وزیر اعظم عمران خان نے بلوچستان اور پنجاب کا دورہ کیا
اور دونوں صوبوں کی حکومتوں کو کرپشن کیخلاف موثر اور تیز کام کرنے کی
ہدایت کی بلوچستان میں گورنر ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دان صرف
بلوچستان میں ووٹ لینے کیلئے آتے ہیں مگر ان کی حکومت عوام کے مسائل اور
محرومیاں کم کرنے کی کوشش کرے گی اور نیا بلوچستان تعمیر کرنے کا عندیہ دیا
یاد رہے کوئی معاشرہ بھی کرپشن کو ختم کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ہے مگر
کرپشن کیونکر پیدا ہوتی ہے اس کی جزیات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ہماری
معیشت جو کہ زراعت پر انحصار کرتی ہے اس کا اہم حصہ جاگیر دار اور بڑے
زمیندار ہیں جو کہ زمینوں کی بڑی ملکیتیں رکھتیں ہیں اور نہی کی بنیاد پر
سیاسی اجارہ داریاں قائم ہیں ان طبقات کو اپنے اور حامیوں کے کام کروانے
کیلئے تھانے اور کچہری کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہمیشہ اقتدار میں شامل رہے
ہیں آج بھی ملک کے منتخب اداروں میں 60%سے زائد ممبران کا تعلق جاگیر دار
حلقوں سے ہے جبکہ کاروباری اور صنعتی نمائندوں کی نمائندگی بہت کم ہے ماضی
میں بڑے سرمایہ دار گروپ بعض سیاستدانوں کو انتخابات میں کھڑا کرتے ان کی
مالی معاونت کرتے تا کہ وہ پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں مگر وقت گزرنے کے
بلخصوص جنرل ضیا ء الحق کے عہد میں کاروباری طبقات نے سیاست میں برار راست
حصہ لینا شروع کیا اس نئے سیاسی عمل کے نتیجہ میں مسلم لیگ جنیجو اور بعد
میں مسلم لیگ نوا ز قائم ہوئی 35سال اقتدار میں رہنے کے بعد آج اس جماعت کی
قیادت کو احتساب کا سامنا ہے میاں نواز شریف ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں
باہر آ چکے ہیں اور اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کو طے کرنے میں مصروف ہیں
جبکہ میاں شہباز شریف کو پانی کمپنی اور ہاؤسنگ سکینڈل میں گرفتار کر لیا
گیا ہے بظاہری طور پر ہمیں گرفتاری کے بعد کچھ احتجاجی سیاست دیکھنے کو ملی
ہے کیا نواز شریف کی جماعت کوئی مزاحمتی تحریک چلا سکے گی ایسا محسوس ہوتا
نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ پنجاب کے عوام کثیر تعداد میں احتجاج کیلئے سڑکوں
پر نہیں آئے ہیں نواز شریف فیملی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پنجاب میں تعلیم،
اور دیگر ترقیاتی کام بھرپور طریقے سے کروائے ہیں جبکہ شہباز شریف کے
ترقیاتی کاموں کی غیر ملکی راہنماؤں اور جریدوں نے بھی تعریف کی ہے مگر
پنجاب کی 11کروڑ آبادی جس کا 62%حصہ دیہاتوں اور 48%حصہ شہروں میں رہتا ہے
نواز شریف کا زیادہ تر ووٹ بینک شہری حلقوں میں موجود ہے جہاں پر ان کو
مقامی الیکٹ ایبلز مڈل کلاس پاور بروکرز پراپرٹی ڈیلر اور ٹھیکیداروں کی
حمایت حاصل ہے مگر2018کے انتخابات میں ان ایلکٹ ایبل نے اپنا سیاسی موڈ
بدلا تو مسلم لیگ ن کو انتخابات میں کم کامیابی حاصل ہوئی کیونکہ یہی چند
سو گھرانے ریاستی اداروں کی پراکسی ہیں یاد رہے مسلم لیگ ن کے تمام حامیوں
کا تعلق عام پبلک سے نہیں بلکہ اس پاور بیس پر ہے جو کہ سماج کی کئی پرتوں
میں موجود ہے یہ پرتے عوام کو دباتی اور انتظامی افسروں کی خوش آمد کے
ذریعے اپنا کام کروانا جانتی ہے یہ طبقات کبھی بھی کوئی احتجاجی تحریک نہیں
چلا سکتے ہیں یاد رہے پاکستان میں مزاحمتی سیاست کا تجربہ صرف صحافیوں
بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا ہے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق کی
