پہلے پہل یہ کہا جاتا تھا کہ علم ایک ایسی دولت ہے جو
چرائی نہیں جا سکتی ۔ کوئی ڈاکو اسے لوٹ نہیں سکتا ۔لیکن دور جدید میں جہاں
ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی بدولت علم کے حصول
آسان تر بنا دیا ہے ۔ وہیں پر علمی و ادبی و اخلاقی بدعنوانی کی ایک صنف کو
بھی سہل بنا دیا ہے جس کے ذریعے علم،ادب اور خیال کو چرایا جا سکتا ہے ۔ اس
صنف کو سرقہ ادبی Plagiarism کہا جاتا ہے ۔ سرقہ ادبی کی تعریف یہ ہے کہ "
کسی دوسرے کی تحریر یا خیال کو اپنی تحریر یا خیال بنا کر پیش کرنایا اس
انداز میں پیش کرنا کہ وہ پیش کرنے والے کی محسوس ہو۔ "
سرقہ ادبی کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ بھی پہلے سے جاری ہے لیکن زمانہ
جدید میں یہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔دور جدید میں مغربی تہذیب نے سر اٹھایا
ہے اور علمی میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے تو ساتھ ہی علم و ادب میں بھی
مادیت کو متعارف کرا دیا ہے ۔ مغربی قوانین کے تحت کوئی بھی علمی یا ادبی
تحریر اسکے مصنف کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اور اس کی اجازت کے بغیر اسکی طباعت
اسکی حق تلفی ہے ۔اور اس حق تلفی کے لئے کاپی رائٹس(حق طباعت) کے ضمن میں
سزائیں مقرر کی گئی ہیں ۔ ان قوانین کے تحت کسی کی تحریر کو اسکی اجازت کے
بغیر طباعت نہیں کیا جا سکتا ۔اس تحریر کی نقلیں (فوٹوسٹیٹ) لینے کی بھی
ایک مقدار مقرر ہے اس سے زیادہ نقلیں نکالنا بھی جرم ٹھہرتا ہے ۔اس کا مقصد
یہ ہے کہ کسی کی تحریر کو دوسرا شخص فروخت نہ کر سکے ۔اگر کوئی شخص کسی اور
کی تحریر کا کوئی حصہ اپنی تحریر میں نقل کرے گا تو اس اقتباس کے لئے مکمل
حوالہ دینا لازمی ہے بصورت دیگر اسے سرقہ ادبی گردانا جائے گا۔اسی طرح کسی
کے خیال کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کر اپنے ہی نام سے شائع کرنا بھی سرقہ
ہے اور کسی کی تحریر کو ترجمہ کر کے اپنے نام کرنا بھی سرقہ ادبی ہی کہلائے
گا ۔
عصر حدیث میں جہاں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے عام آدمی کی علمی مواد تک رسائی
کو آسان کر دیا ہے وہیں پر ان جدید سہولیات نے ادبی سرقہ کو بھی سہل بنا
دیا ہے ۔کیونکہ انٹر نیٹ پہ موجود مواد کو ایک جگہ سے با آسانی نقل (Copy )
کر کے دوسری جگہ با آسانی چسپاں ( Paste ) کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس کا
مکّروبیان ( Paraphrasing ) بھی آسان ہے ۔اس سہولت کا ناجائز فائدہ بہت سے
افراد اور ادارے اٹھا رہے ہیں ۔سرقہ ٔ ادبی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ کسی
دوسری زبان کی کتاب کو ترجمہ کر کے اپنے نام سے چھاپ دی جائے۔ترقی یافتہ
ممالک میں کاپی رائٹس اور سرقہ ٔ ادبی کی روک تھام کے لیئے قوانین پر سختی
سےعلم درامد ہوتا ہے جبکہ بیشتر ترقی پزیر ممالک میں کاپی رائٹس اور سرقہ ٔ
ادبی کی روک تھام کے لیئے قوانین تو موجود ہیں لیکن عملدرامد نہ ہونے کی
وجہ سے یہ بیماریاں ہمارےہاں تیزی سے پنپ رہی ہیں اور تحقیق و تدوین کے
ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کےمعیار کو بھی متاثر کر رہی ہیں ۔ہمارا ادب اور
صحافت بری طرح سرقہ ادبی کی لپیٹ میں ہے ۔چونکہ یہ شعبہ جات اب شتر بے مہار
ہیں اس لئے اگر غیر سندی تحقیق پہ بات کی گئی تو آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ
