تحریر: شافعہ افضل
’’آپا ہم جا رہے ہیں۔ رات کو دیر سے آئیں گے، آپ سو جائیے گا ہمارے پاس
چابی ہے‘‘، ارسل نے جاتے ہوئے بلند آواز سے صائمہ کو مطلع کیا۔’’ ارے ارسل!
سنو تو دس تو پہلے ہی بج رہے ہیں ، اب جا رہے ہو تو کب آؤ گے تم لوگ ؟ مجھے
تو ڈر لگے گا اور اگر لائٹ چلی گئی تو ؟ ‘‘ مگر ارسل یہ سب سننے کے لیے
وہاں موجود نہیں تھا، وہ اپنی بیوی ثمرین کے ساتھ جا چکا تھا۔ کیا وقت تھا
جب ارسل اس کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لیتا تھا اور اب پوچھنا تو
درکنار بتانا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
ارسل اور صائمہ دو ہی بہن بھائی تھے۔ والدین کا دونوں کی کم عمری میں ہی
انتقال ہو گیا تھا۔ صائمہ ارسل سے پانچ سال بڑی تھی۔ ان کے والد نے اچھے
وقتوں میں تین دکانیں لے لیں تھیں جن کا کرایہ آتا تھا۔ اس طرح والدین کے
انتقال کے بعد ان کی گزر بسر ہوتی رہی۔ ارسل کو اس نے اعلی تعلیم دلوائی اب
وہ ایک پرائیوٹ فرم میں بہت اچھی جاب کر رہا تھا۔ جاب ملنے کے کچھ ہی عرصے
بعد صائمہ نے ارسل کی شادی اپنی خالہ زاد بہن طوبیٰ سے کر دی۔ صائمہ بڑے
شوق سے طوبیٰ کو اپنی بھابھی بنا کر لائی تھی۔ سارے ارمان پورے کیے۔ طوبیٰ
بھی اپنے والدین کی اکلوتی تھی۔ ارسل اور طوبیٰ دونوں ہی کم عمر تھے۔ چاند
، سورج کی جوڑی لگ رہی تھی ۔ سارے لوگ بے حد خوش تھے۔ خاص طور پر صائمہ
حالانکہ ارسل چاہتا تھا کہ پہلے صائمہ کی شادی ہو اس نے اپنے طور پر کوشش
بھی کی۔
محلّے کی اور رشتے دار خواتین سے کہہ رکھا تھا کہ صائمہ کے رشتے کے لیے
کوشش کریں۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ پہلے تم شادی کر لو گھر میں ایک اور
عورت آجائے گی تو شاید اس کی قسمت سے صائمہ کے نصیب بھی کھل جائیں۔ لہذاا
وہ شادی کے لیے تیار ہو گیا۔ صائمہ قبول صورت تھی اور بے انتہا سلیقہ مند۔
گھر کی صفائی ستھرائی ، کھانا پکانا ، کپڑے دھونا ، تمام کام خود کرتی تھی۔
دو افراد کا کام اتنا نہیں ہوتا تھا اور اسے اپنے گھر کے معاملات میں کسی
کی مداخلت پسند بھی نہیں تھی۔ ارسل تو تھا ہی اس کا بے دام غلام۔ اسے صائمہ
کی قربانیوں کا پورا احساس تھا۔
جب طوبیٰ دلہن بن کر آئی تو وہ بے حد کم عمر اور نا تجربے کار تھی۔ اس نے
اپنے والدین کے گھر کوئی خاص کام کاج نہیں کیے تھے ابھی پڑھ ہی رہی تھی کہ
شادی ہو گئی۔ جب وہ کوئی کام کرتی تو اس معیار کا نہیں کر پاتی جیسا صائمہ
کرتی تھی۔ اسے طوبیٰ کے کیے ہوئے کام پسند نہیں آتے۔ وہ خود بھی اسے احساس
دلاتی کہ اسے کچھ نہیں آتا اور ارسل سے بھی شکایت کرتی کہ طوبیٰ بالکل
پھوہڑ ہے اس سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اکثر ارسل اور طوبیٰ کے
