پاکستان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں اور اِن کے چیلے
چانٹوں کی کرپشن اور لوٹ مار کاہی نتیجہ ہے کہ کرپشن کے لحاظ سے سرزمین
پاکستان کا شماردنیا کے107ویں نمبر پر ہوتاہے ۔یقینی طور پر یہ پوزیشن بھی
دنیا کے کسی بھی تہذیب یافتہ اور کرپشن سے پاک ملک کے لئے شرم کا مقام ہے۔
مگر سرزمین پاکستان جہاں چھ ، سات دہائیوں سے جتنے بھی حکمران آئے، کسی نے
بھی کرپشن کو گناہ سمجھنا گوارا نہیں کیا ۔جو بھی آیا اُس نے کرپشن کو اپنی
بقاء اور ثوابِ دارین سمجھ کا کرنااپنے لئے بہتر جانا،اُس کے اِس فعلِ شنیع
سے مُلک اور قوم کا توبیڑاغرق ہوگیامگر مفاد پرست کرپٹ عناصر کا
معیارِزندگی بلندسے بلند تر ہوتاگیا۔
راقم کو یقین اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہاہے کہ آج اگر پاکستان میں
بھی دنیا کے تہذیب یافتہ اور کرپشن سے پاک ممالک کی طرح کرپٹ حکمرانوں،
سیاستدانوں اور دیگر کرپٹ عناصر کو (کڑی سزا کی صورت میں )اُن کا اصل مقام
مل جاتا؛ تو عین ممکن تھا کہ وطن عزیز میں بھی نہ کرپٹ عناصر ہوتے اور نہ
کرپشن اتنی پنپتی، افسوس ہے کہ ہمارے مُلک میں کسی نے بھی کرپشن اور کرپٹ
عناصر کا قلع قمع کرنے کا کبھی نہیں سوچا ہے ۔
اگرکبھی کوئی نیک بندہ اِس جانب پہلاقدم بڑھاتا (جیسا کہ آج موجودہ حکومت
کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف بلاتفریق اقدامات کررہی ہے )تو کرپٹ حکمرانوں
، سیاستدانوں اور قومی اداروں میں برسوں سے قابض اِن کے چیلے چانٹوں کو اُن
کا اصل مقام زمین سے تین چار فٹ اُٹھا کر زمین کے تین فٹ نیچے کردیتا۔تو آج
یقین کے ساتھ کہاجاسکتا تھا کہ مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کا جڑ سے
خاتمہ ہوگیاہے۔ مگرقوم فکر نہ کرے، کوئی بات نہیں ستر سال بعد ہی سہی ’’
دیرآید درست آید‘‘ جو پہلے نہیں ہوسکاتھا۔ وہ اَب ہونے جارہاہے ۔ آخربکرے
کی مَیں کب تک خیر بناتی ، کل نہیں،تو آج کرپٹ حکمرانوں، سیاستدانوں اور
اِن کے سہولت کار وں کو اُن کا اصل مقام زمین سے تین فٹ اُوپر اُٹھاکر تین
فٹ نیچے زمین میں مستقل جانے کی اُمید ہوچلی ہے ۔ جیسا کہ ہمارے دوست چین ،
سعودی عرب ،ترکی دیگر ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اِن ممالک میں کرپٹ
حکمرانوں اور سیاستدانوں کا عبرت ناک حشر ہوا ہے اورآج بھی کرپٹ عناصر اور
قومی چوروں کی سزا موت ہے۔
اِس منظر اور پس منظر میں مُلک کو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک دیکھنے والے
بائیس کروڑ محبِ وطن پاکستانیوں کو اُس دن کا بے چینی سے انتظار ہے کہ
موجودہ حکومت احتساب اور قانون کے اداروں سے صاف وشفاف تحقیقا ت کے بعد جلد
از جلد داڑھی ، موچھوں اور بغیر داڑھی موچھوں اور ڈوپٹے والیوں (مردو عورت
) حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کڑی سزا دینے کے لئے احتساب اور قانون کے
اداروں کو فری ہینڈ دے کر خود مختار بنا چکی ہے، اِسی لئے پاکستا نی قوم
کواُمید ہوچلی ہے کہ مُلک بہت جلد ماضی کے کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے
پاک ہوجائے گا، اور حقیقی معنوں میں معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم ہوکر
ترقی اور خوشحالی کی اُس سمت پر گامزن ہوجائے گا جو کرپٹ عناصر کبھی نہیں
چاہتے تھے۔
تاہم یہاں یہ اِمر قابل ستائش اور حوصلہ افزا ء ضرور ہے کہ گزشتہ دِنوں