رائے پہ قدغن لگانے والوں کی فہرست میں ہمارا نام بھی ڈال دیا جائے گا اس
لئے اپنی گفتگو کا دائرہ سندی تحقیق تک محدود رکھتے ہیں جو ہماری جامعات
میں فروغ پا رہی ہے ۔
حصول روزگار میں بڑھتے ہوئے مقابلے کے پیش نظر گزشتہ دو دہائیوں میں طلبہ
کی کثیر تعداد نے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا ہے ۔ جو ایک خوش آئند
ہے لیکن اس مرحلے پہ تحقیقی مقالہ لازم ہے۔چونکہ طلبہ کی کثیر تعداد ذوق
تحقیق اور زور قلم کے بجائے مالی فوائد اور حصول روزگار کی خاطر اس طرف رخ
کرتی ہے لہٰذا تحقیقی مقالے کیلازمی شرط پوری کرنے کے لئے انہیں سرقہ ٔ
ادبی کا کمزور سہارا لینا پڑتا ہے ۔ترقی پذیر ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ
ممالک میں ایسے سیکڑوں ادارے موجود ہیں جو رقم لے کر خاکۂ تحقیق (Synopsis
) سے لے کر مقالہ تحقیق(Thesis/Dissertation ) تک کا مواد فراہم کر دیتے
ہیں جو طلبہ اپنی جامعات میں پیش کر کے ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی طرح دیگر طلبہ انٹرنیٹ سے مواد جمع کر کےاسے اپنے الفاظ کا جامہ پہنا
کر سرقہ ٔ ادبی کا شکار ہوتے ہیں ۔اس طرح کے حربوں سے ہماری سندی اور غیر
سندی تحقیق سرقہ ٔ ادبی کابری طرح شکار ہو رہی ہے اور ہمارا معیار تعلیم
انتہائی پست ہوتا جا رہا ہے اور ہماری جگ ہنسائی کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ادبی سرقے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے آگے بندھ باندھنے اور تحقیق کو خالصتا
علمی بنانے کے لئے دنیا بھر میں کاوشیں ہو رہی ہیں۔ ایسے سافٹ وئیر متعارف
کرائے گئے ہیں جو سرقہ ٔ ادبی کا کھوج لگا سکیں ۔
پاکستان میں اعلی تعلیم کے لئے کمیشن برائے اعلی ٰ تعلیم (ہائر ایجوکیشن
کمیشن HEC ) قائم کر رکھا ہے ۔کمیشن کی ہدایت پر ہر یونیورسٹی کو پابند کیا
گیا ہے کہ تحقیقی مقالے کو تجزیہ و جانچ پڑتال کی غرض سے بیرونی ممتحن
کوبھیجنے سے قبل جانچا جائے کہ یہ سرقہ ادبی سے پاک ہے یا نہیں ۔ اس ضمن
میں ہر جامعہ میں ایک مستقل ادارہ قائم کیا گیا ہے ۔یہ ادارہ سافٹ وئر کی
مدد سےجانچنے کے بعد تسلی ہونے پر ایک رپورٹ جاری کر دیتا ہے جس میں پائی
جانے والی مشابہت کی تفاصیل درج ہوتی ہیں ۔ اگر جملوں کی مشابہت کا تناسب
ایک مقررہ مقدار سے زیا دہ ہو تو طالب علم کوتصحیح کی ہدایات جاری کی جاتی
ہیں اور اگر اس مقدار سے کم مشابہت ہو تو سرٹفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے کہ
یہ مقالہ سرقہ ادبی سے پاک ہے ۔اس سرٹیفکیٹ کے بعدمقالہ جات کو ممتحنین کے
پاس بھیجا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کوئی اس مرحلے سے خود کو بچا لے اورڈگر ی
وصول کر لے اور بعد ازاں سرقہ ادبی کی نشاندہی کر دی جائے تو مصنف کے خلاف
تادیبی کاروائی ہوتی ہے اور اسکے نگران کو بھی سخت تادیب کا نشانہ بننا
پڑتا ہے ۔
ہمارے علماء کی منھج تحقیق یہ رہی ہے کہ وہ کسی کے الفاظ نقل کرتے ہوئے اس
امر کا خیال کیا کرتے تھے کہ الفاظ بھی بعینہ وہی استعمال ہوں جو اصل مصنف
کے ہیں اور ساتھ ہی حوالہ بھی دیا جائے ۔جبکہ مغربی محققین کے ہاں یہ طریقہ
رائج ہے کہ دوسرے کے خیال کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا (Paraphrasing )کر
پیش کیا جائے اور ساتھ ہی حوالہ بھی دیا جائے ۔عصر جدید میں تحقیق کا بیشتر
کام اہل مغرب ہی سر انجام دے رہے ہیں اس لئے منھج تحقیق بھی ان کا رائج ہے
اور ہماری جامعات میں قوائد و ضوابط بھی انہی کے رائج ہیں ۔پیرا فریزنگ نے
سرقہ ٔ ادبی کے لئے بھی راہ ہموار کر دی ہے۔اب طلبہ انٹرنیٹ سے مواد لے کر
اسے اپنے الفاظ میں ڈھالتے ہیں اور اسے اپنے نام سے پیش کر دیتے ہیں جو سرا
سر سرقہ ادبی ہے۔
جامعات کو جس سافٹ وئر کے ذریعے سرقہ ادبی کا کھوج لگانے کے لئےپابند کیا
گیا ہے اس کا کام محض یہ ہے کہ وہ عبارت میں مشابہت اور اسکا تناسب بتا دے
۔عبارت میں مشابہت پائی جائے اور اگر وہ ایک مقررہ حد سے کم ہو تو سرقہ
ادبیہ نہ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے ۔بصورت دیگر طالب علم کو
مشابہت ختم کرنے کا کہا جاتا ہے ۔یہاں ایک شائبہ جنم لیتا ہے اور اکثر طلبہ
یہ سمجھ لیتے ہیں کہ 19 فیصد تک سرقہ ادبی کی اجازت دی گئی ہے۔ حالانکہ
ایسا نہیں ہے سرقہ ادبی کسی صورت روا نہیں البتہ کہیں عبارت کے جملوں میں
مشابہت کا امکان موجود ہوتا ہے لہذا ایک خاص مقدار تک اس کی اجازت ہے
۔چونکہ اس سافٹ وئر تک رسائی ہر طالب علم کی ہوتی ہے اس لئے بہت سے لوگ
سافٹ وئر کی تکنیک جان لیتے ہیں ۔ اور سافٹ وئیر کو چکمہ دینے کے لئے مختلف
حربوں کا استعمال کر رہے ہیں ۔ اس طرح مقالہ (Thesis ) لکھنے والے افراد کو
سرٹیفکیٹ جاری ہوجاتا ہے کہ وہ سرقہ ادبیہ سے پاک ہے حالانکہ وہ سرقہ ادبی
کا شاہکار ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سافٹ وئیر کی درآمد سے سرقہ ٔ ادبی کی
روک تھام ہونے کے بجائے مقالہ نگار اس کو چقمہ دینے کی تحقیق کر رہے ہیں
اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں ۔دوسری جانب یونیورسٹی میں جو ادارے
قائم کئے جاتے ہیں اس میں وہ افراد بٹھائے جاتے ہیں جو کمپیوٹر کا علم
رکھتے ہوں۔ جبکہ ان شعبہ جات کی سربراہی کسی سینئر پروفیسر کے ذمہ لگائی
جاتی ہے جن کا کام محض رپورٹ اور سرٹیفکیٹ پہ دستخط کرنا ہی ہوتا ہے ۔
سرقہ ادبی کی روکتھام کے لئے روا اس عمل میں دو بڑی خامیاں ہیں جن کی وجہ
سے اس مرض کی روک تھام نہیں ہو رہی ۔اول تو یہ کہ سافٹ وئیر کی نشاندہی کے
باوجود بھی مقالہ نگار کو موقع فراہم کیا جاتاہے کہ اس مشابہت کودرست کر لے
جو وہ پیرا فریزنگ کے ذریعے کر دیتا ہے اور رہی سہی کسر ان تکانیک سے پوری
کی جاتی ہے جو وہ سیکھتے رہتے ہیں ۔اس طرح طلبہ اپنی جان چھڑا دیتے ہیں۔اسی
طرح وہ لوگ جو دوسری زبان پہ دسترس رکھتے ہیں وہ اس زبان کی کسی کتاب
سےعبارت لے کر اسکا ترجمہ کر لیتے ہیں اور اپنے نام سے کر دیتے ہیں۔دوسری
خامی یہ ہے کہ ان شعبہ جات میں اعلٰی عہدے پہ کوئی سینئر پروفیسر متمکن
ہوتا لیکن وہ تمام علوم کا ماہر نہیں ہوتا ۔ اسلئے سرقہ کے کھوج میں ناکامی
ہوتی ہے کیونکہ کھوج لگانے کا انحصار محض مشین اور سافٹ وئیر کا رہ جاتا
ہے۔یوں سرقہ ٔ ادبی کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
سرقہ ادبی کی روک تھام کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کی اشد ضرورت ہے :
أ. حکومت/ ایچ ای سی کو ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ کتاب تک رسائی ہر شخص
کے لئے آسان ہو ۔ مہنگی کتب تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کتب کی ری پرنٹنگ
ہوتی ہے ۔ کتاب تک رسائی ممکن ہونے کی صورت میں کاپی رائٹس کا مسئلہ حل ہو
سکتا ہے ۔
