مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس
العربیہ پاکستان
دینی مدارس ہمیشہ عالمی ایجنڈے پر رہے ہیں ۔اسلام مخالف عالمی استعماری
قوتوں نے جہاں دین اسلام کو اپنا حریف اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے
راستے کی رکاوٹ خیال کیا وہیں دینی مدارس کو اسلامی تعلیمات کے مراکز اور
اسلامی ثقافت ،تہذیب اور تمدن کے قلعے تصور کرتے ہوئے مسمار کرنے اور
ناکامی کی صورت میں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔سوویت یونین کی
شکست وریخت کے بعد دنیا میں باہمی کشمکش اور آویزش کے جتنے فریق تھے انہوں
نے اس حقیقت کا خوب اچھی طرح سے ادراک کرلیا کہ تہذیبوں کی کشمکش میں
برصغیر کے دینی مدارس کا کردار کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔چونکہ
برصغیر کے دینی مدارس نے برطانوی دورِ اقتدار سے لے کر سوویت یونین کے
توسیع پسندانہ عزائم تک کی ڈیڑھ صدی میں جس ہمت ،استقامت،مستقل مزاجی اور
حوصلے سے دینی تعلیم کو فروغ دیا،دینی اقدارو روایات کو تحفظ دیا اور اسلام
مخالف قوتوں کے سامنے مزاحمت کی جودیوار کھڑی ہوئی وہ دراصل انہی دینی
مدارس کی رہین منت تھی۔ اس لیے دینی مدارس کو خصوصی ایجنڈے پر رکھ لیا گیا
۔
عالمی سطح پر دین اسلام کو ،اور پاکستان اور برصغیر میں دینی مدارس کو جس
طرح اپنا حریف خیال کر کے ہر الزام اور دشنام کا ہدف بنایا گیا وہ کسی سے
مخفی نہیں ۔استعماری قوتوں اور اسلام مخالف عناصر کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ
رہاہے کہ وہ سب سے پہلے پروپیگنڈہ کا سہارا لیتے ہیں ۔ قران کریم کامطالعہ
بھی یہی بتاتا ہے کہ کفار اپنی سازشوں کا آغاز پروپیگنڈے اور شور شرابے سے
کرتے آئے ہیں۔ سورۃ حم سجدہ میں کفار کے ایک حربے کا ذکر ان الفاظ میں ہے
’’اور کافر لوگ کہتے ہیں اس قران کریم کو مت سنو اور(جب قران کریم پڑھا
جائے تو) شور وواویلا کرو تاکہ تم غالب آجاؤ‘‘کفار قران کریم کی آواز،
تعلیم اور پیغام کو پھیلنے سے روکنے کے لیے شور مچاتے تھے ،تالیاں پیٹتے
تھے ،باہر سے آنے والے قافلوں کو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملاقات اور
قران کریم کی سماعت سے روکنے کے لیے مکہ مکرمہ کے داخلی راستوں پر بیٹھ کر
لوگوں کو بے بنیاد اور جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر دین اسلام
سے دور رکھنے کی کوشش کرتے اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا کہ بعض اجنبی مسافر
کانوں میں روئی رکھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے ۔ کفار کا
دوسرا حربہ وہ تھا جسے سورۃ لقمان میں بیان فرمایا گیا کہ نضر بن حارث جیسے
کئی شرپسند عناصر تھے جو ناچ گانے کو رواج دیتے ،قصے کہانیوں کی کتابیں
لاتے، ناچنے گانے والی باندیاں لاتے ،لہوو لعب کے آلات کو عام کرتے ،رقص
وسرود کی محفلیں سجاتے…… یہ سب چیزیں کرنے کا مقصد لوگوں کودین حق سے محروم
اور برگشتہ کرنا اور قرآن کریم کے پیغام سے محروم رکھنا تھا۔ اگر ہم اُس
دور سے آج تک کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہر دور
میں اہل باطل انہی دو حربوں کو بروئے کار لائے اور آج بھی یہی کچھ ہو رہا
ہے۔ پہلے مرحلے پر دین کی دعوت اورتعلیم دینے والے اداروں ،افراد اور محنت
کو مشکوک بنایا جاتا ہے۔ ایسے افراد اور اداروں سے عوام الناس کو دور رکھنے
اور ان کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دوسرے
مرحلے میں لہو و لعب ، راگ و رنگ ،فحاشی وعریانی ،رقص وسرود اور بے راہ روی
کو پھیلانے کی محنت کی جاتی ہے۔ آج مسلمان معاشرے انہی دوحربوں کا ہدف ہیں۔
چنانچہ ایسے خطے جہاں دینی مدارس اوردینی تعلیم کے مراکز نہ تھے۔ وہ اہل
باطل کے لیے ترنوالہ ثابت ہوئے اور رفتہ رفتہ وہاں سے دینی وابستگی ،شعائر
اسلامی اور وہاں کے بسنے والوں کی دینی شناخت کا خاتمہ ہوکر رہ گیا چنانچہ
ہسپانیہ اس کی ایک واضح مثال ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال جیسے مفکر کو یہ
کہنا پڑا کہ ان دینی مدارس کو اسی حال پر رہنے دو کیونکہ دینی مدارس کے نہ
ہونے کی وجہ سے دینی زوال کی جو حالت ہوتی ہے وہ ہسپانیہ میں ،میں اپنی
آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔
آج ہمیں علامہ اقبال کے اس فرمان کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔آج بد
قسمتی سے دینی مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ، جھوٹے الزامات اور غلط
فہمیوں کو رواج دینے کی مسلسل کوشش ہورہی ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں میں
مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ایسے میں وفاق المدارس
العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے غیر معمولی اجلاس میں ملک بھر کے
ممتازاور مقتدر علماء کرام نے پیغا م مدارس کے عنوان سے رابطہ عوام مہم
شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مہم کے تحت ملک بھر کے ہر ضلع میں دو
پروگرام منعقد ہوں گے ۔پہلا پروگرام صرف ائمہ وخطباء ،علماء وطلبہ اور اہل
مدارس کا ہوگا۔ اس پروگرام کا مقصد اہل مدارس ومساجد کا باہمی رابطہ مضبوط
اور مستحکم کرنا ہے جس کی بے حد ضرورت ہے اور اس رابطے اور اتحاد کے بہت
مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بعض علاقوں میں اہل مدارس ومساجد کا باہم ربط
نہیں ۔برسوں گزر جاتے ہیں ا نہیں مل بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا ۔بعض اوقات
ملاقاتیں اور رابطے نہ ہونے کی وجہ سے آپس میں غلط فہمیاں اور رنجشیں پیدا
ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رابطے نہ ہونے کے باعث ایک دوسرے کے مسائل
ومشکلات سے آگاہی نہیں ہو پاتی اس لیے ایک پروگرام صرف اہل مدارس ومساجد کا
ہوگا جبکہ دوسرا پروگرام عوام الناس کے لیے ہوگا جس میں ائمہ وخطباء اور
طلبہ وعلماء بھی شریک ہوں گے لیکن عوامی مقامات پر منعقد ہونے والے ان
پروگراموں میں عوام الناس اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے
افراد کی شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس پروگرام کے ذریعے سے
عوام الناس کو دینی مدارس کی ضرورت واہمیت اور کردا ر وخدمات سے روشناس
کروانے کی کوشش کی جائے گی اور مدارس کے بارے میں اسلام دشمن اور پاکستان
دشمن قوتوں کے عزائم سے آگاہ جائے گا ۔ یاد رہے کہ یہ پروگرام ضلع کی سطح
پر ہوں گے تا کہ بالکل ابتدائی سطح سے رابطہ عوام مہم کا آغاز ہو پھراگلے
مرحلے میں صوبائی سطح پر اور بعد ازاں اسلام آباد میں دینی مدارس کی خدمات
کے حوالے سے عظیم الشان پروگرام منعقد کیے جائیں گے ۔
ان پروگراموں کے ذریعے دینی مدارس کا پیغام جو درحقیقت رجوع الی اﷲ کی دعوت
ہے ،نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و اتباع اور ناموس رسالت اور عقید ہ
ختم نبوت کا پیغام ہے اسے عام کیا جائے گا۔دینی مدارس دراصل دین مبین کی
حقیقی دعوت اور تعلیمات عام کرنے والے ادارے ہیں ایسے دور میں جب غلط
فہمیوں اور غلط تعبیرات کے ذریعے دین اسلام کا حلیہ مسخ کرنے کی جسارت کی
جارہی ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس کے پیغام کو وطن عزیز
کے بچے بچے تک پہنچایاجائے ۔پاکستانی عوام کو نظریہ پاکستان کاسبق پھر سے
تازہ کروایا جائے اور پاکستا ن کو جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھاان
مقاصد اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ کی پرامن جدوجہد کی طرف متوجہ کیا
جائے ۔ایک ایسے عہد میں جب تہذیبوں کی کشمکش جاری ہے ایسے میں اسلامیان
پاکستان کو اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی اقداروروایات کی حفاظت کا احساس
دلایا جائے اور اپنے تابناک ماضی سے پورے اعتماد سے وابستگی کا درس دیا
جائے ۔ ایسے وقت میں جب لسانیت اور فرقہ واریت کے فتنے جگہ جگہ سے سر اٹھا
رہے ہیں ایسے میں دینی مدارس اتحاد ویکجہتی کے مراکز ہیں ان کے پیغام اتحاد
ومحبت کو ملک کے گلی کوچے میں عام کیا جائے ۔جب مذہب کے نام پر دہشت گردی
کا بازار گرم کیا جائے تو لوگوں بالخصوص نوجوانوں تک اسلام کی صحیح تعبیر
اور پیغام کا پہنچانا لازم ٹھہرتا ہے ۔ایسے وقت میں جب لبر ل ازم اور
سیکولر ازم کوچہ و بازار میں نکلنے کے جتن کر رہے ہوں ایسے میں اسلام
پسندوں اور دین ووطن سے محبت کا دم بھرنے والوں کو بھی میدان عمل میں نکلنا
چاہیے ۔جب تعلیم کے نام پر تجارت ہو رہی ہو،جب فیشن کے نام پر بے حیائی کو
رواج دیا جارہا ہو،جب مسلم معاشرہ زوال کی طرف بڑھ رہاہو،جب خاندانی سسٹم
کو خطرات لاحق ہوں ،جب دنیا بھر کی سازشوں ا ور ریشہ دوانیوں کا ر خ وطن
عزیز پاکستان کی طرف ہو ایسے میں دینی مدارس کا اپنے ملک وملت کی پاسبانی
،اپنی قوم میں شعور اجاگر کرنے ،اپنے گھر کی تعمیر وترقی اور امن واخوت کا
پیغام عام کرنے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پیغام مدارس دراصل دینی مدارس
کے ہمہ جہتی پیغام اور پروگرام کو قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچانے کی ایک
کوشش ہے جسے ہم سب نے انفرادی اور اجتماعی طورپر کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے
۔ان شاء اﷲ
توقع کی جارہی ہے کہ پیغام مدارس کے عنوان سے شروع کی جانے والی اس مہم کے
نہ صرف دینی مدارس بلکہ پاکستان کے مستقبل پر دور رَس اثرات مرتب ہوں گے
۔ان شاء اﷲ
|