طلحہ السیف
امت مسلمہ کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟
اس کا درست حل اور خلاصی کا صحیح منہج کیا ہے؟
کون سا طبقہ ایسا ہے جس کا طرز عمل اپنا کر ہم اپنی عظمت رفتہ بحال کر سکتے
ہیں اور نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کن لوگوں کے نقش قدم پر چل کر پائی جا
سکتی ہے؟
اس موضوع پر ہم خود کیا عرض کریں آئیے! زمانہ قریب کے ایک باکمال مصنف،
مثالی مفکر اور درمند داعی سے پوچھتے ہیں۔ وہ شخصیت جس نے پچھلی صدی کا
اکثر حصہ دنیا بھر کے بتکدوں میں توحید کی والہانہ صدا لگائی، مغرب کی آگ
کو گلزار سمجھ کر اس میں دیوانہ وار کودنے والوں کے دامن پکڑ پکڑ کر انہیں
کھینچا، مردہ ضمیروں کو چیخ چیخ کر حیات جاودانی کا پیغام سنایا، مقبرۂ
حال میں روشن ماضی کی اذانیں بآواز بلند سنائیں اور وراثت نبوت کا حق ادا
کرتے کرتے گزشتہ صدی کے آخری دن اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ مولانا
سید ابو الحسن علی ندوی قدس سرہ کی ہر کتاب، ہر خطبہ ہر لیکچر اسی ایک محور
کے گرد گھومتا ہے اور یہی بات مختلف انداز میں سمجھاتا نظر آتا ہے کہ یہ
امت اپنے پرانے، حقیقی اور روشن راستے کی طرف کس طرح لوٹ جائے اور عظمت و
عزت کے اس مقام پر کس طرح بار دگر فائز ہو جائے جو بنایا ہی اس امت کے لئے
گیا۔ حضرت ندوی(رح) کی یوں تو ہر کتاب ہی لاجواب ہے مگر جس کتاب نے ان کی
فکر کا زاویہ متعین کیا اور انہیں یہ نظریہ فراہم کیا وہ ’’سیرت سید احمد
شہید(رح)‘‘ ہے۔ حضرت ندوی(رح) نے سید صاحب(رح) کی تحریک کو جس نقطۂ نظر سے
دیکھا اور دکھایا اور تادمِ آخر دکھاتے رہے وہ اس اعتبار سے نیا تھا کہ ان
کے زمانے میں سید صاحب(رح) کا محض اتنا تعارف لوگوں میںباقی رہ گیا تھا کہ
سید صاحب(رح) ایک صاحب کرامت بزرگ تھے۔ پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے
مظالم سے نجات دلوانے نکلے تھے اور چند معرکوں کے بعد جام شہادت نوش فرما
گئے۔ ان کی اس عظیم ہجرت، تحریک جہاد، احیائے خلافت کے مقاصد اور آئندہ
زمانوں پر اس کے اثرات اور سب سے بڑھ کر امت مسلمہ کے لئے اس تحریک میں
پوشیدہ پیغام اور اسباق، ان باتوں کی طرف توجہ نہ رہی تھی۔ حضرت ندوی(رح)
نے اس موضوع کو اجاگر کیا اور ایسا کیا کہ آج کے زمانے کی کئی عظیم جہادی
تحریکیں سید احمد شہید(رح) کی تحریک سے روشنی لے رہی ہیں۔
’’القلم‘‘ کو اﷲ تعالیٰ نے یہ سعادت بخشی کہ اس نے حضرت ندوی(رح) کی اس فکر
کو اپنے قارئین تک پہنچانے کے لئے سید احمد شہید(رح) کی تحریک کے حوالے سے
خوب مواد اپنے قارئین تک پہنچایا اور اس موضوع پر ایک بہترین خاص اشاعت کا
بھی اہتمام کی جو اس موضوع پر ایک مفید دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج ہم
حضرت ندوی(رح) کاایک مختصر مگر اہم مضمون نذر قارئین کرتے ہیں جس میں انہوں
نے عامۃ المسلمین خصوصاً نوجوانوں کی فکری رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کن
لوگوں کو آئیڈیل بنائیں، ان کا ذکر عام کریں، ان کے نقش قدم پر چلنے کی