ارضِ پاک کو سنگین مالی بحران سے نکالنے کے لئے سعودی عرب کے کامیاب دورے
سے واپسی پر قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران کان نے ایک مرتبہ پھر
سینہ ٹھونک کر کرپشن کے خاتمے اور بدعنوان افراد کے کڑے احتساب کا اعادہ
کرتے ہوئے کہاہے کہ عوام سے وعدہ کیا ہے کہ کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈالیں
گے، بعض جماعتیں احتساب کا عمل رکوانے کے لئے دبا وڈال رہی ہیں ،یہ لوگ جو
مرضی کرلیں ، جتنا چاہیں شور مچالیں، لیکن ہم کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں
گے ، کسی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑوں گا،احتساب ضرور ہوگا، کان کھول کر سن لیں
کسی کو این آراو نہیں ملے گا،قوم بالکل فکر نہ کرے ، تھوڑی دیر کے لئے
مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستان کو کرپشن کے کینسر نے مفلوج کردیاہے،
اَب30ہزارقرض کا آڈٹ کرایا جائے گا‘‘ بیشک ، وزیراعظم عمران خان کا سعودی
عرب کا کامیاب ترین دورہ رہاہے ۔اِس کے ثمرات بہت جلد عوام الناس کو مہنگا
ئی کی لگام دینے کی صورت میں ضرور نظر آنے چاہیئے ورنہ قوم سوالیہ نشان لگا
دے گی؟
جبکہ اِس حوالے سے وزیرخزانہ اسد عمر کا یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ ہمیں
سعودی عرب تین سال تک (سالانہ 3ارب ڈالر کا اُدھار تیل دے گا) نہ صرف یہ
بلکہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرے گا اِس کے علاوہ دیگر حوالوں سے
بھی اپنا تعاون جاری رکھے گا، گرچہ اِس دورے میں سعودی عرب سے کسی بھی صورت
میں جتنے بھی ارب روپے ملے ہیں یا آئندہ ملیں گے۔ اِس سے ہماری روتی بلکتی
، سسکتی معیشت اورڈالر کے مقابلے میں زمین بوس ہوتی پاکستانی کرنسی کو بھی
سر اُٹھانے کاضرور موقع مل جائے گا۔ تو وہیں،بے لگام ہوتے ڈالر کو بھی لگام
ڈال دی جائے گی تب کہاجاسکے گا کہ ڈالر کی اُونچی اُڑان کے پَر کٹنے کو ہیں
۔ دُعاہے کہ حکومت کی کوششیں جلد رنگ لائیں اور آکسیجن لگی مُلکی معیشت کی
حالت بہتر ہوجائے، تو اپوزیشن کی تنقید کرتی زہر اگلتی زبان بھی بند ہوجائے
گی۔ اِس طرح حکومت کوبھی اپنے کام کرنے کا موقع مل جائے گا۔اِس میں کوئی
دورائے نہیں ہے کہ آج تیس ہزار ارب کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کو
اِس نہج تک پہنچا نے والے ماضی کے حکمران اور سیاستدان ہیں،جنہوں نے مفلوک
الحال عوام کا چہرہ دکھا کر اقوامِ عالم سے قرضے لیئے اور اللے تللے کرکے
کمر پر ہاتھ صاف کرکے چلتے بنیں،آج جب پاکستان اپنی تاریخ کے شدیدترین
معاشی و مالیاتی بحران سے دوچار ہے؛ تو اِس کی ذمہ دار دوماہ کی حکومت کو
ٹھیرایا جارہاہے۔
جبکہ مُلک کو قرضوں کے عذاب میں دھکیلنے والی تو ماضی کی حکومتیں اور
حکمرانوں کی شکل میں وہ قومی چور ہیں۔ جنہوں نے اپنی عیاشیوں کے لئے سود کے
عوض قرضے لئے جو قوم کا مستقبل سیاہ کرگئے ، یہ اُن کرپٹ حکمرانوں اور
سیاستدانوں کی کرپشن ہے۔جس کا خمیازہ ظاہر و باطن طور پر مہنگا ئی اور بھوک
و افلاس کا کلنگ کا ٹیکہ لگا کربائیس کروڑ عوام کو بھگتنا پڑرہاہے۔یہاں
غریب پاکستانیوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہورہاہے کہ آخر کب تک ؟ہم ماضی
کے کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن کا عذاب بھگتے رہیں گے ؟توقوم
خاطر جمع رکھے ، اِن شا ء اﷲ بہت جلد اِس سے قوم کو نجات مل جائے گی۔(ختم
شُد) |