معاشرے کے اندر مختلف قسم کی برائیاں پائی جاتی ہیں ان
برائیوں کی اصل جڑ کیا ہے اس جڑ کو ختم کرنا ہوگا تبھی جاکر ہمارا معاشرہ
درست ہوگااور امن و سلامتی نظر آئے گی ۔ آج دنیامیں تمام مذاہب امن وسلامتی
کے دعوے پیش کرتے ہیں۔ بیشتر تحریکیں اور تنظیمیں فروغ انسانیت اور الفت
ومحبت کا دم بھرتی ہیں، بلکہ ان چیزوں کو بطورشناخت اور لیبل پیش کرتی ہیں
مگر حقیقت یہ ہے کہ ان ساری چیزوں کا جو تصور مذہب اسلام میں موجود ہے وہ
جامع تصور نہ کسی اور مذہب میں پایاجاتاہے اور نہ ہی دنیا کی کسی بھی تحریک
اور تنظیم میں۔ چونکہ کسی بھی مرض کا جو علاج آسمانی نسخہ میں موجود ہوگا
وہ کسی بھی انسان کے وضع کردہ نسخہ میں نہیں ہوسکتاہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ امن وسلامتی دراصل باہمی مضبوط روابط انسانیت اور
آپسی محبت وانسیت سے فروغ پاتی ہے۔ جس معاشرے میں بھی انسانیت اور آپسی
محبت وانسیت کا جس قدر وجود ہوگا اسی کے بقدر وہاں پر امن وسلامتی کے آثار
ملیں گے اور جس سر زمین پرجس قدر یہ چیزیں مفقود ہوں گی وہاں پر اسی کے
بقدر امن وسلامتی کا وجود بھی خطرے میں ہوگا۔
یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ جس محلہ اور گاؤں میں لوگوں کے باہمی
تعلقات مستحکم ہوتے ہیں، وہاں آپسی محبت وانسیت کی حکمرانی ہوتی ہے، وہاں
انسانیت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ اور جہاں انسانیت کا وجود ہوتا ہے، وہاں
لوگ ایک دوسرے کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی عزت وآبرو کی مکمل
حفاظت کرتے ہیں، وہاں پر کسی پر کیچڑ اچھالنا تو دور کی بات؛ بلکہ دوسرے پر
اچھالے گئے کیچڑ کو صاف کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔ اور جس معاشرے میں یہ
خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں وہی معاشرہ امن وسلامتی کا گہوارہ کہلاتاہے۔ اس کے
برعکس جس معاشرے میں آپسی کشیدگی ہو، دلوں میں بغض وحسد کا آتش فشاں پھٹ
رہا ہو، جہاں پر بدظنی کی لہر پائی جاتی ہو، وہاں آپسی محبت وانسیت کی روح
مر جاتی ہے اور اخوت وبھائی چارگی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں
پھر انسانیت کا تصور عبث ہے اور اس کی امید کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
بلاشبہ اس معاشرے میں جہنم کا ماحول نظر آئے گا اور وہاں امن وسکون کا دور
دور تک نام ونشان نہ ہوگا۔
بلکہ وہاں رنجشوں کی بھٹی ہر وقت دہکتی ہوگی، جو تعلقات کو جلا کر خاکستر
کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہاں نفرت وبدظنی کی آندھی ہوگی، جو اخوت وبھائی
چارگی کو بنیاد سے ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہاں ایک دوسرے کے پیچھے پڑنے
کا ایسا گھناؤنا ماحول ہوگا جس سے انسانیت پناہ مانگتی ہوگی۔ انہی امراض
ناسور سے بچنے کے لیے قرآن حکیم نے بدظنی سے بچنے کا حسین نظریہ پیش کیا۔
ارشاد باری ہے
ترجمہ:اے ایمان والو!بہت بدگمانیوں سے بچو۔ یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں
گناہ ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔
کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو
اس سے گھن آئے گی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بیشک اﷲ توبہ قبول کرنے والا مہربان
ہے۔(سورۃ الحجرات)
بدگمانی سے بچو!
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: تم بد گمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔
(بخاری5143،مسلم2563)
قرآن وحدیث نے آخر بدظنی سے اس قدر دور رہنے کی تاکید کیوں کی ہے؟ بلاشبہ
یہ تاکید ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا بدظنی ایک بہت ہی بری چیز ہے اور
اس سے بڑے بڑے خطرات وجود میں آتے ہیں۔ یہ تاکید اس لیے بھی کی گئی تاکہ
ایک صالح معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ یہ تاکید اس لیے بھی کی گئی تاکہ امن
وسکون کا ماحول بن پائے ۔ چنانچہ دین اسلام نے کتاب وسنت کے ذریعہ متعدد
طرق سے لوگوں کو حسن ظن کی ترغیب دلاتے ہوئے اوربدظنی کی مذمت کرتے ہوئے اس
کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کیا ہے تاکہ لوگ اس سے بچنے کی ہر ممکن تدبیر
اختیار کریں۔
ظن کے معنی ہیں گمان کرنا۔ مطلب، اہل خیر اور اہل صلاح وتقوی کے بارے میں
ایسا گمان رکھنا جو بے اصل ہو،یقینا تہمت وافتراء کے ضمن میں آتاہے۔اسی لیے
اس کا ترجمہ بدگمانی سے کیا جاتا ہے۔ اور حدیث میں اس کو کذب الحدیث (سب سے
بڑا جھوٹ)کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
بدگمانی سب سے بڑاجھوٹ ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا: تم بد گمانی سے بچو، کیوں کہ بد گمانی سب سے بڑ اجھوٹ ہے، اور
عیبوں کی ٹوہ مت لگا ؤاور نہ جاسوسی کرو، اور نہ دوسرے کا حق غصب کرنے کی
حرص اور اس کے لیے کوشش کرو، نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ باہم بغض رکھو،
نہ ایک دوسرے کو پیٹھ دکھاؤ، اور اے اﷲ کے بندو!تم بھائی بھائی ہو
جاؤ۔(امام مسلم رحمہ اﷲ نے اس حدیث کو باب تحریم الظن کے تحت ذکر کیا ہے ۔
یعنی بد گمانی کو حرام کاموں میں شمار کیا ہے)
عموما بدگمانی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی عیب جوئی میں لگ جاتے ہیں۔ جب کہ
عیب جوئی نہایت ہی گھٹیا خصلت ہے۔ ایک مسلمان کی صفت یہ ہے جب کسی کے اندر
کوئی عیب دیکھ بھی لے تو اس کو چھپانے کی کوشش کرے۔
نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جو کسی کا عیب چھپائیگا، تو اﷲ تعالیٰ
قیامت کے دن اس کا عیب چھپائے گا۔ مگر جو شخص کسی کے عیب ظاہر کرنے میں لگ
جاتا ہے،تو وہ گویا فتنہ وفساد کو جنم دینے میں لگ جاتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کو فر ماتے ہوئے سنا، آپ فرماتے تھے کہ: اگر تو مسلمانوں کے عیبوں کی
تلاش میں رہیگا تو ان کے اندر بگاڑ پیداکریگا یا قریب ہے کہ تو ان کے اندر
فساد پیداکردیگا۔(ابوداؤد4888)
قرآن وسنت سے ہمیں یہی معلوم ہواکہ اصل بگاڑ کی جڑ بد گمانی ہی ہے بدگمانی
ہی کی وجہ سے سب خرابیاں وجود میں آتی ہیں قتل وغارت یاڈاکہ زنی جیسے دوسرے
جرائم ہوں ان کے پیچھے اگر چھپی ہوئی کوئی چیر ہے تو یہی بدگمانی وغیبت ہے
۔اﷲ تعالی ہم سب کو بد گمانی اور اس سے پیدا ہونے والی تمام برائیوں سے
محفوظ رکھے(آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)
|