلم چاہے آج کے دور کا ہو
یا قدیم دور کا، اہلِ قلم کا تاریخ کے اوراق میں ایک مصلح کا کر دار رہا
ہے۔دنیا میں جب بھی کسی تحریک نے یا نظریے نے جنم لیا تو اُ س کی نمو میں
اولین کر دار اہلِ قلم نے ادا کیا۔ بولتا ہر کوئی ہے مگر لکھتا کو ئی کو ئی
ہے۔ آج میں نے اپنی قلم ،لکھنے والوں کے حق میں اُٹھائی ہے مگر اِ س کے
ساتھ ہی میری اہلِ قلم سے اپیل ہے کہ اُن کا قلم تنقید برائے تنقید نہ ہو،
بلکہ تنقید برائے تعمیر ہو۔ معا شرہ کبھی بھی ایک فر د سے تشکیل نہیں پا
سکتا، ایک معاشرے کی تعمیر کے لیے تمام افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا
ہے، اب یہاں پر ذمہ داری اُ ن حاملین پر عائد ہو تی ہے جنہیں خدانے کچھ
نواز کر دوسروں سے منفرد بنا دیا ہے۔ اب اگر ہمارے معاشرے میں ایسے افراد
موجود ہیں جن میں کچھ صلاحیت موجود ہے، تو ایسے افراد کی حمایت کرنی چاہیے،
اُ ن کو آگے آنے دینا چاہیے، اُ ن کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ جس
انسان کا جو مقام ہے وہ اسی کا ہے ،بات ظرف کی ہے کہ ایک انسان میں انسانیت
کے نام پر کتنا ظرف ہے، زندگی کا ادبی حلقہ لے لیں،اگر ہماری نومولود نسل
میں ادب سے محبت یا لکھنے کا رحجان فطری طور پر موجو د ہے تو سماج میں موجو
د ادب کا بیڑہ اٹھانے والوں پہ لازم ہے کہ وہ نئے لکھنے والوں کی اصلاح
کریں۔ نہ کہ انھیں تنقید کا نشانہ بنا کر دبا دیا جائے۔ ادب کسی ایک کی
وراثت نہیں ہے۔یہ ایک روایت کو زندہ رکھنے کی مشترکہ کوشش ہے، اگر اس کو
انفرادیت میں بانٹ دیا جائے تو آہستہ آہستہ اس کا وجود ناپید ہو جائے گا۔
ورثہ تب ہی بر قرار رہتا ہے جب اُ س کو نسلوں میں منتقل کیا جائے، اور ادب
ایک نظریاتی ملک کے ہر اُس مکیں کی وراثت ہے جس کو اﷲ نے اس خداداد صلاحیت
سے نوازاہے۔اس کی اصلاح ہر اہلِ شعو ر کے پاس امانت ہے ،،ہاں اگر مقصد ایک
ملک کی ادبی روایات کو زندہ رکھنا ہو نہ کہ خودغرضی کی اوٹ میں اپنے لیے
واہ واہ کمانا اور صرف اپنے ذاتی نام کے لیے کو شش ہو۔ جتنے بھی لکھنے والے
ہیں چاہے وہ سیاست پر لکھتے ہیں ، تعلیم پر لکھتے ہیں، سماجی مسائل کو اُ
جاگر کرتے ہیں یا معاشیات کو سدھارتے ہیں، بس اُن کے قلم سے تعمیر ہو، آپ
کی لکھی ہوئی کوئی بھی تحریر ایک نسل کی نمو کرنے جا رہی ہے، لکھتے وقت
اپنی ذاتیات کو درمیان میں نہ لایا جائے، آپ کی تحریریں پڑھنے والا کوئی
ایک فرد نہیں بلکہ افراد ہیں، اور اہلِ قلم کے ذمہ شعور دلانا، مسائل کو
اجاگر کرنا، احساس دلانا، اور ایسے معاملات کو سامنے لانا جن کے بارے میں
تنقید نگاروں کی زبانیں خاموش رہتی ہیں،اور وہ صرف اُس وقت تنقید کرنا شروع
کرتے ہیں،جب کوئی ان کے خلافِ طبع قلم آزمائی کرتا ہے۔
قلم سے نکلی تحریریں انقلاب کی صورت ہوتی ہیں۔ تحریک پاکستا ن میں جہاں
لیڈروں نے متحرک کردار ادا کیا وہاں اُن کے افکار و نظریات اخبارو جرائد کی
صورت سارے برصغیر میں پھیلتے گئے۔ اور لوگوں کے اذہان میں انقلاب برپا ہوتا
گیا۔ اور ایسی سوچ نے جنم لیا کہ تمام برصغیر کے مسلمان اپنے قائدین کی
آواز پہ یکجا ہو کر ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ پاکستان کا قیام اسلام کے
نام پہ ایک زندۂ جاوید بولتی تصویر ہے۔ انقلاب لانے کے لیے صرف تحریریں ہی
جوش برپا نہیں کرتیں بلکہ اُن تحریروں کو لکھنے والے میں وہ جذبہ،سچائی اور
