سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ
بنگلہ دیش میں بھی سیاسی انتقام کی لہرپورے زوروشورسے دکھائی دے رہی
ہے۔خالدہ ضیاء گزشتہ ایک دہائی سے عدالتوں کاسامناکررہی ہیں۔ ان کے خلاف
37مختلف مقدمات تھے،جن میں سے ایک اہم مقدمہ1991ء سے1996ءاور2001ء سے
2006ءتک بحیثیت وزیراعظم اختیارات کاغلط استعمال اوربد عنوانی کے الزام کے
حوالے سے تھالیکن سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا نے اپنے خلاف بچوں کی بہبود
کیلئے بین الاقوامی فلاحی فنڈز میں خرد برد کے الزامات سے انکارکیا تاہم8
فروری کوسنائےجانے والے عدالتی فیصلہ میں حزب اختلاف کی رہنماخالدہ ضیا
کوبدعنوانی کے الزامات کے تحت پانچ سال کی سزا سنائے جانے کے بعدمظاہرین
اورپولیس میں جھڑپیں ہوئی لیکن فیصلہ اب تک تبدیل نہیں ہوسکا۔ ڈھاکہ کی
عدالت نے جویہ فیصلہ سنایاتوخالدہ ضیا کے ہزاروں حامی عدالت کے باہر
موجودتھے جنہیں منتشرکرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کااستعمال کیا۔اس سزا کے
باعث72سالہ بنگلہ دیشی رہنما رواں برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا حصہ
نہیں بن سکیں ۔
یہ مقدمہ خالدہ ضیا کے خلاف قائم درجنوں مقدموں میں سے ایک تھا جو ان کے
خلاف ان کی حریف موجودہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے قائم کیے ہیں۔ خالدہ
ضیا نے ان الزامات کی وجہ سیاسی مخالفت قرار دیا۔ خبر رساں ادارے ڈیلی سٹار
کے مطابق عدالت میں جانے سے پہلے انہوں نے روتے ہوئے رشتہ داروں سے کہا
’’میں واپس آؤں گی، پریشان نہ ہوں اور بہادر بنیں"۔خالدہ ضیا، جو بنگلادیش
نیشنل پارٹی کی سربراہ ہیں، کو1991ء میں اپنے مرحوم شوہر ضیاء الرحمٰن (جوشیخ
مجیب کے خلاف ہونے والی بغاوت کے قا ئدتھے اور شیخ مجیب کو صدارت سے ہٹانے
کے بعد ملک کے صدر بنے اوربعد میں خود بھی ایک بغاوت کے نتیجے میں قتل ہوئے)
کی یاد میں قائم یتیموں کے ایک ٹرسٹ سے رقم خوردبرد کرنے کے الزام میں5سال
قید کی سزا سنائی گئی ہے، خالدہ ضیاء کے پاس ابھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ
میں اپیل کا حق تھالیکن انہوں نے اپنے اس حق کواستعمال نہیں کیا۔
عدالتی حکم سے بنگلا دیشی سیاست سے دو جماعتی نظام اور ضیاء الرحمن کے
خاندان کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ بی این پی اور حکمران جماعت عوامی لیگ ماضی میں
یکے بعد دیگرے اقتدار میں آتی رہی ہیں۔خالدہ ضیاء اور وزیر اعظم حسینہ
واجد یہ دونوں خواتین بنگلا دیشی سیاست پہ چھائی رہی ہیں لیکن گزشتہ ایک
دہائی سے خالدہ ضیا کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے۔ انتخابات کے دوران ایک
غیرجانبدار نگراں حکومت کو اختیارات نہ دینے کے حوالے سے کی گئی عوامی لیگ
کی آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےبی این پی نے 2014ء کے انتخابات
کا بائیکاٹ کیاتھاجس کی وجہ سے پارلیمان میں ان کا کو ئی نمائندہ نہیں ہے۔
بی این پی کا یہ نعرہ ہے کہ ’’خالدہ ضیا ہماری سربراہ ہیں، ضیا الرحمن
