خان صاحب نے اقتدار میں آتے ہی بہترین تقریر کے ساتھ
انٹری دی۔ اگرچہ شہباز شریف بھی کچھ کم درجے کے مقرر نہیں اور ان تقریروں
کے جھانسے میں آنے والی قوم وہ سڑک ڈھونڈتی رہی جس پہ زرداری صاحب کو
گھسیٹنے کے دعوے کیے گئے تھے۔
خان ایک قدم آگے بڑھے اور نہ صرف سابقہ حکمرانوں کو گرفتاریوں تک لے گئے
بلکہ ان کی عیاشیوں کے پول بھی کھولے وہیں سادگی اور خاص طور پہ ریاست
مدینہ کا حوالہ بھی دے دیا۔ برسوں سے لبرل حکمرانوں کے ستائی قوم نے زبردست
خراج تحسین پیش کیا اور مذہبی محب وطن طبقہ نے بھی تلوار بے نیام لیے عمران
کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اور تمام لوگ تمام تر جماعتی وابستگیوں سے بالا
تر ہوکر خان کے دفاع میں اتر گئے۔
ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے۔ اور کرپٹ مافیا بے نقاب
اور اپنے انجام کی جانب رواں دواں تھا اور بڑے بڑے نام جیلوں کی جانب محو
سفر تھے اور ملک کی تقدیر بدلتی نظر آرہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا ڈاکو، چور
اور لٹیرے اب اپنے انجام منطقی کو پہنچ ہی جائیں گے اور یاست ان کے ہاتھ
کاٹنے تک کی امیدیں دکھا رہی تھی۔ پوپمپیو کو ٹھینگا دکھانے پہ عوام بے
پناہ خوش ہوئی تو آئی ایم ایف کو بھی جھنڈی ہوتے دیکھ کر خوشی سے بے قابو
تھے اور بار بار خود کو چٹکی کاٹتے تھے مبادا خواب نہ نکل آئے۔ حتیٰ کہ وہ
تمام قصے عوام کو سنا دئیے گئے جو کہ یہود نے اپنے بنکوں، آئی ایم ایف اور
ورلڈ بنک کے ذریعے قوموں اور ملکوں کو اپنا غلام بنایا اور ان ملکوں کی
معاشی بربادیوں کے پیچھے آئی ایم ایف کی رونگٹے کھڑی کر دینے والی بربادیوں
کی داستانیں ہر طرف عام ہوگئیں۔
اور سارا ملبہ ساتھ ساتھ سابقہ حکومتوں پہ ڈالتے ان کو ایجنٹ اور
ایلومیناٹی کا کارندے بتاتے اور ان کو انجام تک پہنچانے کے سنہرے خواب بھی
سنائے گئے۔
بیورو کریسی کو سیدھا کرتے، امریکیوں کو جواب دیتے اور انڈینز کو خاص طور
پہ آئینہ دکھانے پہ قوم اتنی خوش کہ سوچا جانے لگا کہ بابائے قوم قائداعظم
کے ساتھ شاید آنے والے وقتوں میں خاں صاحب کی تصویر بھی نوٹ پہ نظر آئے گی
اور دوسرا قائداعظم قرار دئیے جائیں گے۔
یوں بیک وقت بہت سے اچھے کام شروع ہوا اور قوم بہت سے بوجھ جھیلنے پہ تیار
نظر آئی جیسے بجلی کے بل وغیرہ اور اس پہ بھی سوشل میڈیا پہ خان صاحب کے
خلاف کچھ سننا گوارا نہ کیا۔ اتنی زیادہ تبدیلیاں آرہی تھیں اور راوی چین
ہی چین لکھ رہا تھا کہ یکایک پتہ چلا کہ خزانہ خالی ہو رہا لہٰذا پہلا
فیصلہ یہ سامنے آیا کہ جی بجائے ان چوروں ڈاکووں کو جیل میں سڑانے کے کیوں
نہ کچھ سودا ہو جائے اور ہم اپنے مسائل بھی حل کر لیتے ہیں اور ان کو دفع
کرو بہت سارے پیسے وہ ان سے نکلوا لیتے ہیں۔ خیر جیسے تیسے نواز کو باہر