خلوص ہو جو ایک قوم کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہو، لکھنا صرف تنقید کرنے کی
حدتک ہی نہ رہ جائے، بلکہ لکھنے والوں کو سچائی کے ساتھ انصاف کا ساتھ دینا
چاہیے، اور اُ ن کے دل انسانیت کے درد سے لبریز ہوں، زندگی کا کوئی بھی
دائرہ چاہے سماجی، معاشرتی یا معاشی ہو مقصد ملک و عوام کی بھلائی ہو،
پاکستان کی ریاست ہمارے لیے خد ا کا تحفہ ہے، وگرنہ دنیا میں آزادی کی خاطر
جو مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں،اُن کی حا لتِ زار ہماری آنکھوں کے سامنے
ہے، آزادی کے لیے سسکنے والوں کی آہیں اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی
انسانیت کی ایک دکھی تصویر بیشتر ملکوں میں دکھائی دیتی ہے۔ان حالات میں جب
کہ ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رنگ لائیں، ہمیں ایک آزاد اسلامی ریاست نصیب
ہوئی، تو اب کام اس کی بقاء کے لیے کرنا ہے نہ کہ آپس کے اختلافات کو ہوا
دینا ہے۔ خدارا! اپنا قلم تعمیر کے لیے اُٹھائیں،نئی نسلوں کو بتائیں کہ
ہمارا ملک کس نظریے کے تحت وجود میں آیا، اپنے عظیم رہنماؤں کو اور ان کی
عظیم خدمات کو روشناس کرائیں،نہ کہ تنقیدی نقطہ نظر اپنا کہ نوجوان نسل کے
جذبات کو منتشر کیا جائے۔ آج کے دور کے مسائل قیامِ پاکستان کے حالات سے
مختلف ہیں، ان 70سالوں میں بہت سے انقلابات اور جدید افکار ہماری زندگیوں
کا حصہ بن چکے ہیں، دنیا گلوبل ولیج کی صورت اختیار کر چکی ہے، دوسری اقوام
کی تہذیبوں نے تیز رفتاری سے ہماری نسلوں میں فروغ پایا ہے، آج کے اِ س تیز
ترین مواصلاتی دور میں نئی نسلوں کی تربیت اور بقاء اپنے قومی نظریے کے
مطابق کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے،انسان نے جس قدر ترقی کی ہے ،اُس کی
ضروریات و مصروفیات کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوا ہے۔ آج یہ تحریر پڑھتے ہر فر
د تھوڑی دیر رُک کر خود سے سوال کر لے کہ اُس نے انفرادی طور پر اپنے
گھر،ملک وقوم میں اس بات کے لیے کتنا غور کیا کہ اُس کی موجودگی میں ہماری
نئی نسل نے کس حد تک اپنے ملک کے قومی اثاثوں اور افکار و نظریات سے واقفیت
حاصل کی، کیا ہمارے آج کے بچے وہ ہیں جن کے ذمہ قائد نے ایک ملک کی تعمیر
کی ذمہ داری ڈالی تھی۔ آئیے اپنا قلم تجدیدِ نو کے لیے اُٹھائیں، دنیا کو
بتا دیں کہ ہمارا ملک عظیم روایات کا حامل ہے، آج ہمارے ملک میں جو بھی
مسائل ہیں اُن کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کریں گے، ہم صرف پاکستانی ہی
نہیں بلکہ اسلامی اُخوت کے رشتے میں بھی بندھے ہیں، ایک دوسرے کو تنقید کا
نشانہ بنانا چھوڑدیں، بلکہ تعمیری نقطہ نظر اپنائیں۔ اپنے اندر حوصلہ اور
قوت جمع کر لیں کہ اگر کہیں پر آپ غلط ہیں اور کوئی آپ کو آپ کی غلطی بتانے
کی کوشش کر رہا ہے تو اُس کو اصلاح کی صورت سمجھیں نہ کہ تُو تُو میں میں
شروع ہو۔ اور جو اصلاح کرنے والے ہیں وہ تعمیر ی رویہ اپنانے کے ساتھ
اخلاقیات سے قطع نظر نہ ہوں۔ ہر پاکستانی پر اس ملک کی بقاء کی ذمہ داری
عائد ہے۔ ۔ کسی کا انتظار نہ کریں کہ کوئی آئے گا اور کرے گا، یہ آپ ہی ہیں
جو کریں گے۔ ۔بس بقاء تک کا فاصلہ ایک قدم ، پہلے صرف اپنی سوچ مثبت کر لیں۔
تعمیر تب ہی ہو گی جب سوچ مثبت ہو گی ۔ منفی سوچ نہ صرف انفرادیت کو ختم
کرتی ہے بلکہ ایک قوم کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ |