عالمی سطح پر صحافتی برادری کو احتجاج بلند کی ضرورت ۰۰۰

ممتازسعودی صحافی جمال خاشقجی کی حق گوئی اور بے باک تحریروں پر المناک انجام

ممتازسعودی صحافی جمال خاشقجی کا خوفناک انجام ؟ سعودی عرب کی جانب سے کہیں بین الاقوامی سطح پر صحافیوں کو حق گوئی سے روکنے کی کوشش تونہیں؟ جمال خاشقجی کی2؍ اکٹوبر سے گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ترکی حکام کا دعویٰ ہے کہ جمال خاشقجی استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں قتل کردیئے گئے جبکہ سعودی حکام تاحال اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سعودی عرب پر مکمل وضاحت فراہم کرنے کیلئے سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ترکی حکام کا خیال ہے کہ جمال خاشقجی کو دو ہفتے قبل قونصل خانے میں 15رکنی سعودی ایجنٹوں نے قتل کردیا تھا جس کی سعودی عرب تردید کرچکا ہے۔ ترکی حکام نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی اور تحقیقات کیلئے سعودی عرب سے اجازت طلب کی تھی جسے دوہفتے کے بعداجازت دی گئی اور 16؍ اکٹوبر کی صبح سعودی قونصل خانے کی تلاشی کیلئے ترک تفتیشی عملہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہوا جبکہ اس سے قبل قونصل خانے میں صفائی کا عملہ داخل ہوا تھا جس کے تعلق سے بھی شکوک پایاجارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی تحقیقاتی عملہ قونصل خانے میں لومینل نامی کیمیکل کے ساتھ تلاشی لینا چاہتا تھا لیکن سعودی عرب نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بتایا جارہا ہے کہ اس کیمیکل کے ذریعہ خون کے نشان تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک حکومت کے قریب سمجھے جانے والے ترک میڈیا نے اس مبینہ آڈیوکے بارے میں دلخراش تفصیلات شائع کی ہیں ۔ ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ریکارڈنگ میں قونصل جنرل محمد ال التیبی کے چلانے کی آواز سنی جاسکتی ہے۔سعودی قونصل جنرل استنبول بھیجے جانے والے مبینہ سعودی ایجنٹس کو کہتے ہیں کہ ’’یہ باہر جاکر کرو۔تم مجھے مشکل میں ڈال دوگے‘‘۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی جو 2؍ اکٹوبر کو سعودی قونصل خانے میں اپنی شادی سے متعلق کچھ دستاویزات حاصل کرنے پہنچے تھے اور انکی منگیتر خدیجہ جنگیز قونصل خانے کے باہر انکا کئی گھنٹے تک انتظار کرتی رہی، کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد جمال خاشقجی کی منگیترجنہیں صحافی جمال نے اپنا سیل فون انکے حوالے کرکے قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے ترکی حکام کو مطلع کیا جس کے بعد جمال خاشقجی کی گمشدگی کی اطلاع منظرِعام آئی ۔ترکی صدر رجب طیب اردغان نے جمال خاشقجی کی گمشدگی اور انکے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا اسے منظر عام پر لانے کیلئے تفتیشی اداروں کو فوراً احکامات جاری کردیئے تھے اور وہ خود اس معاملہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔جمال خاشقجی ان دنوں واشنگٹن ٹائمز میں خدمات انجام دے رہے تھے اور وہ امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ جمال خاشقجی کے پاس 3سیریز ایپل واچس تھی جس کے ذریعہ ہوسکتا ہیکہ انکے ساتھ کس قسم کی تفتیش، تشدد اور قتل کا معاملہ پیش آیا آڈیوریکارڈنگ ہوسکتی ہے ذرائع کے مطابق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انکے جسم کے تکڑے تکڑے کردیئے گئے ہیں۔جمال خاشقجی کی گمشدگی اور قتل کا حقیقت سے پردہ اٹھ بھی پائے گا یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہی عالمی سطح پر صحافیوں کے لئے خوفناک انجام محسوس کیا جارہا ہے جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ عالمی سطح پر دباؤ پڑنے اور امریکی سینینٹس کی جانب سے سعودی عرب کے ملوث ہونے پر سخت کارروائی کی بات کہی جانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15؍ اکٹوبر کوسعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے فون پر بات کی جس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان کے مطابق جمال خاشقجی کی گمشدگی کے پیچھے کچھ ’’بدمعاش قاتل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں۔ شاہ سلمان سے بات کرنے کے بعد امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ سعودی حکومت اس بات سے بالکل لاعلم ہے کہ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ ترکی حکام نے اپنی ابتدائی رپورٹس میں جس طرح ایک 15رکنی ٹیم کی سعودی عرب سے ترکی آمد اور واپسی کی تصاویر اور ویڈویو جاری کی تھیں یہ واقعی حقیقت پر مبنی ہے اور شاہ سلمان نے جو بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہی ہے کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے پیچھے کچھ بدمعاش قاتل ہوسکتے ہیں ، کہیں شاہ سلمان ان ہی 15رکنی قاتلوں کا ذکر تو نہیں کئے۔