ب. حکومت ایسے اقدامات کرے کہ کتاب بینی کا شوق پیدا ہو اور مطالعے کے
رجحان کو فروغ ملے ۔کتاب بینی کے رجحان کے بغیر تحقیق کے میدان میں قدم
رکھناایسے ہی ہے جیسے بغیر تیراکی کی مشق کئے دریا میں اتر جانا۔ایسا شخص
یا تو ڈوب جاتا ہے یا پھر کسی اور کے سہارے دریا پار کرتا ہے ۔ محققین بھی
یا تو تحقیق چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سرقہ ادبی کا سہارا لیتے ہیں ۔سندی تحقیق
میں طالب علم کو لانے سے قبل اس کے رجحانات کو جانچ لینا چاہئے اور صرف ذوق
مطالعہ رکھنے والے طلبہ کو اس شعبے میں آنے کا موقع دینا چاہئے ۔محض مالی
فوائد اور مراعات کے حصول کے لئے تحقیق کے میدان میں اتر آنا کوئی عقلمندی
نہیں ۔اس سے معیار تعلیم پست ہوگا ۔
ج. ثانوی اور اعلٰی ثانوی اداروں میں نقل کا رجحان موجود ہے ۔ نقل کرنے
والے طلبہ کو کڑی سزائیں نہیں دی جاتیں بلکہ جرمانہ لے کر بات رفع دفع ہو
جاتی ہے ۔طلبہ و طالبات اسی رجحان کے ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی تک پہنچ
جاتے ہیں اور نقل کے حربے سرقہ ادبی میں ڈھل جاتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ نقل
مافیا کا ہر سطح پہ قلع قمع کیا جائے ۔
د. ہم مغرب کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر پہ بھروسہ اور انحصار کر رہے ہیں جبکہ
ہمیں اپنے سافٹ وئیر بنانا چاہیئں ۔اس سافٹ وئیر تک رسائی ایچ ای سی کے
مقرر کردہ افراد اور ادارون کو ہونا چاہئیےہر کس و ناکس کو اس کے استعمال
کی جازت نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے رموز کا ہر کسی کو علم ہو تاکہ
حربوں کے ذریعے اسکو دھوکہ نہ دیا جا سکے ۔
ه. سرقہ ٔ ادبی کی کھوج کے لیے جامعات میں قائم اداروں QEC/ORIC وغیرہ میں
ہر شعبے سے وابستہ گھاگ افراد کو بٹھایا جائے جو تحقیق پہ عبور رکھتے ہوں
اور جہاں دیدہ ہوں ۔جو عبارت کو دیکھ کر ہی بتا دیں کہ اس موضوع پہ پہلے
بھی کام ہو چکا ہے ۔ موجودہ کام اس کی نقل تو نہیں ۔اگر ہر جامعہ کی سطح پہ
ایسا ممکن نہ ہو تو مرکزی سطح پہ ایسا ہونا چاہئے تاکہ ہماری جامعات کی
تحقیق پہ جگ ہنسائی نہ ہو ۔
و. جامعات کو آپس میں ایک دوسرے سے مربوط کرنا چاہیئے اور ہر جامعہ میں
ہونے والی تحقیق کو ملک کی دیگر جامعات کے علم میں لانے کا انتظام ہونا
چاہئے تاکہ سرقہ ادبی کی روک تھام میں مدد مل سکے ۔
ز. ان اقدامات کے باوجود بھی کوئی اس فعل کا ارتکاب کرے تو اسے محض جرمانہ
لے کر نہ بخشا جائے بلکہ اس کو کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ دیگر کے لئے عبرت
ہو سکے ۔جرمانہ تو ایک قسم کی قانونی رشوت ہے جو ناجائز فعل کو چند ٹکوں کے
عوض جائز قرار دیتی ہے ۔
اگر ہمارے مقتدر حلقے اس مرض کا سنجیدگی سے تدارک کرنے کی سعی کریں تو اس
کا پائدار اور دیرپا حل نکل سکتا ہے اور ادبی سرقہ کی روک تھام کی جا سکتی
ہے ۔اگر سندی تحقیق کو سرقہ ادبی سے پاک کر لیا جائے تو ہم اپنے معیار
تعلیم کو آسمان کی بلندیوں تک لےجا سکتے ہیں اور غیر سندی تحقیق اور صحافت
کو بھی اس سے پاک کر سکتے ہیں ۔ادبی سرقہ سے پاک تحقیق چار دانگ عالم میں
انسانیت کو فائدہ پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اللہ تعالٰی ارباب اختیار کے
دل میں یہ بات اتار دے اور ہمارے تعلیمی اداروں کو صحیح معنوں میں منارۂ
علم بننے کی صلاحیت عطا فرمائے آمین۔
|