سانولی ہاتھ اوپر کئے آنکھیں بند کئے گھوم رہی تھی اور
اپنے آپ میں مست گھوم رہی تھی اور حامد تصور میں اُسے دیکھ کر جھُوم رہا
تھا ۔
حامد جتنا اُس سے دور ہونے کی کوشش کرتا اُتنا ہی قریب آتا جاتا ۔ اُسے
کُچھ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے اور کب تک
ہوتا رہے گا ۔
اس غم کی دلدل سے نکلے تو اور دھنسے اور شکار نہ پھنسے اور زمانہ ہنسے ۔
اُس نے بہت کوشش کی کہ اپنا دل کہیں اور لگا لے مگر دل تھا کہ ساری دُنیا
گھوم کر پھر وہیں آ کر اٹک جاتا اور چاہت کی دنیا میں بھٹک جاتا اور اُسی
کھونٹے سے لٹک جاتا۔
اُس نے آخر کار محبت کی لہروں کے کے بہاؤ پر اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا کہ
جیسے مُراقبہ میں اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا جاتاہے۔جیسے توکل کرنے والے
اپنے آپ کو اور اپنے معاملات کو خُدا کے حوالے کر دیتے ہیں اور خوش رہتے
ہیں ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اس کا کوئی نتیجہ ہے بھی کہ نہیں ۔ شائد محبت کے رستے کی
کوئی منزل نہیں ہوتی بس رستہ ہی رستہ ہوتا ہے ۔ ایک بزرگ نے کہا ہے کہ اس
زمین پر اگر کوئ چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہے ۔
اس سے پہلے کہ وہ کسی نتیجہ تک پہنچتا کہ اذان کی آواز کانوں میں گونجنے
لگی اور وہ اس آسمانی ندا کی جانب چل پڑا۔
اب حامد گھوم رہا تھا اور دُنیا اُس کے گِرد گھوم رہی تھی۔
سانولی اُس کو حیرت سے تکتے تکتے خود بھی گھومنے لگی ۔
وہ دونوں کسی اور کے تصور میں گول دائرے میں گھوم رہے ہیں اور جھوم رہے ہیں
۔ اور لوگ بھی شامل ہونے لگے۔
سب والہانہ ایک ہی تصور میں چکر لگا رہے ہیں جو طواف کی سی شکل اختیار کرتا
جا رہا ہے۔ |