آمریت کے عہد میں جمہوری آزادیوں کے علم کو بلند رکھا مگر اب ایسا ہوتا ہوا
محسوس نہیں ہو رہا ہے ۔اب جبکہ تحریک انصاف اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر
احتسابی عمل کو تیز کرنے کیلئے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں عمران خان نے
اپنے ایک بیان میں احتسابی اداروں کی سست روائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا اگر
مجھے اختیار ہوتا تو اب تک پچاس سیاست دان جیل میں ہوتے اس انتہا پسندی کو
ملک کے دانشور حلقے معتبر اور متوازن کارروائی نہیں قرار دیتے ہیں کیونکہ
کرپشن کا تعلق محض سیاست دان سے نہیں بلکہ اس سے دیگر اداروں کی جڑت سے ہے
جو کہ کالے دھن کی کمائی کے بغیر دولت کے انبھار اکٹھے نہیں کر سکتے ہیں اس
طرح ان تمام طبقات کا ملک کے مسائل کو لوٹنے پر ایک ہی رویہ ہے لہذا
احتسابی عمل کی ہنڈیہ چڑھتی ہوئی دیکھائی نہیں دیتی ہے ۔
دوسری طرف ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے حکومت کے بقول آئی ایم ایف نے
پیکج کیلئے اس کے پاس چل کر آئی ہے اور وہ اس ضمن میں جلد فیصلہ کرے گی
دوسری طرف حکومت کو اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک سے بھی
قرضے ملنے کی امید ہے جس سے یقینا زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنے میں
مدد مل سکتی ہے مگر گردشی قرضوں کو روکنے کیلئے عمران خان کے بقول گیس کی
قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے عوام کو مزید مہنگائی کا سامنا ہو سکتا
ہے گزشتہ دس برس پہلے ملک میں جمہوریت کے نئے دور کا آغاز ہوا تھا لیکن
سابق دونوں حکومتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس جمہوریت کی اصلیت
کو اشکار کرتا ہے دونوں پارٹیوں سے مایوس ہو کر کرپشن کے منتر پڑھنے والی
تحریک انصاف کو اقتدار سونپا گیا ہے بلوچستان میں ایک نئی سیاسی پارٹی قائم
کر کے اس کو اقتدار میں حصہ دیا گیا ہے مگر ماضی میں انہی نمائندوں نے
سماجی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا ہے یہ بات بھی قابل
غور ہے کہ ابھی تک کوئی قابل عمل روڈ میپ معیشت کی بحالی کیلئے سامنے نہیں
آیا ہے اور نہ ہی صنعت کاروں کیلئے کسی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے پاکستان
کی صنعت تین پرتوں پر مشتمل ہے جس میں بڑی صنعتیں، جس میں سیمنٹ کھاد، سٹیل
چینی بنانے کے کار خانے اور ہیوی مشینری تیار کرنے کے ادارے شامل ہیں دوسری
سطح پر سمال میڈیم ادارے ہیں جس میں سو تک ورکر ز کام کرتے ہیں ان اداروں
کے پاس چونکہ ذاتی ملکیت میں جائیدادیں اور کار خانے نہیں ہوتے ہیں اس لیے
وہ انہیں گروی رکھ کر قرضے نہیں حاصل کر سکتے ہیں کسی ملک کے پیدا واری عمل
میں سمال میڈیم اداروں کا اہم رول ہے ضروری ہے ان اداروں کو اسٹیٹ بینکوں
کو قرضے فراہم کرنے کی ہدایت کرے تا کہ وہ پیدا واری عمل کو تیز کر
سکے۔احتساب کے ساتھ معیشت کی بحالی کے عمل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے قرضے
وقتی طور پر تو معاملات کو سدھار سکتے ہیں مگر اصل معاملہ معیشت کی بحالی
کا ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی صنعتی اور زرعی پیدا وار عمل ہے حکومت کو اس ضمن
میں ٹھوس پالیسی سامنے لانی چاہیے۔احتساب کے نعروں سے اپنے خامیوں کو تو
خوش کیا جا سکتا ہے مگرغریب عوام کے صحت تعلیم روز گار اور غربت کے مسائل
کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔
|