کوشش کریں، ان کی فکر کو پھیلائیں تو مسلمانوں کو عظمت رفتہ حاصل ہو ۔ یہ
مضمون حضرت ندوی(رح) نے اپنی معروف کتاب’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ میں بطور
ابتدائیہ کے لکھا ہے:
﴿۱﴾’’ایک نہایت رنج دہ منظر یہ ہے کہ بہت سے ہمت و عزم کے جوان، قوتِ ارادی
اور قوتِ عمل کے مالک بے توفیقی، کم نگاہی یا مسلمانوں کی بدقسمتی سے اپنی
کارآمد قوتیں بے کار اور اکثر مضر چیزوں میں ضائع کر رہے ہیں، ان آوارگانِ
فکر وعمل کو اگر صحیح راستہ نظر آجائے اور خدا کی توفیق سے اس پر قدم
اٹھائیں، تو بہت جلد منزل تک پہنچ سکتے ہیں، اسلام کی خدمت اور نوعِ انسانی
کی سعادت کا ایک ہی لائحہ عمل ہے، جو اس کتاب میں بتایا گیا ہے اور وہی ہے
جس کے مطابق جناب رسول اﷲﷺ ،آپﷺ کے خلفائے راشدین اور بعض مجددین امت نے
عمل کیا، یعنی دنیا میں اسلامی شریعت اور خلافت کا صحیح نظا م قائم کرنا
اور اسلام کے اخلاقی، روحانی ، مادی، سیاسی غلبے کی کوشش کرنا۔
اسی طرح سے مسلمانوں کی منزل مقصود کا بھی صرف ایک راستہ ہے اور وہی راستہ
ہے جس سے امت کا پہلا قافلہ منزل تک پہنچا ہے’’لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا
ما اصلح اولھا‘‘ اس امت کے پچھلوں کی اصلاح صرف وہی چیز کر سکتی ہے جس نے
اس کے اگلوں کی اصلاح کی تھی یعنی دین خالص اور اس کی پیروی۔
﴿۲﴾ہمارا مشاہدہ ہے کہ بہت سے سلیم الفطرت، خوش نیت، سادہ ذہن انسان اپنے
ماحول کی مادیت اور جمود سے اکتا چکے ہوتے ہیں، روحانیت اور سکون قلب کے
پیاسے ہوتے ہیں، فطری طور پر ان میں مذہب کے قبول کرنے کی استعداد و صلاحیت
ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو جب پانی کا کوئی چشمہ نظر آتا ہے تو پیاسوں کی طرح
اس پر گر جاتے ہیں اکثر یہ چشمہ گندہ، اکثر زہر آلود اور اکثر محض سراب
ہوتا ہے، بہت بڑی انسانی خدمت ہوگی کہ ان پیاسوں کو صاف چشمے کے کنارے کھڑا
کر دیا جائے کہ پیاسے کی پیاس بجھانا بڑا صدقہ ہے۔
بہت سے لوگ اپنی پستی، اور کمزوریوں کے معترف ہوتے ہیں، وہ اخلاق و عمل،
ہمت و عزم ،ایثار و قربانی، روحانیت و تقدس کا اپنے سے بلند نمونہ ڈھونڈتے
ہیں ان لوگوں کو ایسا نمونہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا کم اتفاق ہوتا ہے، وہ
سمجھتے ہیں کہ دنیا ایسے لوگوں سے خالی ہے، اور ہمیشہ خالی رہی، جب اپنے سے
کچھ بلند نمونہ دیکھ لیتے ہیں یا سن پاتے ہیں تو اپنے دل و دماغ اور اپنے
ایمان و اعتقاد کی ساری دولتیں آنکھ بندکر کے اس کی نذر کر دیتے ہیں اس میں
وہ طبقہ زیادہ مبتلا ہے جس کے متعلق شاعر نے کہا ہے:
نوجواناں تشنہ لب، خالی ایاغ
شستہ روتاریک جاں، روشن دماغ
کم نگاہ و بے یقین و نا امید
چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید
ناکساں منکر خود، مومن بغیر
خشت بند از خاک شاںمعمار دیر
میرے نزدیک غیر اسلامی تحریکوں کی کامیابی کا بڑا سبب﴿خصوصاً نوجوان طبقے
میں﴾ یہی ہے اور اس کا سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ ان لوگوں کو انسانی عظمت