لایا گیا اور عوام کو تسلی یہ دی کہ جی دولت واپس آجائے گی اور ملک پٹڑی پہ
چڑھ جائے گا۔ دولت کا تو پتہ نہیں البتہ جن کو بہت بڑا چور قرار دیا گیا وہ
سرعام باہر اور ریاست کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یوں ریاست مدینہ کے خیالی نعرے
سے کچھ باہر نکلے کہ محمدؐ نے تو اس فاطمہ کے بارے سفارش نہ مانی تھی جو
ایک اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی چوری کر بیٹھی تھی۔
پھر کچھ بیان بازی سامنے آئی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ کچھ نہ کچھ تو لینا
پڑے گا۔
اور بتایا یہ گیا کہ اس کے بنا ملک نہیں چل سکتا جبکہ اس سے پہلے قوم کو
آئی ایم ایف کے حوالے سے ملکوں قوموں کوغلام بنانے کے تمام تر رازوں سے
آگاہ ہی نہیں کردیا گیا تھا بلکہ تجارت کو گولڈ میں کرنے جیسی باتیں ہونے
لگیں جس پہ اہل یہود کاقافیہ تنگ ہوتا نظر آنے لگا اور اس کے بعد اچانک
یوٹرن پہ یوٹرن نہ صرف چوروں سے ڈیلنگ ہونے لگی بلکہ آئی ایم ایف سے قرضے
کی درخواستیں ہونے لگیں اور ساتھ میں یہ خبریں بھی چل نکلیں کہ آسیہ کیس پہ
کوئی فیصلہ مشکوک سا جلدی جلدی میں محفوظ ہو چکا ہے جس پہ قوم کوبے پناہ
تحفظات ہیں۔ اب جب معاملہ سودی قرضوں اور آئی ایم ایف اور چوروں سے ڈینلگ
جیسا سامنے آیا تو تلوار بے نیام کیے مذہبی محب وطن طبقے جو دلائل سے کسی
کو مقابل ٹکنے نہ دیتے تھے تلواریں میان میں ڈالے ششدر کھڑے تھے اور اسی
دوران قوم یوتھ کا وہ لبرل طبقہ جو پتہ نہیں الیکشن کے بعد کہاں جا سویا
تھا چمچے کڑچھے لیے اچانک بیدار ہوکر پل پڑا اور سود اور خان کے حق میں وہی
پرانی رٹی رٹائی دلیلیں جو ہر نئی آنے والی پارٹی دیتی آئی ہے وہی راگ پھر
الاپنے لگے اور ہر طرف بے ہنگم شور مچانے لگے۔
کہ جی ریاست اس کے بنا نہیں چل سکتی اور پچھلی حکومتوں کے گناہ بھی اس کے
ساتھ دھل گئے کہ اسد عمر صاحب نے ان کو بری الزمہ قرار دیا ورنہ ہم نے تو
ایلومیناٹی کی سازشیں پکڑ لیں تھیں۔
اب ذرا ریاست مدینہ کو بھی دیکھتے ہیں۔ جب ریاست مدینہ بنی تو سب سے پہلا
مرحلہ ہوا بھائی چارے کا جس سے معاشی مسئلہ حل کیا حالانکہ آئی ایم ایف اہل
یہود کا اس وقت بھی ریاست مدینہ کے ساتھ تھا مگر ریاست مدینہ تو تربیت کی
ریاست تھی غزوہ بدر کے بعد احد کی جنگ ہوئی اور خندق کی صورتحال اس قدر
پیچیدہ اور خطرناک تھی کہ حالت جنگ میں دشمن کا گھیراؤ اور پیٹ پہ پتھر
باندھے صحابی نے جب ریاست مدینہ کے سربراہؐ کو اپنا پیٹ پہ باندھا پتھر
دکھایا تو جواب میں دوپتھر بندھے دیکھ کر اس میں یقینًا بے پناہ جذبہ بیدار
ہوا اور پھر شکوے شکایتیں بھی نہ رہیں۔
ان کٹھن ترین حالات میں بھی خود کھدائی کرتے، پیٹ پہ دو، دو پتھر باندھنے
والے والء مدینہؐ نے قیامت تک کے حکمرانو کو سنگین ترین حالات کا مقابلہ
کرنے کی اسٹریٹجی بتا دی۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے بنگلوں، عالیشان محلات میں رہتے ہیں،
سرکاری افسران بھاری بھرکم تنخواہیں غریب عوام کے خون کو چوس چوس کر اور
پھر سودی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ جس کو ہر آنے والا پچھلے کا گناہ بتا کر
خود کو بے قصور بتاتا اور جاتے جاتے خزانہ خالی چھوڑ جاتا اور ڈنگ ٹپاو
پالیسی سے کام لیتا آرہا ہے اور خود بھی لوٹتے ہیں اور آئی ایم ایف بے مقصد
بھی خرچ کرواتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب پہ بے پناہ ٹیکسوں کا بوجھ
ڈالنے کی بجائے نوکر شاہی کو سیدھا کیا جائے۔ تنخواہوں میں توازن ملکی
حالات کے مطابق ہو اور اس کے لیے تربیتی پروگرامز ہوں اور خود پریکٹیکل کر
کے دکھانا پڑے گا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب عنان حکومت سنبھالی تو خود سے ابتداء کی اور
وہ تمام جائیداد و دولت جو ان کو ملی تھی اور اپنی کمائی بھی واپس کر دی
پھر تمام حکمران طبقے سے وہ تمام زمینیں واپس لے لیں جو انہوں نے حکومت کا
فائدہ اٹھاتے بنائیں یا ان کو عطا کی گئیں تھیں۔
خان صاحب کیا سرکار کے نمائندوں کی تنخواہیں ایک عام آدمی کے برابر ہیں یا
عوام پہ بے پناہ بوجھ ہیں یہ جو حکمران طبقے کو مراعات دی جارہی ہیں ریاست
مدینہ میں تو سب سے زیادہ غریب گورنر ہوا کرتے یہ بڑے بڑے بزنس مین اگر اس
دفعہ اپنا بوجھ ریاست پہ نہ ڈالیں تو اس مد میں اربوں بچ سکتے ہیں جبکہ چند
گاڑیاں اور بھینسیں بیچنے سے مشہور تو ہوا جاسکتا ہے ریاست کے مسائل نہیں
حل ہوسکتے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ بہت اچھا ہے مگر عمل اگرچہ کٹھن لیکن اگر
اپنی ذات سے شروع کرو گے تو آسان ہو جائے گا۔ ورنہ ڈنگ ٹپاو پالیسی کھوکھلے
نعرے اس قوم کو اب متاثر نہ کرسکیں گے۔
ہیلمٹ اور کلین اینڈ گرین پاکستان اچھے منصوبے ہیں مگر جزوی فوائد ہیں
ریاست مدینہ اس دنیا کی معلوم تاریخ میں واحد ریاست تھی جس میں زکٰوۃ دینے
والے تو ہر طرف تھے لینے والا نہ ملتا تھا جبکہ امن اتنا تھا کہ زیورات سے
لدی پھندی عورت تنہا دور دراز کا سفر بے خوف و خطر کرتی۔
اﷲ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے مسائل کاحل بھی اس اﷲ کے سوا کسی
انسان کے بنائے ہوے نظام سے ممکن نہیں۔ کوئی وقتی یا جزوی فوائد تو ہو سکتے
ہیں مگر دیرپا اور مکمل حل اس لفظ ریاست مدینہ میں ہی پوشیدہ ہے نہ سعودی
نہ ترکی اور نہ کوئی مغربی ماڈل اس قابل ہے کہ بحرانوں سے بچا جاسکے۔ صرف
محمدیؐ ماڈل ہی اصل اور دیرپا حل ہے۔
ورنہ نواز کے بعد عمران اور عوام اپنا وہ مسیحا ڈھونڈنے سے باز نہ آئے گی
جو ابھی تک ان کی نظر سے اوجھل ہے.
|