السفر وسلیۃ الظفر

عربی کا مشہور مقولہ ہے۔"السفر وسلیۃ الظفر" "سفر کامیابی کی کنجی ہے"۔ صاحب مقولہ عمر بھر اونٹ پر بیٹھ کر صحرا کی خاک پھانکتے رہے ہیں . . یا گھوڑے کی پشت پر سوار دوسروں کو دھول چٹاتے رہے ہیں۔۔۔موصوف کا گذر ساحل پٹی پر موجود کراچی جیسے انہونے شہر سے نہیں ہوا شائد . . اگر ہو جاتا تو اِس مقولہ سے شائد محروم رہ جاتے ہم . . سفر کر کے منزل پا کر کامیابی ضرور ملتی ہو گی . . پر جو سفر کے دوران گذرتی ہے وہ یاران جفا کے بنا کون جانے ہے . .

زندگی یوں تو حوادث کا دوسرا نام ہے . . روز اک انہونی منہ کھولے کھڑی نظر پڑتی ہے . . کچھ رب کی دِین ہوتی ہیں کچھ بندا اپنے شوق ہاتھوں حاصل کرتا ہے . . ایسا ہی کچھ ہوا ہمارے ساتھ . . ہم اْس شہر میں پِدارے جہاں صبح کے وقت ریڑھی پر گولا گنڈا بکتا ہے اور رات اْسی پر سوپ بِکتا دیکھائی دیتا ہے . . . محفلِ یاراں جوبن پر تھی کہ ناجانے دل میں کیا آئی ؟ ہم ضد لگا بیٹھے میرے کو کراچی کی لوکل بس میں سفر کرنا ہے . .یار دوستوں نے بہت سمجھایا. . بھائی اور کوئی ایڈونچر کر لینا. . . پر خْدارا یہ ظلم نا کرو اپنے ساتھ. . .اب ہم ٹھہرے ضد پوری کرنے والے. .ہم نے ٹھان رکھی تھی . . سو پورا کیے بنا ہٹنا . . خاندان مغلیہ کی ناک کٹوانے برابر تھا . . . احباب کی نصحیتوں کو ان سنی کر کے ہم نے ہاتھ یوں آگے بڑھایا جیسے موت پر بیعت چاہ رہے ہوں. . .بہتی گنگا ہوتی تو شائد سبھی ہاتھ دھو لیتے . پر یقین جانیے یہاں کیسی نے ہمارا ساتھ دینے پر رضامندی ظاہر نا کی . .

ہم احباب کی اِس بے رخی سے دل برداشتہ بس سٹاپ پر جا کھڑے ہوئے . . . انتظار کے لمحے بڑھے نا تھے ابھی کہ دور سے بس آتی ہوئی یوں دیکھائی دی. . جیسے صحرا میں پیاسے کو پانی. . . بس کا آنا تھا. . . گویا اسرافیل نے صور پھونک دیا ہو. . . ہر طرف ایک نفسا نفسی کا سماں بندھ گیا. . . . وہ اودھم مچا کے الامان والحفیظ . . یہ تو بعد میں معلوم پڑا . یہاں سوار ہونے کے لیے اور کچھ نہیں تو کم از کم پہلوان ہونا بہت ضروری . . یہاں تو فاول پر فاول ہو رہے تھے . . اک نصیب مارا سوار ہونے قریب تھا . پیچھے سے کیسی نے کمر میں ہاتھ ڈالا . . بصد مشکل جہاں سے چل کر وہاں تک پہنچا تھا باعزت و اکرام وہیں پہنچا دیا گیا . . ہم نے گلا پھاڑ کر بہیترا سمجھایا بھائی صاحب خْدا کے لیے مہذب پن کا ثبوت دیجیے. . . زرا دھیرے سے چڑھیے. . پر نقار خانے میں طْوطی کی آواز کون سْنتا ہے بھلا. . . پیچھے سے دھکا آیا. . .ہم فٹ بال کی طرح قلابازی کھاتے ہوئے عین نقطہ ارتقاء میرا مطلب پائیدان کے ساتھ جا لگے. .. نقطہ ارتقاء پر تو پہنچ گئے. . . پر وہ کہتے ہیں سر منڈواتے ہی اولے پڑئے. . . یہی حال کچھ ہمارا تھا. . . مقصود سامنے تھا. . پر ہم اتحیات کی شکل میں عجز و انکساری کا عملی نمونہ بنے بیٹھے تھے. .ابھی ہم سنبھلے نہیں تھے . . اک بھاری بھر کم عمر(شروع سے نہیں آخر سے) آنٹی ہمارے گھٹنے پر جو قعدہ کی شکل میں تھا. . . پاوں رکھ کر فضا میں بلند ہوئی . . . اندازے کے مطابق اگر نا بھی رکھتی تو بآسانی چڑھا جا سکتا تھا. . یہ بھلا ہو اْس کنڈیکٹر کا. . . جس نے بھکاری سمجھ کر بھیک جھولی میں نہیں ڈال دی. . ورنہ حشر تو ہمارا بھکاریوں جیسا ہو چکا تھا. . . .اْس نے ہاتھ تھام کر بامشکل بس میں اڑیسا. . . . . .یوں بس میں ہم باعزت طور سے سوار ہو گئے. .کراچی کی بس سواریوں سے اور لالچی کا پیٹ پیسوں سے کبھی نہیں بھر سکتا . . . داخل ہوتے ہی ہماری مِچی مِچی آنکھیں دھوپ میں نہائے ہوئے جزیرے (سیٹ) کو ترسنے لگئی. . . پر خالی سیٹ گدھے کے سر پر سینگ کی طرح غائب تھی . .