اگر وہ 15رکنی بدمعاش قاتل ٹیم ترکی میں موجود قونصل خانے میں جاکر جمال خاشقجی کا قتل کرتی ہے تو اس کے پیچھے قونصل خانے کے دیگر عملے کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے اور بعض ذرائع کے بموجب قونصل جنرل خود بھی اس میں ملوث ہیں۔ترک ذرائع ابلاغ کا کہنا ہیکہ انہوں نے مشتبہ سعودی ایجنٹس کی اس پندرہ رکنی ٹیم کی شناخت کرلی ہے جو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے روز استنبول آئی اور واپس ہوگئی تھی۔دوسری جانب سعودی عرب کاکہنا ہیکہ جمال خاشقجی کی موت کے بارے میں رپورٹس ’بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ‘ ہیں اور وہ حقائق کا پتہ لگانے کیلئے تعاون کرنے تیار ہے۔اس سے قبل ترکی حکام کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی قونصلیٹ سے نکلنے کی فوٹوز مہیا کی جائیں جس کے جواب میں سعودی قونصل خانے کا کہنا ہے کہ اس دن قونصلیٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے بند تھے ۔ اب رہی بات شاہ سلمان کی کہ صحافی جمال کو ایک بدمعاش قاتل ٹیم قتل کرسکتی ہے تو وہ اس 15رکنی ٹیم جو 2؍ اکٹوبر کوترکی سے سعودی عرب واپس ہوئی یہ ٹیم کیوں ترکی گئی تھی اور قونصل خانے میں خشقجی کا انجام کس طرح کیا اسے منظرعام پر لانے کیلئے تحقیقات کا حکم دیں لیکن کیا یہ ممکن ہے؟سوال پیدا ہوتا ہیکہ اس پندرہ رکنی ٹیم کو کیا سعودی حکام منظر عام لائیں گے؟اگر لاتے ہیں تو پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گاجو ممکن دکھائی نہیں دکتا ؟واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمال خاشقجی پر تشدد کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنی جاسکتی ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہیکہ انہیں قتل کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے اور کیمیکل کے ذریعہ انکا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی گئی۔اگر یہ سب سچائی پر مبنی ہے کہ تو ان درندہ صفت انسانوں کا جنہوں نے یہ گھناؤنی حرکت کی ہے اور جس نے بھی اسے انجام دینے کے احکامات دیئے ہیں وہ اﷲ رب العزت ،ذول الجلال و اکرام کے قہر سے بچ نہ پائیں گے کیونکہ مظلوم کی آہ خالی نہ جائے گی اور ظالم ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو پہنچے گے۔ جمال خاشقجی نے ان مظلوم انسانیت کیلئے صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے آواز اٹھائی تھی اور انکی اس حق گوئی اور بے باکی کو دبانے کیلئے انہیں المناک موت دی گئی ۔جمال خاشقجی کے قتل پر بین الاقوامی میڈیا کو عالمی سطح پر آواز اٹھانی چاہیے ورنہ مستقبل میں مزید ایسے درندہ صفت افرادمیں اضافہ ہوگا۰۰۰

عالمی سطح پرسعودی عرب پر اسلئے بھی شکوک میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ جمال خاشقجی سعودی عرب کے ناقدین میں شمار کئے جاتے تھے، وہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030اور سعودی عرب میں دیگر اصلاحات پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں ان حالات میں اگر واقعی شاہ سلمان بن عبدالعزیز یا شہزادہ محمد بن سلمان کے اشارے کے بغیر بھی کسی نے ترکی میں موجود سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے خاتمہ کی ہمت کی ہے تو اسے منظرِ عام پر لانے کیلئے سعودی حکومت ذمہ دار ہوگی۔عالمی سطح پر جمال خاشقجی کی گمشدگی کے خلاف برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور اقوام متحدہ کی جانب سے دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر جو حالات پیدا ہورہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو شاہ سلمان سے ملاقات کیلئے 16؍ اکٹوبر کوریاض ، سعودی عرب بھیجا جہاں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اس سلسلہ میں ملاقات کرکے بات چیت کی۔ امریکی میڈیا کہ مطابق کہا جارہا ہے کہ جلد ہی سعودی عرب اس حقیقت کا اعتراف کرسکتا ہے کہ سعودی صحافی جمال کو استنبول میں سعودی قونصلیٹ کی عمارت کے اندر پوچھ گچھ کے دوران ہلاک کردیا گیا تھاجبکہ سعودی عرب نے تاحال ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ دوسری جانب سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں سعودی عرب کوئی تسلی بحش جواب دینے سے بھی قاصر ہے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی قونصل جنرل ترکی سے سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں اگر یہ سچ ہے تو پھر شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوجائے گا کہ جمال خاشقجی کوقتل کرنے میں کس کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی اور سعودی عرب کی خصوصی تفتیشی ٹیمیں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں کم و بیش 9گھنٹے تفتیشی عمل جاری رکھا۔ ترک فوجداری تفتیش کے دس ماہرین نے قونصل خانے میں چھان بین کے سلسلہ میں مصروف رہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے کہ امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این اور نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی حکومت عنقریب ہی جمال خاشقجی کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرسکتی ہے لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے ۔ جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے وزرائے خارجہ نے ابتداء ہی میں ایک مشترکہ بیان میں صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے حوالے سے قابلِ اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا ان ممالک نے کہا کہ جمال کی گمشدگی کے ذمہ داران کو اس کا جوابدہ ہونا چاہیے۔سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کا ملک جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں کسی بھی سیاسی اور معاشی دھمکیوں کو مسترد کرتا ہے اور اگر اس پر کسی بھی قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ جوابی کارروائی کرسکتا ہے اس بیان کے بعد ہی امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کا دورہ سعودی عرب ہوا ہے اور نہیں معلوم وہاں پر کس قسم کی بات چیت اور معاہدہ ہوا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیکہ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتیجے میں رواں ماہ ریاض میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس سے کئی اسپانسرز اور میڈیا ہاؤسز نے خود کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور برطانیہ و امریکہ بھی اس کانفرنس کے بائیکاٹ پر غور کررہے ہیں جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی ہے ان کے علاوہ امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن اور برطانوی وزیر برائے بین الاقوامی تجارت لیئم فاکس نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی میں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس میں اب شرکت نہیں کریں گے اس سے قبل ہالینڈ اور فرانس کے وزرائے خزانہ بھی اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہیں۔البتہ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے 19اکٹوبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اس کانفرنس میں شرکت کیلئے منگل کے روز سعودی عرب جائیں گے۔اس دورے کے موقع پر وہ شاہ سلمان اور ولیعہد محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔کانفرنس کا انعقاد مملکت کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے ہے تاکہ وہ ملک میں اپنے اصلاحات کے ایجنڈے کو فروغ دے سکیں۔لیکن ترکی میں ممتاز صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے سعودی عرب کی ساکھ کو عالمی سطح پر شدید متاثر کیا ہے اور اگر واقعی انکے قتل کے شواہد ملتے ہیں تو یہ سعودی عرب کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے ۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکہ ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک سعودی عرب کے خلاف کس قسم کا رویہ اپناتے ہیں۔ سعودی عرب نے ابتداء میں کہا تھا کہ اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی گئی تو اسکے نتائج سخت ہوسکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب ممتاز صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار ہوا تو یہ بات ان تمام صحافیوں کیلئے اہم ہوگی کہ اگر وہ سعودی عرب کی شاہی حکومت کے خلاف لکھنے کی جسارت کریں گے تو انکا انجام بھی جمال خاشقجی کی طرح خوفناک ہوگا اور ان صحافیوں کو اس بات پر بھی سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ کہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود سعودی سفارت خانہ یا قونصل خانے میں جانے کے بعد کیا وہ زندہ واپس بھی ہوپائیں گے؟تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پندرہ روز میں ہوسکتا ہیکہ جمال خاشقجی کے تکڑے تکڑے کرکے انہیں کیمکلس کے ذریعہ گلادیا گیا ہو اور اب انکی باقیات بھی ملنا دشوار ہے اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو یہ صحافت کے لئے المناک موت ہوگی۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.