وہ چند دوست ہیں ۔ اُن کی دوستی خونی رشتوں سے زیادہ
مضبوط ہے۔ حالاں کہ موجودہ نفسا نفسی اور آپا دھاپی کے دور میں خونی رشتے
بھی دھوکہ و فریب اور خود غرضی و مطلب سے عاری نہیں ہیں۔ بقول شاعر۔
کب کون کسی کا ہوتا ہے
سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں
سب دل رکھنے کی باتیں ہیں
سب اصلی روپ چھپاتے ہیں
وہ سب سرکار کے ملازم ہیں اور اُن کی نوکری کے اوقات ِ کار تقریباً یکساں
ہیں کیوں کہ قریباً تمام دوست ایک ہی محکمے میں مختلف عہدوں پر کام کرتے
ہیں۔ خیر سے ‘ نثار کے علاوہ باقی تمام سارے شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے
گھروں میں خوش و خرم زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ البتہ نثار کی بھی منگنی ہو
چکی ہے اور شادی کی تیاریاں جاری ہیں۔میری اُن سے جان پہچان مرجان کے توسط
سے ہوئی اور اَب ہر ماہ ، دو ماہ میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ ماہ مرجان
نے مجھ سے کئی مرتبہ موبائل فون پر رابطہ کیا اور ہر بار راولپنڈی آنے کا
اصرار کرتے ہوئے کہتا کہ آپ کو نثار ، سہیل ، ابرار اور مولوی عبد الحفیظ
بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔میں اُس کو مصروفیات کی ایک لمبی فہرست بتاتا تو وہ
خاموش ہو جاتا اور یوں اگلے ویک اینڈ تک بات ٹَل جاتی۔ بالآخر میں ستمبر کے
آخری ہفتے اُن کی محبت و چاہت کی کشش سے راولپنڈی جا پہنچا۔
اتوار کی شام تھی کہ مرجان نے مجھے کال پر بتایا کہ میں راولپنڈی صدر آجاؤں
کیوں کہ وہ نثار کے انتظار میں وہیں موجود ہے جو اپنے گاؤں سے سیدھا وہاں
پہنچ رہا ہے اور مزید کہا کہ سہیل بھی صدر پہنچنے ہی والا ہے۔ نماز مغرب کے
بعد وہ تمام دوست اکھٹے ہو چکے تھے اور میں اُن کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔
وہ حسب ِ روایت ہشاش بشاش اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ میری اُن میں دل
چسپی اس لئے تھی کہ وہ اپنی ملازمت اور مصروفیات کے باوجود اپنی چھوٹی سی
کمیونٹی کو عرصہ دراز سے قائم رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ اُنہوں نے خوش حال
زندگی بسر کرنے کا راز پا لیا ہے ۔ وہ دن بھر دفتر میں اکھٹے رہتے ہیں لیکن
دفتر سے واپسی کے بعد شام کے اوقات مل کر گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھٹی کا
دن ایک دوسرے کے کاموں میں ہاتھ بٹا کر گزارتے ہیں جیسا کہ گھر کی مرمت و
رنگ و روغن ، اشیاء کی خرید و فروخت ، اتوار بازار سے ہفتے بھر کاسودا سلف
اور الیکٹریکل یا الیکٹرونکس آلات کی خریداری یا مرمت وغیرہ، یعنی ہر کام
ایک دوسرے سے مشورہ لے کر مل جل کر سر انجام دیتے ہیں۔ اپنے ذاتی کاموں کے
علاوہ وہ دوسرے لوگوں کے کام کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ بقول جون
ایلیا۔
زندگی اِک فن ہے لمحوں کو
اپنے انداز سے گنوانے کا
جہاں تک اس چھوٹی سی کمیونٹی کی خوش حالی کا تعلق ہے تو اس میں اُن کے
درمیان پایا جانے والا اعتماد ، سادہ طرز زندگی اور اخلاص نمایاں ہیں۔
انہوں نے اپنی خواہشات و جذبات کے سامنے بند باندھ رکھے ہیں، یعنی خواہشات
اور جذبات کی موجوں اور لہروں کو قید کر رکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب خواہشات
قابو سے باہر ہوجائیں تو انسان ظاہری اور باطنی بد حالی کا شکار ہوجاتا ہے
۔ اُس کا سکون برباد ہوجاتا ہے اور ہلاکتیں اور تباہیں اسے گھیر لیتی ہیں۔
اُن میں یہ بات نہیں ہے کہ فلاں کے پاس دولت کے انبار دیکھے تو وہ پریشان ،
فلاں نے گاڑی یا گھر خریدا تو وہ حسد محسوس اور فلاں کو ترقی ملی تو وہ
ناخوش ، البتہ مل بیٹھیں تو غیبت و بہتان تراشی سے پرہیز اور گفتگو کریں تو
جھوٹ کی آمیزش سے پاک ، بَس اپنی چھوٹی دنیا بنا رکھی ہے اور اس میں خوش
رہنے کو اپنا مشغلہ ٹھہرا دیا ہے۔ جیسا کہ اشفاق احمد (مرحوم ) لکھتے ہیں۔
’’ آج کے معاشرے میں ۔۔۔اس ترقی افزا مغربی تقلید کے عہد میں ، تنزلی کی
وجہ مادہ پرستی نہیں بلکہ خواہش کی شدت ہے ‘‘۔ انہوں نے اپنی خواہشات کی
شدت کو قابو کر رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اُن کی خواہشات محدود ہیں۔ وہ
مولوی عبدالحفیظ کے دفتر میں بیٹھ کر چائے پینا پسند کرتے ہیں اور جدھر دل
چاہا مِل بیٹھ کے کھانا کھا لیا۔ اُس دن جب ملاقات ہوئی اور گفتگو طوالت
پکڑ گئی تو رات کا کھانا ایک سادہ اور صاف ستھرے ریسٹورنٹ میں کھایا۔اگرچہ
کھانا لذیذ تھا لیکن خرچ اتنا نہیں آیا۔ ہر دوست بِل ادا کرنے پر تیار۔۔۔یہ
وہ باتیں ہیں جو اُن کی خوش حال زندگی اور پائیدار دوستی کا راز ہیں۔ جب
میں اپنی زندگی کا موازنہ اُن سے کرتا ہوں تو اُن کو زیادہ خوش و خرم پاتا
ہوں۔ میرے دل میں خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ اُن جیسی کمیونٹی میسر آجائے
لیکن یہ سب نصیب کی باتیں ہیں۔ میری زندگی کاموں کی لمبی فہرست کے ساتھ
نتھی ہے جب کہ انہوں نے روزمرہ زندگی گزارنے کا سادہ پلان بنایا ہوا ہے جو
ہر قسم کی پیچیدگیوں اور جھنجھٹ سے پاک ہے۔ یہی اُن کی خوش حال زندگی کا
راز ہے۔
|