یقین جانیے ویسے ہمارا قد اتنا لمبا نہیں ہے. . . جس پر فخر کر کے سینہ دو چار انچ مذید پھلایا جا سکے. . .اْس دن ہمیں اپنے اتنے سے قد پر بھی بہت غصہ آیا. . . .بس میں سیٹ کے نام پر کلنک لگے تختے دھرے تھے. . جن پر نمبر قائد اعظم دور کے پیوست تھے. . .ہم نے کنڈیکٹر صاحب کو پکارا . . . !! بھائی صاحب سیٹ تو دے دیجیے. . . . وہاں سے لتاڑا ہوا جواب آیا. . . کیوں بھئی گھر لے کر جائے گا کیا ؟؟؟چاروناچار ہم بس میں کھڑے ہونے کی ناکام کوشش کرنے لگے. . . . پورے قد سے کھڑے ہوتے تو بس کی چھت ہمیں اپنے آباو اجداد پر فخر سے کھڑا نا ہونے دیتی. . .بلآخر ہم نے بس میں ہی ادھوری چھوڑی گئی نماز پوری کرنے کا تحیہ کر لیا. .اقعدہ کی حالت میں چھوڑی گ?ی نماز کو رکوع میں جا کر پھر سے شروع کر دیا. . . .اچھی بھلی جوانی میں دادی جان کی جھکی کمر کی ریہرسل کروا دی . . ہاکی کے پلیئر دوہرے ہو کر اتنی اذیت نا اٹھاتے ہوں گئے جتنا ہم نے اْس سٹاپ کے آنے تک اٹھائی. . .بس کے ہچکولے. . . . . مساج کا کام دے رہے تھے. . . .اتنے میں ایک سیٹ کی پشت پر نگاہ پڑی تو نمبر لکھا ہوا تھا. . . نمبر کے نیچے لکھا تھا ریشم. . .بس پھر کیا تھا ہمارا سویا ہوا مرد جاگ گیا. . . . اب روزِ محشر ہمیں حسینوں کو بھی منہ دکھانا ہے. . کیسے کہہ دیں کہ حسین چہرہ دیکھ کر جو فرحت ہوتی ہے اس سے ہم نے خود کو محروم رکھا. . . جیب سے موبائل نکال کر نمبر نوٹ کرنے ہی لگا تھا . . بس ایک انجان کھڈے میں اِس طرح داخل ہوئی جیسے بھپرا جانور مذبح گاہ میں داخل ہوتا ہے . . .ہم جو بس کی دْم(آخری حصہ) پر کھڑے تھے. . . نو دو گیارہ ہوتے ہوتے بس کے سر(شروع) پر جا لڑھکے . . . اتنی جلدی تو نیل آرم سٹرانگ بھی چاند پر نہیں پہنچا ہونا. . . جتنی جلدی ہم پاوں سے سر کا فاصلہ طے کر بیٹھے. . .جب مقام تجلٰی پر پہنچے تو یوں ہوا جیسے تجلی خْدا سے موسی کے ساتھ ہوا. .نا من کا ہوش رہا نا تن کا. . .جب ہوش آیا . مسافر لوگ منہ پر چھینٹے مار رہے تھے. . . .یہ غیر اخلاقی و حواس باختہ جھٹکا نعمت غیر متبرقہ ثابت ہوا. . . اور ہم ایک عدد سیٹ نما بینچ پر بیٹھا دیے گئے. . .جس پر ٹیک نام کی چیز نہیں تھی. . . پر وہ تختہ پر بیٹھ کر ہم اپنے آپ کو کلرکہار میں موجود بابر کے تخت پر بیٹھا محسوس کرنے لگے. .دو آدمیوں نے ہمیں دونوں بازوں سے تھام رکھا تھا کہ خدانخواستہ اب کی بارے جھٹکا لگا تو بھائی صاحب کیسی فیلمی ہیرو کی طرح بس کا کانچ توڑ کر باہر ہی نا جا گریں. . . گٹکے کھا کھا اْن ظالموں کے ہاتھوں کا ماس رفو ہو گیا تھا. . اْن کے ہاتھوں کی گرفت اپنی نازک اندام بانہوں پر دیکھ کر یو گمان ہوا جیسے کیسی اہرام سے نکلے فرعون کی انگلیاں بازو پر پیوست ہو چکی ہیں.. . ان کی بن ماس انگلیوں کے نشان یوں کْندہ ہو چکے تھے جیسے کیسی قبر کے تختے پر الفاظ کندہ ہوتے ہیں. .کل قیامت کو جب وہ دونوں اٹھائے جائیں گئے تو ہمارے بازوں سے اْن کی انگلیوں کے نشانات لے کر اْنہیں واپس کیے جائیں گئے. . .سفر کی ساری صعوبت ایک طرف. . . . یہ اذیت ناک ہاتھ نادر شاہی قتل عام کی اذیت سے بھی بڑھ کر رہے. .حد تو یہ ہوئی. . . . جب ڈرائیور نے شیشے میں آنکھیں نکال کر گھورتے ہوئے سیٹ ایک عورت کے لیے چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا. . .ہمیں سیٹ کے چھوڑنے کا اتنا دْکھ نہیں ہوا. . جتنا اْن کی قید بامشقت سے چھوٹنے کی خوشی حاصل ہوئی. .اب ہم پھر ست آدھ موئے کھڑے ہو گئے . . کراچی کی سڑکوں کے گڑھے اور غریب کی ذندگی میں مشکلات کبھی ختم نہیں ہو سکتیں . . ایک نیم وا گڑھے پر بس کا گذر ہوا تو کھڑے ہوئے مسافروں کی لائن میں ہر سر پہلے پیچھے اور پھر آگے والے سر سے ٹکرایا . . مسافروں نے ایک دوجے کو "زرا ہوش کر کے کھڑے ہو" کی تنبیہ کی . . . . ہم جو پہلے چھت میں لگے لوہے نما ڈنڈے کو پکڑ کر بس کے جھٹکوں کے ساتھ جْھول رہے تھے . . اب اِس زور سے پکڑ کر ایستادہ ہو گئے "زمین جنبد نا جنبد گل محمد" پر کچھ مذید گمراہ کن جھٹکوں اور ہماری گرفت کی مضبوطی سے ہمارے ہاتھ میں آ رہا. . .کنڈیکٹر خونخوار نگاہوں سے گھورتا ہوا زبان سے پھولوں کی لڑیاں برسانے لگا . . خْدا اْسے معاف کرئے ہم نے تو اْسی وقت کر دیا تھا . . مسافر لوگ ترچھی ترچھی نگاہوں سے یو دیکھنے لگے جیسے آگرہ کے پاگل خانے سے کوئی بھاگ کر یہاں آ نکلا ہو . . .
کیوں دیکھتے ہو ترچھی ترچھی نگاہوں سے
اک راڈ ہی تو گرا ہے کوئی قیامت تو نہیں

