کالم نویسی اور فن کاری

جب مقتول کا بیٹا خون بہا وصول کر چکا ہوپھر وعدہ خلافی جرم بن جایا کرتی ہے۔ غیرت کا با غیرت لوگ بھی اسی وقت تک ساتھ نبھاتے ہیں جب تک غیرت کو بیچ نہ دیا گیا ہو ۔۔۔

ایک صاحب اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے ، پرانے پاکستان میں کہ ہر آدمی اور ہر ادارہ ہی کرپٹ تھا، ایک
ادارے نے میڈیا والوں میں ریوڑیاں بانٹیں۔ سرکار ی اداروں میں ایک ایک روپے کاحساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہوا۔ حساب درج رجسٹر ہو گیا ۔ آڈیٹر حساب چیک کرنے آئے جمع تفریق برابردیکھ کر رجسٹر پر آڈیٹڈ کی مہر ماری رجسٹر بند کرنے سے پہلے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر رجسٹر نمبر ، صفحہ نمبر لکھا اوررجسٹر بند کر کے دفتر سے روانہ ہو گیا۔

کالم نویسی آج کل قلم گھسیٹنے کا نام ہے ، گھسیٹنے کے مقاصد ہوا کرتے ہیں ، جب کسی کو گھسیٹا جاتا ہے تو عام طور پر بغض کی کہیں جلتی آگ کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہوتا ہے، کالم نویس جو حالات کو دیکھ کر مستقبل کی پیشن گوئی کیا کرتے تھے شہر خموشاں میں جا سوٗے یا گم نامی کے اندہیروں میں گم ہیں۔

ایک محفل میں صحافت کی دنیا کے چند بڑے ایک سیاسی شخصیت کی شادی پر تبصرہ کر رہے تھے ، پاس سے گذرتے کالم نویس کو بھی پاس بٹھا لیااور جب اسے تبصرہ کی دعوت دی تو سب حیرت سے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے لگے ۔ ایک صاحب نے کہاکیا آپ یہ لکھ کر دے سکتے ہیں۔ اسی ہفتے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں ایک کالم چھپا اور جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنا کہا لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔وہ خود تو اللہ کی جنت میں جا بسے مگر ہم نے دیکھا کہ جناب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہوئے۔ حرف مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ْ حرف تمنا ْ ہوتا ہے اورثقیل ہوتا ہے، دوسرا حرف قیمت پاتا ہے ۔ جس چیز کی قیمت وصول کر لی جائے انمول نہیں رہتی۔ جب مقتول کا بیٹا خون بہا وصول کر چکا ہوپھر وعدہ خلافی جرم بن جایا کرتی ہے۔ غیرت کا با غیرت لوگ بھی اسی وقت تک ساتھ نبھاتے ہیں جب تک غیرت کو بیچ نہ دیا گیا ہو۔زبان سے نکلا لفط رقم ہو کر ہی قیمتی بنتا ہے ، اس لیے کہ اس پر عمل ہونا ہے ۔ معاہدوں کو تحریر کرنے کا مقصد انھیں پایہ تکمیل تک پہچانا ہوتا ہے۔ کالم نویس کی مثال مبلغ جیسی ہے۔ مبلغ چالیس دن کی تبلیغ میں وہ پیغام ڈیلیور نہیں کر پاتا جو ایک درویش چوبیس گھنٹوں میں کر دکھاتا ہے۔ بے عمل زبان سے معجزے برپا کر دیتا ہے جو اس کو نظر بھی آرہے ہوتے ہیں مگر درویش جانتاہے معجزے برپا کرنا ایک عہد کے بعد ممکن نہیں رہا ۔ صاحب عمل سعی کرتا ہے اور داد لوگ نتیجے کو دیتے ہیں۔
ذکر ریوڑیاں بانٹنے کا شروع کیا تھا، وہ کاغذ کا ٹکڑاایک سیاسی شخصیت کی میز پر رکھا تھا ، اس کو بھی یقین تھا یہ انٹری بوگس ہے مگر اس نے کالم نویس سے کنفرم بھی کر لیا۔ یقین حاصل کرنا ایک چلہ یا تپسیا ہے ، یہ جو ہم سنتے ہیں فلاں بزرگ نے ایک نظر میں زندگی کا رخ بدل دیا، یہ جو ہمیں یقین ہوتا ہے فلاں جو کہہ رہا ہے سچ ہی ہو سکتا ہے، یہ جو فلاں نے لکھ دیا ہے غلط نہیں ہو سکتا ۔ یہ مقام تپسیا کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے مگر اس مقام کی حفاظت لگاتار تپسیا کی متقاضی رہتی ہے۔اور اپنے مقام کی حفاظت کرنے والے لوگ رات کے اندھیرے میں معاشرے کے مجرم نہیں چھڑایا کرتے، وہ شخصیت کے سحر سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی پاک دامنی کے قصیدے خود نہیں لکھا کرتے اور دوسروں پر سنگ باری بھی نہیں کیا کرتے۔لفظوں سے کھیلنا ایک فن ہے ۔طلوع آفتاب سے پہلے ایک ساعت آتی ہے جب فنکاراپنے فن کی داد پاتا ہے۔ البتہ جو فنکار سر شام ہی داد لینے چوکڑی مار کر بیٹھ جائے اسے تو اس کے شعبے کے لوگ بھی فنکار نہیں مانتے ۔ ہم خوبصورت لفظوں والے فنکار کو کالم نویس کیونکر مان لیں-

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.