درمیان لڑائی ہوتی۔ پہلے پہل تو طوبیٰ کچھ نہیں کہتی تھی ، خاموشی سے
برداشت کر لیتی تھی مگر جب یہ چیز معمول بن گئی اور اس نے محسوس کیا کہ اس
کے کیے ہوئے صحیح کام میں بھی صائمہ کیڑے نکالتی ہے، تو اس کی برداشت جواب
دے گئی۔
وہ جھنجھلا جاتی جتنی کوشش کرتی کہ ہر کام صحیح ہو جائے ،صائمہ اتنے ہی
اعتراضات کرتی۔ اس وجہ سے دو سال گزرنے کے باوجود اس کے اور ارسل کے درمیان
ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکی تھی۔ صائمہ ہر جگہ ان کے ساتھ جاتی۔ چاہے
وہ کسی دعوت میں جائیں یا شادی میں ہر جگہ صائمہ کا ساتھ جانا لازمی تھا۔
جہاں وہ خود نہ کہتی وہاں ارسل اس کو لے جانے پر اصرار کرتا کہ کہیں آپا کا
دل نہ ٹوٹ جائے۔ طوبیٰ ان ساری باتوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ اپنے والدین سے
کہتی تو وہ اسے ہی سمجھاتے کہ صائمہ بڑی ہے اور پھر اس نے کم عمری سے ہی
بہت تکلیفیں جھیلی ہیں اسے ہی برداشت سے کام لینا چاہیے۔
آخر سسرال کے نام پر طوبیٰ کا واسطہ ایک نند سے ہی تو پڑا تھا اور کون تھا
اس گھر میں۔ مگر یہ وہ ہی جانتی تھی کہ صائمہ نے اکیلے ہی سب کی کسر پوری
کر دی تھی۔ اس نے کوشش کی کہ صائمہ کی شادی کروا دے اس کے لیے اس نے ایک
رشتہ کروانے والی سے بھی رابطہ کیا کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے تو طوبیٰ چین
کا سانس لے سکے مگر اس کی یہ کوشش بھی بار آور ثابت نہ ہو سکی۔ جو بھی رشتہ
آتا صائمہ اس میں مین میخ نکال کر انکار کر دیتی۔ کبھی کہتی،’’ عمر زیادہ
ہے ‘‘ ، کبھی کہتی’’ آمدنی کم ہے گزارہ نہیں ہو گا ‘‘ ، کبھی کہتی کہ
’’خاندان بڑا ہے، مجھے زیادہ لوگوں میں رہنے کی عادت نہیں ہے‘‘۔ غرض ہر
رشتے میں خرابیاں نکال کر اسے منع کر دیتی۔ طوبیٰ کی نجات کا یہ آخری راستہ
بھی بند ہو گیا۔ وہ اپنی زندگی سے بہت مایوس ہو چکی تھی۔ صائمہ ہر وہ کام
کرتی جس سے طوبیٰ کو تکلیف ہوتی۔
بلا خر تین سال گزرنے پر اس کی برداشت جواب دے گئی۔ ایک دن صائمہ کے شکایت
کرنے پر ارسل نے اسے بہت برا بھلا کہا اس دن اس کی طبیعت بھی خراب تھی۔ سر
میں شدید درد اور بخار تھا اس کے باوجود ان دونوں بہن بھائیوں نے اس کا
خیال نہیں کیا۔ وہ ساری رات روتی رہی۔ پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اس
گھر میں نہیں رہے گی۔ جب ان دونوں کو اس کی رتی برابر پرواہ نہیں ہے تو پھر
وہ کیوں سعی لا حاصل کرتی رہے۔ بات صرف صائمہ کی ہوتی تو شاید وہ صبر کر
لیتی دکھ تو اس بات کا تھا کہ ارسل کو بھی اس کی پرواہ نہیں تھی ۔ ارسل نے
ان تین سالوں میں اس کو سمجھنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی۔ کبھی اس کے دل