یہ تو بھلا ہوا ہمارا نشانہ پکا نہیں تھا. . . ورنہ دوسرا سرا پرے بیٹھی آنٹی کے سر میں جا لگتا. . .پھر یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوئے جاتے ہیں کہ ہم پر کیا بیتتی. . .وہ بھی کھڑے ہو کر دو لگا دیتا جو گلی میں کتا نظر آ جانے پر گھر کی راہ بھول جاتا ہے. . ایک سیٹ خالی ہوئی تو ہم نے کنڈیکٹر سے پوچھا کہ بھائی صاحب یہاں بیٹھ جائیں تو جواب آیا اووو نواب کی اولادکھڑا رہ آرام سے. . وہ پیچھے باجی کھڑی ہیں انہیں بیٹھنے دے. . اب ہم اْسے کیا بتاتے کہ ہم کس کی اولاد ہیں اور یہ سب تو ہمارے ہاتھ کی کمایا ہوا ہے. .اﷲ اﷲ کر کے وہ منزل آئی جہاں ہمیں اترنا تھا . . اتر کر جب گھر پہنچے تو سبھی نے حلیہ دیکھ کر پہچاننے سے انکار کر دیا . . . جب ہم نے زبان سے دو شبد ادا کیے تو یقین آیا . . . ہمارا اپنا ہی سپوت ہے . . ماں جی کی آنکھیں نمناک ہو گئی . . . زبان سے یہ شعر ادا کرتے ہوئے واش روم جا کر چینج کرنے کا حکم صادر فر دیا . .
جان بچی سو لاکھوں پائے
لوٹ کے بْدھو گھر کو آئے

 

Tayyab Tahir
About the Author: Tayyab Tahir Read More Articles by Tayyab Tahir: 2 Articles with 1979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.