پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج معاشی عدم
استحکام ہے اگر اس معاشی مسئلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے
کہ پاکستان کے حکمران اس کی بنیادی وجہ ہیں جن کی وجہ سے آج پوری قوم اس
مسئلے میں بھنسی ہوئی ہے پاکستان میں جو بھی حکومت آئی اس نے خزانہ خالی
ہونے کا رونا رویا یہ بات ستر سالوں سے عوام سنتے آئے ہیں کہ کہ پاکستان کا
وجود خطرے میں ہے سوال یہ ہے کہ پاکستان کا وجود خطرے میں ڈالا کس نے ؟اس
سوال کے جواب میں بہت سے لوگ بہت سے جوابات دیتے ہیں مگر جو طبقہ سب سے
زیادہ اس کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے وہ ہے ہمارا حکمران طبقہ جن کا یہ کام
تھا کہ وہ پاکستان کے لئے کام کرتے اس میں عوامی فلاح ترقی و کامرانی کے
لئے قوانین بناتے جن سے یہاں کے عوام کی زندگیاں آسان ہوتی مگر یہ لوگ اپنے
اثاثے ہی بناتے رہے اورآج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کوئی بھی حاکم صادق
و امین نہیں رہا ہے اکثریت لوٹ مار میں مشغول رہی ستر کی دھائی میں اگر
ہمارا ملک دینا کے بہتر ممالک میں شمار ہوتا تھا تو آج کیا وجہ ہے کہ دنیا
ہم سے آگے ہے اور ہم وہاں ہی ہیں جہاں سے ستر سال پہلے تھے آج عوام جس
تبدیلی کی تمنا کر رہے ہیں وہ تبدیلی آنی چاہیے کیونکہ ہم نے ہمیشہ دو ہی
جماعتوں کو اقتدار میں دیکھا ہے اب اگر ایک نئی جماعت جس کا دعویٰ کے وہ
پاکستان کو آگے لیکر جا سکتی ہے اس کو موقع بھی دیا گیا ہے تو یہ بہت اچھی
بات ہے اس کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے پاکستان کی ترقی سب سے زیادہ
افضل ہے چاہے اس کے لئے کوئی بھی جماعت ہوہمیں ہمارے ملک کی ترقی عزیز ہے
دوسری بات یہ کہ اب کی بار واضح طورپر جو ہمارے حکمران طبقے کا احتساب ہو
رہا ہے اس عمل کو جاری رہنا چاہیے دنیا چائنہ کی ترقی کی مثال دیتی ہے مگر
یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہاں کرپشن کی سزا موت ہے اور یہ نہیں کہ چھوٹے
لوگوں کو کرپشن پر سزا دی جائے اور بڑوں کو چھوڑ دیا جائے جیسا ہمارے ہاں
ہوتا ہے بلکہ وہاں احتساب بڑے لوگوں سے شروع ہو تا ہے چائنہ دینا کا وہ
واحد ملک ہے جہاں پرکئی وزراء اوراعلیٰ حکام کو اس جرم ثابت ہونے پر موت کی
نیند سلا دیا گیا اگر یہی فارمولا پاکستان میں لاگو کیاجائے یا کسی بڑے
آدمی کی کرپشن پکڑی جائے تو سب سے پہلا خطرہ وفاق کو ہوتا ہے کہ دوسرا خطرہ
صوبائی حکومتوں کو اور اگر یہ دونوں خطرات کسی طرح ٹل جائیں تو ہماری نام
نہاد جمہوریت خطرے میں آ جاتی ہے چند دن پہلے کسی ترقی یافتہ ملک کے صدر کو
کرپشن پر سزا ہوئی نہ تو وہاں پر کوئی مظاہرے ہوئے نہ جمہوریت کو خطرہ ہوا
نہ کوئی توڑ پھوڑ ہوئی گزشتہ چند ماہ سے جب سے ہمارے حکمران طبقے کا بے رحم
احتساب شروع ہوا ہے سیاسی جماعتوں میں نئی صف بندیاں سامنے آ رہی ہیں ماضی
میں ایک دوسرے کہ دشمن اب ایک دوسرے کے دوست بن رہے ہیں کسی بات پر نہ
ماننے والے آج اگھٹے ہو رہے ہیں سوشل میڈیا پر ان لوگوں کے اکھٹے ہونے کی
تصاویر سب کے سامنے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ کھبی پاکستان کی خاطر
اکھٹے ہوئے؟ کیا یہ لوگ کھبی عوام کی خاطر اکھٹے ہوئے ؟؟نہیں جناب یہ لوگ
صرف ایک چیز پر اکھٹے ہو سکتے ہیں وہ ہے ان کے مفادات الیکشن سے پہلے ایک
دوسرے ے دشمن بننے والوں کی دم پر جب احتساب کا پاؤں آیا تو دو دن میں ہی
آل پارٹیز کانفرنس بلا لی کیا پاکستان کے کسی بھی بڑے مسئلے ،دہشت گردی ،مہنگائی
،معاشی صورت حال ،عوامی مسائل پر مولاناصاحب ،زرداری صاحب، یا میاں صاحب نے
کھبی کوئی ایسی آل پارٹیز کانفرنس بلائی اگر کوئی لولی لنگڑی آل پارٹیز
کانفرنس بلائی بھی تو اس کے فیصلے ہی نہ ہو سکے جناب یہ حکمران طبقہ اب جس
بے رحم احتساب سے ڈر رہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی آج وقت کا تقاضا
ہے کہ جن جن لوگوں کا نام پانامہ میں آیاہے کہ ان کے خلاف بھر پور کاروائی
کی جائے اور جو بھی سابق ،حاضر سروس لوگ اس گھنونے کام میں ملوث ہیں ان کو
کسی قیمت پر نہ چھوڑا جائے غضب خدا کا جس ملک میں غریب اپنی غربت سے مر رہا
ہے وہاں کہ بے نامی اکاؤنٹ سے اربوں کھربوں کی ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں کسی
غریب کے نام پر اکاؤنٹ کھول کر اپنی ناجائز کمائی کو جائز کیا جا رہا ہے
اور اوپر سے لیکر نیچے تک تمام محکمے غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور اس سارے
گھنونے کام میں بینک اور ان کا عملہ ضرور شامل ہے جس میں یہ جعلی اکاؤنٹ
کھولے گئے ہیں لوگ سسٹم کی خرابی کی بات کرتے ہیں شرطیہ بات ہے کہ اگر آپ
کا کوئی قانونی اکاؤنٹ ہے تو آپ کو رقم جمع کرواتے ہوئے یا نکلواتے ہوئے
اتنی کڑی جانچ پڑتا ل کا سامنا کرنا پڑاتا ہے کہ کھبی کھبی انسان زچ ہو
جاتا ہے کہ اتنی سختی ۔ اور صدقے جاؤں ان اداروں کے جن کا کام ان بینکوں کو
مانیٹر کرنا ہے وہ ایسے غفلت میں ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہو چکی ہے
اور صرف آکاؤنٹ نہیں فعال ترین اکاؤنٹ چلتے رہے آج اس بات کی اشد ضرورت ہے
کہ موجود احتسابی عمل اسی غیر جانبداری سے جاری رکھا جائے تاکہ جن جن لوگوں
نے اس ملک کو لوٹا ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے تاکہ اس ملک میں
چھائے ہوئے اندھیرے پھر سے روشنی بن کر ہماری آنے والی نسلوں کومحفوظ بنا
سکیں اس کے لئے احتسابی عمل کا جاری رہنا ضروری ہے ستر سالوں سے موثر
احتسابی عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہی آج حالات ایسے ہیں کہ ملک اربوں کھربوں
کا مقروض ہو چکا ہے - |