اور خوشی کا خیال نہیں کیا۔ ہمیشہ اس پر آپا کو فوقیت دی۔ پھر کیا فائدہ
تھا ایسے شخص کے لیے اپنی زندگی برباد کرنے کا۔ طوبیٰ نے خاموشی سے ان کی
زندگی سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور کچھ عرصے بعد خلع لے لی۔ اس پر بھی
صائمہ نے اسے اور اس کے والدین کو بہت برا بھلا کہا۔ سارے خاندان میں ان کے
خلاف باتیں کیں مگر ان لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی کوئی صفائی پیش
کی۔ بس خاموشی سے قطع تعلق کر لیا۔ طوبیٰ نے اپنا معاملہ اﷲ پر چھوڑ دیا۔
بے شک وہ سب سے بڑھ کر انصاف کرنے والا ہے۔ کچھ عرصے بعد اس کی دوسری جگہ
شادی ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ انگلینڈچلی گئی۔
اﷲ نے ایسا انصاف کیا کہ دیکھنے والوں نے کان پکڑ لیے۔ ارسل نے طوبیٰ کے
جانے کے کچھ عرصے کے بعد اپنی کولیگ سے دوسری شادی کر لی۔ ثمرین بے حد
ماڈرن اور تیز عورت تھی اس نے پہلے دن سے صائمہ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
پہلی فرصت میں ارسل اور گھر کے تمام معاملات کو اپنی مٹھی میں لیا اور
صائمہ کو اپنے کمرے تک محدود کر دیا۔ کچھ عرصے سے صائمہ ریڑھ کی ہڈی میں
مسئلہ ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن بستر پر
پڑی رہتی تھی۔ ایک ملازمہ اس کی دیکھ بھال کے لیے تھی مگر وہ بھی ارسل اور
ثمرین کے جاب پر جانے کے بعد ٹی وی دیکھتی رہتی۔ صائمہ بھوک اور پیاس سے
چلّاتی رہتی مگر وہ دھیان نہیں دیتی تھی۔ بھائی بھی اب اپنی دوسری بیوی کی
آنکھوں سے دیکھتا اور اس کے ہی کانوں سے سنتا تھا ۔ اس سے کہتی تو وہ کہتا،
’’چھوڑیں آپا آپ کو تو شکایتیں کرنے کی عادت ہے۔ پہلے طوبیٰ غلط تھی اب آپ
ثمرین اور ملازمہ کو بھی غلط ثابت کرنا چاہتی ہیں‘‘۔ یہ سن کر صائمہ بے بسی
سے رو پڑتی۔ اسے بے اختیار طوبیٰ اور اس پر کی گئی اپنی زیادتیاں یاد
آجاتیں۔ سچ ہے اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے اور وہ بے حد انصاف کرنے والا ہے۔
اسی حالت میں صائمہ نے تین سال گزارے۔ روز جیتی تھی اور روز مرتی تھی۔ اﷲ
سے اپنے کیے کی معافی مانگتی تھی۔ بلاخر اسی حالت میں اس کی موت ہوئی۔ دو
دن تک وہ گندگی میں پڑی رہی ارسل اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ جو ایک سال کا
تھا، دو دن کے لیے فارم ہاوس گیا ہوا تھا صائمہ کو ملازمہ کے ساتھ چھوڑ کر۔
ملازمہ اس کو اکیلا چھوڑ کر تالا لگا کر چلی گئی۔ جب ارسل واپس آیا تو
صائمہ مردہ حالت میں ملی۔ اس کے کمرے میں اس قدر بدبو تھی کہ اندر داخل
ہونا ناممکن تھا۔ وہ دیکھنے والوں کے لیے نشانِ عبرت بن گئی تھی۔ |