اور اسلامی کمالات کے پہاڑ کی اس چوٹی پر کھڑا کر دیا جائے جہاں سے ایسے
تمام دعویدار اپنی پوری پستی میں نظر آئیں اور اس مقام سے مقامِ نبوت کی
بلندی کا تصور کرایا جائے کہ جب نبی کے ایک امتی اور خادم کا یہ مقام ہو
سکتا ہے تو نبی کا مقام کیا ہو گا۔
﴿۳﴾انسان کی طبیعت پر جس قدر ایثار و قربانی اور سرفروشی کا اثر پڑتا ہے
کسی چیز کا نہیں پڑتا، اس کے سامنے پوری منطق اور تمام بحث و استدلال بے
اثر ثابت ہوتا ہے، بڑے سے بڑا تن آسان اور عافیت کوش بھی ایسے لوگوں کا
کلمہ پڑھتا ہے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں ان کی عقیدت اور عظمت محسوس
کرتا ہے، ہمارے نوجوان دوسری قوموں اور اپنے ملک کے قائدین و محبان وطن کے
شاندرا اور سحر انگیز سوانح اور تذکرے پڑھتے ہیں،اور ان کے کارنامے اپنے
کانوں سے سنتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو طبعاً متاثر ہوتے ہیں اس
کے مقابلے میں﴿ اپنی خود فراموشی یا ناواقفیت سے﴾ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر
میں اندھیرا ہے، اس کا اثر براہ راست مذہب پر پڑتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ
نوجوانوں میں سیاست کی راہ سے الحاد بڑی سرعت سے آرہا ہے، اس لئے سخت ضرورت
ہے کہ اپنے ہی ملک کے ان دینی قائدین و مجاہدین کے حالات کی اشاعت کی جائے،
جو قربانی اور سرفروشی میں بھی منزلوں آگے ہیں۔
﴿۴﴾اردو میں صوفیہ و مشائخ کے تذکروں کی کمی نہیں، مجاہدین اسلام کے تذکروں
کی کمی ہے مگر وہ بھی معدوم نہیں لیکن قرآن کی اشاعت اور رسول اﷲﷺ کی سیرت
کے بعد صرف انہیں حضرات کی سیرت پورے طور پر مفید ہو سکتی ہے، جو سیف و
تسبیح کے جامع ہوں اور جن سے محبت و شوق الٰہی کے ساتھ حرکت و عمل کی قوت
پیدا ہو۔
ایک عارف، ایک مصلح اور ایک مجدد کی حیثیت سے بھی یہ سیرت مکمل ہے، اور
مسلمانوں کے ہر طبقے کے مطالعے کے لائق۔
نوجوانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ خود بدلنے کے بجائے زمانے کو بدلنے کی
ہمت کریں۔
ناز کیا اس پہ، جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد وہ ہیں، جو زمانے کو بدل دیتے ہیں!
سلطنتوں کو فتح کرنے کا حوصلہ رکھیں کہ نوجوانوں نے یہ بھی کیا ہے ،جسم کی
آرائش و زیبائش چھوڑ کر بزم جہاں کی آرائش کی فکر کریں اور دیکھیں کہ کیا
چیزیں کم ہیں کہ پوری کردیں، کیا رخنے ہیں کہ بھر دیں ، کیا چیزیں بیکار ہو
گئی ہیں کہ نکال دیں۔ اہل خانقاہ اور مشائخ کو اس کا پیغام ہے کہ:
اے پیر حرم ، رسم و رہ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا
اﷲ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا
تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقے
مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
مضمون آپ نے ملاحظہ کیا، اس میں نمبر ۴ کو بار بار پڑھنے اور دل میں اتارنے
کی ضرورت ہے اس میں تکمیل مقاصد کے راستے کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔ |