جاوید ملک / شب و روز
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف قومی اسمبلی میں خوب گرجے برسے سیاستدان سوکنوں کی
طرح جب تک ایک دوسرے کو طعنے نہ دیں شاید ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی اس لیے
اس اجلاس میں بھی اصل مدعا طعنہ زنی کی نظر ہوگیا ۔ سپیکر قومی اسمبلی کے
خصوصی حکم سے نیب کے زیر تفتیش ملزم شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس
میں بلایا گیا تھا لیکن شہباز شریف نے نیب کے وہ پول کھولے کے اسمبلی ہال
میں موجود ہر شخص انگشت بدنداں تھا اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی یہ
کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر وفاقی احتساب بیورو کے قوانین میں تبدیلی مطلوب
ہے تو حکومت حزب اختلاف کی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے ۔
شہباز شریف کے الزامات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں کوئی بھی ادارہ اس قدر
مقدس کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ملکی وقار اور بقا کو داؤ پر لگا دے اور ہم اس
کے تقدس کے ترانے گنگناتے رہیں وفاقی احتساب بیورو پاکستان اور چین کے
تعلقات پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہے ؟ ترکی جیسے برادر اسلامی ملک سے ہمارے
تعلقات کو ٹھوکر پر کیسے رکھ سکتا ہے ؟ سی پیک جیسے اہم منصوبے کی شفافیت
کو کیسے داغدار کر سکتا ہے ؟ یہ ہمارا ادارہ ہے یا ہمارے دشمنوں کے ایجنٹوں
پر مشتمل کوئی عالمی سازش ؟
وطن عزیز اس وقت جس نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اس کو مدنظر رکھا جائے تو
شہباز شریف کا یہ مطالبہ درست دکھائی دیتا ہے کہ ان تمام معاملات پر ایک
اعلی سطحی کمیٹی قائم کی جائے جو اس امر کا جائزہ لے کہ یہ احتساب نما
انتقام اصل میں ہے کیا ؟ وزیر قانون فروغ نسیم بھی قانون کی پیچیدگیوں میں
مت الجھیں یہ وقت چونکہ چنانچہ کا نہیں ہے جب ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہوں
وقار کی دھجیاں اڑ رہی ہوں سالمیت کے لالے پڑے ہوں تو قوم ٹھوس اقدامات کی
توقع رکھتی ہے نہ کہ بھول بھلیوں کی ۔
شہباز شریف نے ماضی کے ایک پرانے قصے کو بھی دہرا دیا کہ عمران خان نے ایک
بزنس مین جاوید صادق کو ان کا فرنٹ مین قرار دیا تھا جس پر شہبازشریف نے
قانونی چارہ جوئی کی اور اب عمران خان عدالتوں سے بھاگتے پھر رہے ہیں
سیاستدان بلا سوچے سمجھے ایک دوسرے پر الزامات کی توپ داغ دیتے ہیں لیکن اس
سے کاروباری طبقے کا کیا حشر ہوتا ہے انہیں کرب کے کس سمندر سے گزرنا پڑتا
ہے سیاستدانوں کو شاید اس کا احساس تک نہ ہو عمران شہباز" تو تو میں میں"
کا کھیل رچائے ہوئے ہیں مگر ان الزامات کی بھٹی میں اپنے کاروبار سمیت جلنے
والے جاوید صادق کے بارے میں کسی نے سوچا نہ مڑ کے دیکھا دو سانڈوں کی
لڑائی میں کوئی غرق ہو جائے ان کی بلا سے۔
شہباز شریف کی چیخیں تو اس وقت سنائی دے رہی ہیں جب نیب کا شکنجہ ان کے گلے
میں فٹ ہو گیا ہے وگر نہ ماضی میں پیپلزپارٹی یہ ہی رونا روتی رہی ہے اس
وقت لیگی قیادت اقتدار کے زعم میں اپوزیشن پارٹی کے کےخدشات کو تمسخر میں
اڑا دیا کرتی تھی ۔ قومی اسمبلی کےاس ہنگامہ خیز اجلاس سے ایک روز قبل
اخبارات کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس نے وفاقی دارلحکومت میں وزیراعظم
عمران خان سے ملاقات کی جبکہ اسی روز اخبارات و جرائد کی نمائندہ ایک دوسری
تنظیم این پی اے کا وفد لاہور میں گورنر پنجاب چوہدری سرور سے ملا ۔ ان
دونوں ملاقاتوں میں بھی اخباری صنعت کی موجودہ زبوں حالی کا ذمہ دار قومی
احتساب بیورو کو قرار دیا گیا ۔ اخباری صنعت کے قواعدوضوابط کو سمجھے بغیر
بعض اشتہاری کمپنیوں کے مالکان کو گرفتارکرلیاگیا بعض مالکان کو بزور طاقت
پلی بارگین پر مجبور کردیا گیا اور جنہوں نے ناکردہ گناہوں کے زہر کا پیالہ
پینے سے انکار کیا وہ ابھی تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ۔ اس ساری
صورت حال کا خمیازہ اخباری صنعت بھگت رہی ہے اخبارات کے دفاتر پر تالے
جھولنے لگے ہیں اور اس صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگوں کے گھروں کا چولہا بجھ
گیا ہے ۔
وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں ، وزیر اطلاعات فواد
چوہدری کی کھلی پیشکش کو دھوئیں میں نہ اڑایا جائے قومی احتساب بیورو کو
مقدس گائے بنانے کے بجائے ضروری ترامیم کی جائیں ایک آمر کے قائم کردہ
ادارے کو "بائے بائے " بھی کہا جاسکتا ہے ایک نیا اور خامیوں سے پاک احتساب
کا ادارہ قائم کیا جاسکتا ہے جو ملک کی خوشحالی میں معاون ہو نہ کہ ترقی کے
پہیے کو جام کر دے ۔ایک ایسا ادارہ جو انصاف کی راہ پر چلے نہ کے انتقام کے
۔ ایوان بالا اور زیریں کے تمام نمائندوں کو حالات کی نزاکت کو بھانپنا
ہوگا اگر اب بھی وہ جو کر ہی بنے رہے اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو
تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ شہباز شریف کے الزامات اگر درست ہیں
تو نیب کے چیئرمین سمیت تفتیشی ٹیم پر غداری کا مقدمہ دائر ہونا چاہیے
کیونکہ بلا ثبوت اتنے سنگین الزامات جن سے ملکی سلامتی داؤ پر لگ جائے قومی
احتساب بیورو کیسے عائدکرسکتا ہے اور ہم کیسےکسی ادارے کی مضحکہ خیز حرکات
پر چپ بیٹھ سکتے ہیں ۔
|