ہمارا نظریہ ہے، طارق رحمن ہمارا مستقبل ہے‘‘۔ لیکن خالدہ ضیا کی عمر72سال
ہے اور ان کی صحت بھی خراب ہے۔ عدالتی حکم کے بعد وہ شاید آئندہ انتخابات
میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ ان کے بیٹے اور سیاسی وارث طارق رحمن کو بھی
مختلف مقدمات کا سامنا ہے اور وہ جلاوطنی میں ہیں۔ عدالتی حکم بنگلا دیشی
وزیراعظم کے اِس اعلان کے صرف ایک ہفتے بعدآیا،جس میں انہوں نے بتایا
تھاکہ پارلیمانی انتخابات دسمبر میں منعقد ہوں گے۔2014ء کے انتخابات میں
حسینہ واجد نے خالدہ ضیا کونظربند کردیاتھااورملک کی تیسری بڑی جماعت کے
سربراہ محمدارشادکوایک فوجی اسپتال تک محدود رکھاہواہے۔عوامی لیگ نے ایک
آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کوسیکولر ریاست قراردیا، جس کی وجہ سے عدالت نے
بی این پی کی اتحادی مذہبی جماعت،جماعت اسلامی کوانتخابات میں حصہ لینے سے
روک دیا۔ تاہم اب حکومت چاہتی ہے کہ بی این پی انتخابات میں حصہ لے، تاکہ
ان انتخابات کو2014ء کے انتخابات کی طرح مضحکہ خیز بننے سے روکا جائے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ معنی خیز انتخابات کیلئے بی این پی کا انتخابات
میں حصہ لینا ضروری ہے۔
خالدہ ضیا کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر اُن کی جماعت انتخابات میں حصہ
نہیں لیتی تو قانونی طور پر اس کی رجسٹریشن منسوخ ہو سکتی ہے۔تجزیہ نگاروں
کے مطابق بی این پی یا اُس کے کچھ دھڑے سیاسی گمنامی کی جگہ پارلیمان میں
اپنی موجودگی کو ترجیح دیں گے۔حکومت بھی بی این پی کو انتخاب لڑنے پہ
آمادہ کرنے کیلئے اُن کو بڑے پیمانے پر سرکاری نوکریوں سے نواز سکتی ہے
اور ان کے خلاف قائم مقدمات کو کم کرنے کا اعلان کر سکتی ہے تاہم اس وقت بی
این پی حکومت کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں ہے،3فروری کو ہونے والے تنظیم کے
اعلیٰ سطحی اجلاس میں اعلان ہوا تھاکہ اگرانتخابات غیر جانبدار نگران حکومت
کی نگرانی میں نہ ہوئے تو بی این پی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی جس کے جواب
میں حکومت نے بی این پی کے1100سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا تھااور
مظاہرین کودارالحکومت ڈھاکا سے دوررکھنے کیلئے چوکیاں بھی قائم کردی تھیں
جواب تک موجودہیں۔ بی این پی کے اعلیٰ عہدیداروں کاکہنا ہے کہ یہ روّیہ
حکومت کے خلاف اشتعال کومزیدہوادےرہاہے اورانتخابات سے قبل یہ سیاسی طوفان
حسینہ واجد کی حکومت کوبہالے جائے گا۔
ادھرحکومتی پارٹی کاکہناہے کہ شیخ حسینہ واجد مظاہروں اور اشتعال سے ڈرنے
والی نہیں ہیں، وہ2014ء میں پولنگ اسٹیشنوں میں بم دھماکوں
اورجلاؤگھیراؤکاسامناکرچکی ہیں۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حسینہ واجدنے
گزشتہ دس سالوں میں فوج کی تعداد دگنی کرکے اورکئی نئے فوجی اڈے تعمیر کرکے
فوج کی حمایت حاصل کرچکی ہیں۔اس صورتحا ل میں شیخ حسینہ واجد کی اقتدارسے
بے دخلی مشکل نظرآتی ہے اوراس وقت حسینہ واجد ایک ڈکٹیٹرکی طرح دندنارہی
ہیں۔
|